The news is by your side.

پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

ملک کے متزلزل سیاسی منظر نامے میں پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے ساتھ زبردست ہلچل پیدا ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ کر مستقبل کی پیش بندی شروع کر دی ہے۔

گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی پاکستان تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی نے 11 اپریل کو اسمبلی فورم پر ہی اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال بھی کردیے تھے لیکن ان استعفوں کو منظور کرنے میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں جولائی میں منتخب 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے تھے جن میں 9 جنرل اور دو مخصوص نشستوں کے اراکین تھے۔ ان میں سے 7 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں سے 6 پر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کامیابی حاصل کر کے ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف اس دوران اپنے تمام اراکین کے استعفوں کی منظوری کے لیے متعدد بار آواز بھی اٹھاتی رہی۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکٹایا گیا لیکن حکومت سمیت تمام اداروں نے پی ٹی آئی اراکین کو واپس اسمبلی میں آنے کا ہی مشورہ دیا۔ اسی دوران استعفوں کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے دباؤ بڑھانے پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ استعفے منظوری کے لیے آئین اور قانون کا طے شدہ راستہ اپنایا جائے گا۔ جب تک پی ٹی آئی اراکین انفرادی طور پر پیش ہو کر استعفوں کی تصدیق نہیں کرتے اور استعفے ہاتھ سے لکھے نہیں ہوتے تب تک استعفے منظور نہیں کیے جائیں گے۔

گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے وفد نے اسپیکر چیمبر میں راجا پرویز اشرف سے استعفوں کی منظوری کے لیے ملاقات کی تھی تاہم اس وقت بھی اسپیکر اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے اور پی ٹی آئی کو نامراد لوٹنا پڑا تھا۔ اس تمام صورتحال میں ایسا اچانک کیا ہوا کہ برسات کی تیزی کے مثل پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کیے جانے لگے اور صرف دو روز کے وقفے سے 70 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے جن میں سے 64 جنرل نشستوں پر منتخب اراکین اور 6 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔

اب تک جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں علاوہ عمران خان پی ٹی آئی کی تمام صف اوّل کی قیادت شامل ہے جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، مراد سعید، عمر ایوب، اسد قیصر، پرویز خٹک، شہریار آفریدی، علی امین گنڈاپور، نورالحق قادری، عامر محمود کیانی، مخدوم خسرو بختیار، ملیکہ بخاری، عندلیب عباس کے علاوہ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے ساتھ استقامت سے کھڑے سینیئر سیاستدان شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ عمران خان کو اس لیے قومی اسمبلی سے باہر نہیں کیا جاسکتا کہ جس نشست پر انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اس پر تو الیکشن کمیشن نااہل قرار دے چکا جب کہ ضمنی الیکشن میں حاصل نشستوں پر استعفوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس تیزی سے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے دو روز کے دوران منظور کیے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنے کا قومی امکان ہے تو کیا استعفوں کی منظوری کے لیے اسپیکر کے بتائی گئی شرائط مکمل ہوگئیں؟ کیا تمام اراکین نے انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر اپنے استعفوں کی تصدیق کر دی؟ کیا جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے انہوں نے اپنے استعفے آئین اور قانون کے مطابق ہاتھ سے لکھ کر دے دیے؟ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر حکومت نے استعفوں کی منظوری پر یوٹرن کیوں لیا؟

یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ عمران خان جب سے اقتدار سے باہر ہوئے ہیں تب سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک فوری شفاف عام انتخابات کرائے جائیں اور عوام جس کو بھی منتخب کریں وہ حکومت سنبھالے۔ پی ڈی ایم کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں تو شاید پی ڈی ایم میں بھی اس حوالے سے سوچ واضح تھی۔ کچھ ضروری قانون سازی کرکے الیکشن کرا دیے جائیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ ایک شکست کے خوف میں تبدیل ہوکر کہیں ہوا ہوچکی ہے۔

دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی، عوامی مسائل سے دور پی ڈی ایم حکومت کی اپنی کیسز ختم کرانے کیلیے صرف احتساب قوانین کے خاتمے میں دلچسپی اور پھر بڑے کرپشن کیسز میں ریلیف ملنا، شدید معاشی بحران اور ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ جانے کے باوجود جہازی سائز کابینہ میں مسلسل اضافہ، وزیراعظم اور وزرا کے شاہانہ غیر ملکی دورے نے جہاں پی ڈی ایم کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ وہیں عمران خان کا غیر ملکی مداخلت سے ان کی حکومت ختم کرنے کا بیانیہ عوام میں مقبولیت اختیار کرگیا جس کو حکومت کے ہی بعض اقدامات نے مزید تقویت دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 13 جماعتی اتحاد مقبولیت کے بجائے غیرمقبولیت کی انتہا کی طرف بڑھ گیا جب کہ عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

گزرے سال کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سے خالی ہونے والی 20 صوبائی نشستوں میں سے 16 پر پی ٹی آئی کامیابی اور پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری سے قومی اسمبلی خالی 7 نشستوں میں 6 پر عمران خان کی تنہا کامیابی نے حکومتی اتحاد کی مقبولیت میں سمجھو آخری کیل ٹھونک دی۔ پی ٹی آئی نے یہ کامیابیاں پنجاب میں ن لیگ کا گڑھ کہلائے جانے والے لاہور اور ایم کیو ایم کے گڑھ کراچی میں اس صورتحال میں حاصل کیں کہ ایک جماعت کے مقابلے میں 13 جماعتوں کا ایک مشترکہ امیدوار میدان میں تھا۔

اس تمام عرصے کے دوران پی ٹی آئی نے سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے بھی حکمران اتحاد کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ انتخابات کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں جس کے بعد تو ملک میں عام انتخابات کا ماحول بننے لگا اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں سمیت بااختیار حلقوں میں بھی باقاعدہ نئے انتخابات کے حوالے سے غور و خوض اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور سیاسی حلقوں میں قبل از وقت اپریل میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔

ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی اور عام انتخابات کی افواہوں اور چہ می گوئیوں کے ماحول میں مہینوں سے استعفوں کی منظوری کے لیے زور دینے اور موجودہ اسمبلی میں واپس نہ آنے کا واضح موقف رکھنے والے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اچانک گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا اور کہا کہ وہ سوچ رہے ہیں اسمبلیوں میں واپس جائیں تاکہ عام انتخابات کے اعلان سے قبل نگراں حکومت کا قیام پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی سے منحرف ہوکر موجودہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے پاس نہ رہے اور وہ اکثریتی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے اس مشاورت کا حصہ بنیں۔

عمران خان کے اس اعلان نے ہچکولے کھاتی پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے اور حکومتی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم کے اس بیان کے صرف چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی آئی کے 35 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے اور اگلے روز الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ حکومت نے پھرتی دکھاتے ہوئے ایک روز کے وقفے کے بعد ہی پھر دوبارہ 35 اراکین کے استعفے منظور کرکے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت اور اپنی سیاسی ناکامیوں کا شکار پی ڈی ایم حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے کہ عام انتخابات ناگزیر ہوچکے ہیں اور سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ حکومت کی استعفوں پر یوٹرن اور پھرتیاں بھی اسی لیے ہیں کہ وہ نگراں سیٹ اپ میں پی ٹی آئی قیادت بالخصوص عمران خان سے کوئی مشاورت نہیں کرنا چاہتی ہے۔

اس سیاسی تماشے کے دوسری جانب غربت کے پہاڑ تلے دبی وہ عوام ہے جو آٹا خریدنے کے بدلے میں موت پا رہی ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزی، گوشت سب اس کی دسترس سے دور ہوچکا ہے۔ دو وقت تو دور اکثریت کو ایک وقت کی روٹی بھی سکون سے دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں جب وہ سیاسی دنگل دیکھتی ہے۔ اپنے پیسے پر پرتعیش ہوٹلوں میں وزرا کا قیام و طعام، ترکی میں فیری اور نیاگرا فال کی تفریح کرتی تصاویر اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے پاس سوائے اپنے آنسو پینے اور سرد آہ بھرنے کے کچھ نہیں ہوتا۔

آخر میں‌ اقتدار کی لڑائی لڑنے والے سیاست دانوں کے گوش گزار یہ کرنا ہے کہ حکومت کسی زمین کے خالی ٹکڑے پر حکمرانی کرنے کا نام نہیں ہے۔ اصل حکمرانی عوام کے دلوں پر حکمرانی ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے ان کو ہی دل کے تخت پر بٹھایا ہے جنہوں نے ان کے حقوق کا پاس کیا ہے۔ آج بھوک اور افلاس سے بلکتی عوام منتظر ہے کہ اقتدار کی لڑائی سے ہٹ کر کوئی ان کی جانب بھی نظر کرم کرے۔ ایسے میں سیاستدان نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈر پر لازم ہے کہ ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ملک اور مصیبت کی ماری عوام کو بچانے کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں فیصلے کریں تاکہ تاریخ میں ان کا بھی اچھے الفاظ میں ذکر ہوسکے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں