The news is by your side.

دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

گزشتہ دنوں پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ پولیس لائنز کی مسجد میں دوران ادائیگی نماز خودکش دھماکے میں 80 سے زائد افراد جان سے گئے جب کہ کئی زخمی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ چند سال کے دوران بھی دہشتگردی کےبڑےواقعات ہوئے لیکن پچھلے تین ماہ میں ایک بار پھر اس عفریت نے سر اٹھایا ہے اور جہاں ملک میں سیکیورٹی اداروں‌ کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں وہیں مہنگائی کے بے قابو جن اور سیاستدانوں کی دھینگا مشتی نے بھی غریب عوام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

پاکستان جو پہلے ہی اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہر طرف یہ باتیں ہورہی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے بلکہ چند معاشی ماہرین نے تو دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے حکمراں جہاں سخت شرائط پر قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایم ایف کی منت سماجت میں لگے ہوئے ہیں، وہیں کاسہ گدائی بھی دنیا کے سامنے پھیلایا ہوا ہے جس سے قوم کا وقار ملیا میٹ ہو رہا ہے۔ ایسے میں دہشتگردی کے پھیلتے سائے نے صورتحال مزید سنگین کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان ملک دشمنوں کے مقابلے کے لیے یک جان ہوتے مگر روایتی مذمت کے ساتھ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے بے سر و پا بیانات اور اقدامات نے صورتحال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔

اپوزیشن نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت وزارت خزانہ کی جاری کردہ ماہانہ آؤٹ لک رپورٹ میں پاکستان کا مالی خسارہ بڑھنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ظاہر کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے اور اس کے حکومتی عہدیداروں سے مذاکرات بھی شروع ہوچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سخت ترین مذاکرات ہیں جس کے بعد عوام پر مہنگائی شکنجہ مزید کس دیا جائے گا۔ حکومتی وزرا ایک جانب غریب عوام کو ریلیف دینے اور دوسری جانب معاشی حالات میں بہتری کے لیے عوام سے مزید مشکلات برداشت کرنے کے متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات شروع ہونے سے ایک روز قبل حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اچانک اضافے کی سلامی آئی ایم ایف کو دے چکی ہے جب کہ آنے والے دنوں میں مزید اضافے کی بازگشت عوام کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے اور حکومتی و غیرحکومتی حلقوں کی جانب سے انہیں ایک نئے امتحان کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام کے تن پر جو چیتھڑے رہ گئے ہیں، حکومت اب عوام سے اس کی قربانی بھی چاہتی ہے۔ کیونکہ سیاست کے حمام میں تو سب پہلے ہی ننگے ہیں۔

یہ وہ ملک ہے جس کے حکمرانوں، سیاستدانوں، با اختیار افراد کے بیانات سن کر لگتا ہے کہ 75 سال سے ملک کسی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور اب تک اس موڑ سے نکلنے کی اسے راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک جانب آئی ایم ایف کے سامنے سخت شرائط پر قرض کے لیے جھولی پھیلی ہے تو دوسری جانب حکومت کا کشکول بھی دنیا بھر میں حرکت میں ہے۔ چین، سعودی عرب، یو اے ای جیسے دوست ممالک گاہے بگاہے ہمیں سہارا دیتے رہے ہیں لیکن مستقل پھیلا کشکول دوست تو کیا بھائی کو بھی برا لگتا ہے اور یہ بات ہمارے ارسطو دماغوں کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے ملک میں ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے پھر چاہے کچھ عرصے بعد پٹرول کی قیمت کچھ کم ہوجائے لیکن مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں حکومتی زعما کا رٹا رٹایا یہ بیان کہ اس کا بوجھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا سن کر اب تو ہنسی آنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں طبقہ خود کو ہی ملک کی غریب عوام سمجھتا ہے کیونکہ اسے پٹرول، بجلی، گھر کا کرایہ، کھانا، سفر، علاج سب کچھ تو مفت ملتا ہے تو پھر اس کا بوجھ ان پر کیسے پڑ سکتا ہے۔ قسمت کے مارے تو عوام ہیں کہ وہ آٹا لائیں تو دال کی فکر ستانے لگتی ہے۔ بچے کو دوا دلا دیں تو اسکول کی فیس کا مسئلہ اس کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔

ایک جانب عوام کو بنیادی ضروریات کھانے کو آٹا، پینے کو پانی، علاج کے لیے دوا میسر نہیں ہے۔ باقی ضروریات زندگی تو نہ جانے کب کی ان کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عملاً عوام سے مزید قربانی مانگنے کے بجائے حکومت خود اپنی شاہ خرچیاں ختم کرتی اور سادگی اختیار کرتی، لیکن یہ ہمارے حکمراں طبقے کی بے حسی کہہ لیں کہ عوام پر جیسے جیسے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے حکمرانوں کی عیاشیوں کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے۔

یہ ایک مذاق ہی ہے کہ دنیا کے مقروض اور ڈیفالٹ کے قریب کھڑے ملک کی کابینہ سب سے بڑی ہے جس کی وزرا، مشیروں کی تعداد 75 سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ان تمام کی مراعات بھی ایسی ہیں کہ جو دیگر امیر ممالک کی اشرافیہ کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ اس پر کمال یہ کہ جب یہ حکمراں قرض لینے یا امداد کی امید لیے کسی ملک کا دورہ بھی کرتے ہیں تو شاہی لاؤ لشکر کے ساتھ جایا کرتے ہیں جہاں ان کا قیام وطعام بھی شاہانہ ہوتا ہے اور ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی تصاویر جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر نشر یا پرنٹ ہوتی ہیں تو وہ عوام کے ادھڑے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتی ہیں۔

زیادہ دور نہ جائیں صرف موجودہ حکومت کے ابتدائی 9 ماہ ہی دیکھ لیں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ کیا وزیراعظم، کیا وزیر خارجہ، کیا اسپیکر قومی اسمبلی اور کیا دیگر وزرا کے علاوہ وزرا کی فوج ظفر موج سے باہر حکومت کے اتحادی سیاسی رہنما، سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ چاہے عمرے کی ادائیگی جیسا قطعی ذاتی مذہبی معاملہ ہو یا پھر قطر، یو اے ای، امریکا، جنیوا امداد کے لیے دورے ہوں حکومتی لاؤ لشکر لازمی ہوتا ہے۔

ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی کینیڈا جاتے ہیں تو قوم کے خرچے پر درجن بھر سے زائد وزرا کو فیملی کے ہمراہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں قیام وطعام ہوتا ہے، نیاگرا فال کی سیر و تفریح ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں وہ سرکاری خرچ پر یعنی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ترکی کا کئی روزہ دورہ کرتے ہیں اور شاہانہ فیری میں سیر وتفریح کرتے ہیں۔ بے حس سیاسی رہنماؤں کی یہ تصاویر گزشتہ سال قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور یہ تو صرف چند بڑی مثالیں ہیں ورنہ تفصیل میں گئے تو بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی۔ رہی بات ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی تو وہ شاید وزیر بنے ہی عوامی خرچ پر بیرون ملک دوروں کے لیے ہیں کہ 9 ماہ کی حکومت میں شاید وہ 9 ہفتے بھی ملک میں نہیں رہے ہوں گے۔

بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کے دو درجن سے زائد بیرونی دوروں پر غریب عوام کی خطیر رقم خرچ ہوچکی ہے لیکن قوم خوش ہوجائے کہ ان بیرونی ممالک کے دوروں کا فائدہ عوام کو ہی ہوتا ہے یہ ہم نہیں ہمارے وزیر خارجہ خود کہتے ہیں، جنہوں نے ڈیڑھ دو ماہ قبل اپنے گزشتہ دورہ امریکا میں کہا تھا کہ اگر حکومت میرے بیرون ملک دوروں کا خرچ اٹھاتی ہے تو یہ میرا حق ہے میں وزیر خارجہ ہوں اور میرے دوروں سے ملک کے عوام کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ موصوف اب خیر سے پھر امریکا کے دورے پر ہیں اور آئندہ دو ماہ کے دوران مزید دو بار امریکا جائیں گے۔

ملک میں سیاسی افراتفری اور سیاسی دھینگا مشتی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایک جانب اپوزیشن ہے جس نے عام انتخابات کے لیے تمام حربے استعمال کر ڈالے اور شہر شہر سڑکوں پر بھرپور احتجاج کے باوجود آرزو بر نہ آنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں تک ختم کر دیں تو دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادی ہیں جو نئے الیکشن سے مسلسل بھاگ رہے ہیں۔ کبھی معاشی حالات کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی بڑھتی دہشتگردی کا بیانیہ سامنے لے آتے ہیں۔ پہلے مطالبات پر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے استعفے منظور نہیں ہوتے تھے پھر جب نئے الیکشن کی راہ ہموار کرنے اور نگراں وفاقی حکومت پر مشاورت کے لیے عمران خان نے اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا تو صرف چند دن میں ہی تحریک انصاف کے باقی 113 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے گئے جن میں سے 33 عام حلقوں پر الیکشن کمیشن 16 مارچ کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرچکا ہے۔

قومی اسمبلیوں کے 33 حلقوں پر ضمنی الیکشن کے شیڈول پر قوم کے ذہن میں یہ سوال بھی کُلبلا رہا ہے کہ جب پی ٹی آئی کے ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کے مطالبے سے بچنے کیلیے حکومتی اتحادی اور ادارے بڑھتی دہشتگردی کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد اب تک ان صوبوں میں بھی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوسکا ہے اور دہشتگردی کو جواز بنا کر ان انتخابات کے التوا کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں تو کیا دہشتگردی کا خطرہ قومی اسمبلی کے 33 حلقوں میں آئندہ ماہ شیڈول ضمنی الیکشن پر نہیں پڑے گا؟

پھر ملک کے بدترین معاشی حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے تمام 33 حلقوں پر عمران خان کے الیکشن لڑنے کے اعلان نے ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے۔ عمران خان جو بلاشبہ ملک میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں اور گزشتہ سال اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی اسمبلی کے 6 ضمنی انتخابات تنہا جیت کر اس کو ثابت بھی کردیا۔ مگر ان 6 میں سے انہوں نے ایک ہی حلقہ اپنے پاس رکھنا ہے۔ اگر چند لمحوں کے لیے یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ عمران خان ان تمام 33 حلقوں پر اپوزیشن کو ناک آؤٹ کرتے ہوئے فتح یاب ہوں گے تو وہ تمام حلقے تو اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔ انہیں ایک ہی رکھنا ہوگا اور 33 پھر خالی ہوں گے تو کچھ سوچا ہے کہ ڈیفالٹ کی بازگشت میں ملک و قوم کے ساتھ یہ سیاسی مذاق کیا رنگ لائے گا۔

حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے ملک اور قوم کی بہتری اور معاشی استحکام کے لیے حکومت، اپوزیشن قومی مفاد میں تمام نہیں تو چند متفقہ نکات پر ایک پیج پر آئے جو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کہ حکومتیں تو بنتی رہیں گی، اور اس کے لیے عوام کی خوشحالی اور پاکستان کی بقا ناگزیر ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں