The news is by your side.

الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں الیکشن کرانے کے عدالتی حکم کے بعد لگتا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں کچھ کمی آئے گی، لیکن اس فیصلے سے جہاں حکومتی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا وہیں حکومتی ایما پر پیمرا کی پھرتیوں کے نتیجے میں پہلے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی اور پھر اچانک اے آر وائی نیوز کی ‘زباں بندی’ نے حکومت کی بوکھلاہٹ کو عیاں کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بھی پیمرا کی جانب سے دو مرتبہ اے آر وائی نیوز کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود نگراں حکومت کی جانب سے الیکشن شیڈول جاری نہ کرنے اور اس سے متعلق حکومتی حلقوں کے بیانات کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں ایک قسم کی بے چینی نظر آرہی تھی۔ سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور لارجر بینچ بنا کر سماعت کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا جس کے بعد الیکشن کمیشن بھی حرکت میں آیا اور صدر مملکت کو مجوزہ تاریخوں پر مبنی خط لکھ ڈالا۔ صدر علوی نے بھی دیر نہ لگائی اور پنجاب میں الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دے دی۔

ان سارے واقعات کے دوران ایوان اقتدار میں براجمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی صفوں میں تھرتھلی مچی رہی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پی ڈی ایم کے بڑوں کی بیٹھک میں پیپلز پارٹی تو نئے الیکشن پر تیار نظر آئی لیکن حسب سابق ن لیگ اور جے یو آئی (ف) ملک کی اس آئینی ضرورت سے ہنوز بھاگنے پر متفق دکھائی دیے۔ یوں کہا جائے کہ پی ڈی ایم میں الیکشن پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی وجہ بھی سامنے ہے اور وہ ہے پی ڈی ایم کی انتہا کو چھوتی عدم مقبولیت۔ اگر کوئی اسے غیر منطقی بات سمجھتا ہے تو موجودہ حکومت کے بعد ہونے والے 37 قومی اور صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لے جن میں 30 نشستیں پاکستان تحریک انصاف نے 11 جماعتوں کا تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے جیتی ہیں جب کہ ایک کے ضمنی الیکشن پر اس نے بائیکاٹ کیا تھا۔ 

اُدھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو صرف چند گھنٹوں میں ڈالر راکٹ کی رفتار کی تیزی سے بڑھتی قیمت نے بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا کیونکہ اپوزیشن سمیت کئی حلقوں سے یہ آوازیں مسلسل اٹھ رہی ہیں کہ موجودہ حکومت الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ معاشی ابتری کو جواز بنا کر ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ اور اسی بنیاد پر الیکشن کو مؤخر کرنا چاہتی ہے۔ ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں کچھ کہا تو نہیں جاسکتا لیکن صرف چند گھنٹوں کے اندر 18 روپے سے بڑھتے ہوئے ڈالر کا 285 روپے سے تجاوز کر جانے پر بعض حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی آوازیں سنائی دیں کہ الیکشن کا التوا چاہنے والے خفیہ ہاتھ سرگرم ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب صدر سے تاریخ کی منظوری کے بعد ابھی الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کرنا ہی تھا کہ قدرے پُرسکون ہوتے سیاست کے سمندر میں عمران خان کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑ کر ایک تلاطم برپا کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے لیے زمان پارک لاہور آئی اور یہ معاملہ کئی گھنٹے تک ملکی سیاست کا محور رہا۔ اس دوران آن گراؤنڈ پولیس اور اس کے اعلیٰ حکام کے متضاد بیانات نے بھی عوام کو الجھائے رکھا۔ بعد ازاں سخت عوامی ردعمل کے خدشات کے پیش نظر پولیس سابق وزیراعظم کو گرفتار تو نہ کرسکی تاہم اسی شام پیمرا نے پہلے عمران خان کی تقاریر اور بیانات میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کی اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملک کے سب سے مقبول چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس ایک بار پھر معطل کر دیا گیا اور صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس فیصلے سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سچ کو سامنے لانے اور عوام کو حقائق بتانے پر دوسروں کے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے۔

پیمرا کے اس اقدام کو پاکستان میں جمہوری اور عوام کے سنجیدہ و باشعور حلقوں نے ناپسند کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے کئی فیصلے اور اقدامات ایسے ہیں جن کو سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور باشعور عوام ایک قسم کی انتقامی کارروائی اور اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ 

اس وقت ملک میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہے۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن بار  اقتدار میں آتے ہی انتقامی کارروائی کی روایت دہرانے لگی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت میں میڈیا گروپس اور انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جو کل شب ہوا ہے وہ 11 ماہ کے مختصر عرصے میں مختلف انداز سے کئی بار ہوچکا ہے۔ بالخصوص اے آر وائی نیوز سے ن لیگ کی ناراضی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مریم نواز ایک پریس کانفرنس میں اے آر وائی نیوز کا مائیک ہٹا کر اپنے غیر جمہوری رویے کا اظہار کرچکی ہیں اور ن لیگ کے کئی رہنماؤں کی جانب سے متعدد مواقع پر اے آر وائی نیوز کے رپورٹر نامناسب رویہ کا سامنا کرچکے ہیں۔ اس سے قبل بھی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کہ موجودہ حکومت نے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کے انتہائی اقدام سے اے آر وائی سے وابستہ 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں۔

حکومت کے اس من مانے اقدام کی صرف ملکی صحافتی اداروں نے ہی نہیں بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں، حکومت کے اتحادیوں اور مختلف مکتبِ فکر کے افراد نے بھی مذمت کی ہے۔

برسر اقتدار آنے کے بعد اتحادی حکومت نے شاید ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہو مگر عوام پر مہنگائی کے بم ضرور گرائے ہیں۔ ایک جانب مریم نواز اور ن لیگ کے لیڈران یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے مقبول جماعت اور ہر شخص ن لیگ کے ٹکٹ کا خواہشمند ہے، دوسری طرف مختلف تاویلات گھڑ کر الیکشن سے فرار کی راہیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔

پاکستان میں ضیا کا دور اقتدار ہو یا مشرف دور صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو جبر اور جیلوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور ن لیگ کی اتحادی حکومت بھی اپنے اقدامات کی وجہ سے صحافتی اداروں اور صحافیوں کو ان کے اظہار رائے کے حق اور آزادی سے محروم کررہی ہے، مگر حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ایسے اقدامات کرنے والے حکمراں تو ایوان اقتدار سے رخصت ہوگئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور ان حکمرانوں کا ہر ایسا فیصلہ تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر رقم ہوا۔ 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں