وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک کے دوران غریب عوام میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے اور بظاہر یہ منصوبہ خوش آئند ہے لیکن اسے صرف دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود رکھا گیا ہے جس نے حکومت کے اس غریب پرور منصوبے کو مشکوک بنا دیا ہے۔
گزشتہ دنوں اجلاس میں وزیراعظم نے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں رمضان پیکیج کے تحت غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے اور اس اسکیم میں خیبرپختونخوا کے عوام کو بھی شامل کیا گیا۔
یہ اسکیم صرف دو صوبوں کے لیے ہے جب کہ سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے عوام کو مہنگا آٹا ہی خریدنا پڑے گا۔ ہماری نظر میں وفاقی حکومت کی یہ ‘غریب پروری’ ناقابل فہم ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ شہباز شریف پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا کے؟ اس کے ساتھ ہی اس فیصلے میں پوشیدہ سیاسی مفاد بھی اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔
یوں تو ملک میں غربت اتنی ہے کہ بلا تفریق سب کو ہی مفت آٹے کی یہ سہولت ملنی چاہیے، لیکن سب سے پہلے کون اس کا حق دار ہوتا ہے، اس کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی پاکستان میں غربت سے متعلق یہ رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں جو پورے پاکستان میں غربت کی مجموعی شرح تو 38.8 فیصد بتاتی ہے لیکن اس میں ملک کے صوبوں میں علیحدہ علیحدہ غربت کی شرح بھی بتائی گئی ہے، اس کے مطابق پاکستان کا سب سے غریب صوبہ بلوچستان ہے جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، خیبرپختونخوا میں یہ تناسب 49.2 فیصد، گلگت بلتستان 43.2، سندھ 43.1 فیصد جب کہ پنجاب میں یہ شرح 31.4 فیصد ہے۔
غربت کسی بھی صوبے میں ہو غریب پاکستانی ہی ہے، لیکن یہ رپورٹ چشم کشا ہی نہیں یہ بھی بتا رہی ہے کہ اگر غربت کی بنیاد پر کوئی کام کرنا ہے تو کون سا صوبہ سب سے پہلے مفت آٹے کا حق دار ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اس طرح کے فیصلے صوبوں اور ان کے عوام کے درمیان احساس محرومی بھی پیدا کرتے ہیں اور ایسے اقدامات سے زخم خوردہ عوام کی اشک شوئی نہیں ہوتی بلکہ ان کے زخم رسنے لگتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں سب سے مہنگا آٹا کراچی کے شہری خرید رہے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اور بے پَر کی بات نہیں بلکہ شہباز حکومت کے ماتحت وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر قائد کے باسی اس وقت 155 روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کے بعد بلوچستان کے شہری مہنگا ترین آٹا خرید رہے ہیں لیکن افسوس ان دو صوبوں کے عوام ہی مفت آٹے کی سہولت سے محروم رہ گئے جب کہ اسی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سوائے چند ایک شہر چھوڑ کر باقی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آٹا 60 سے 70 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔
ملکی اداروں کی ان رپورٹوں نے تو سب کی آنکھیں کھول دی ہیں لیکن شاید حکومت کی آنکھیں بند ہیں یا وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ روز نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گویا متوسط طبقہ تو ختم ہی کردیا ہے۔ اب اس ملک میں دو ہی طبقے رہ گئے ہیں، ایک وہ جو امیر ترین ہے اور اسے تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں جب کہ دوسرا غریب جو بنیادی ضروریات، بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی، بیماری میں مناسب علاج سے بھی محروم ہے۔
سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے بجائے اگر حقیقت کا سامنا کریں تو آج ہر طرف بھوک اور افلاس برہنہ رقص کرتی نظر آئے گی اور اس کے سائے میں کہیں والدین اپنے بچّوں کو بیچتے نظر آئیں گے تو کہیں بنتِ حوا کی چادر میلی کرنے کی کوششں نظر آئے گی۔ اور کہیں تو حالات کا جبر اتنا ہے کہ ماں باپ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے حوالے کر کے خود بھی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ایسی دل سوختہ خبریں ہم آئے دن مختلف اخبارات اور نیوز چینلوں پر دیکھ رہے ہیں۔
چلیں، دو صوبوں کے عوام کی خاطر باقی صوبوں کے عوام صبر کر بھی لیں تو حکومت مفت آٹا تقسیم کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی تو بنائے۔ پنجاب میں مفت آٹے کی تقسیم کے ابتدائی تین روز کے دوران بدنظمی اس قدر ہوئی ہے کہ آٹا لینے کے لیے آنے والے زخم لے کر خالی ہاتھ گھروں کو واپس گئے جب کہ تین ضعیف افراد مفت آٹے کی خاطر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت مفت آٹا اسکیم کو ختم ہی کر رہی ہے۔
ابھی مفت آٹے کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے غریب عوام کو پٹرول 50 سے 100 روپے لیٹر سستا فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا لیکن اس پر کب سے عمل کیا جائے گا اس کا ہنوز اعلان نہیں کیا ہے۔ لگتا ہے کہ دو صوبوں میں جو الیکشن ہونا تھے، اس سے قبل یہ سب عوام کو رجھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ویسے حکومت نے سستا پٹرول اسکیم کے جو خدوخال بتائے ہیں اس سے یہ ریلیف کم اور مذاق زیادہ لگتا ہے۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک کے مطابق موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے فی لیٹر 50 روپے ریلیف دینے کی تجویز ہے جس کے مطابق موٹر سائیکل سوار ماہانہ 21 لیٹر اور رکشا یا چھوٹی گاڑیاں 30 لیٹر تک پٹرول رعایتی قیمت پر حاصل کرسکیں گی۔ اگر اس کو ریلیف دینا کہتے ہیں تو اس کی مثال تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی ہوگی کیونکہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف موٹر سائیکل سوار کا روزمرہ کام کاج نمٹانے میں دو ڈھائی لیٹر پٹرول کم از کم خرچ ہوتا ہے جب کہ رکشا تو ایسی عوامی سواری ہے جس میں شاید یومیہ 30 لیٹر پٹرول کھپتا ہو۔ تو کیا اس کو ریلیف دینا کہا جائے گا یا مذاق؟
اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ ملک کی لگ بھگ 50 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو بڑی پبلک ٹرانسپورٹ بسوں، منی بسوں اور کوچز میں سفر کرتی ہے۔ حکومت کے مجوزہ ریلیف پیکیج میں اس ٹرانسپورٹ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تو اسے کیسے مکمل عوامی ریلیف قرار دیا جا سکتا ہے۔
حکومت سے یہی استدعا ہے کہ اگر وہ عوام سے مخلص اور ان کی ہمدرد ہونے کے دعوؤں میں سچی ہے تو ریلیف کے نام پر لیپا پوتی کرکے وقت گزارنے کے بجائے حقیقی معنوں میں ان کی امداد کرے اور ایسا ریلیف دے کہ غربت کے مارے عوام کی داد رسی ہوسکے۔ یہ خود موجودہ حکومت کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ جلد یا بدیر الیکشن تو ہونے ہیں اور یہ معرکہ وہی جیت سکتا ہے جو خود کو عملی طور پر عوام کا ہمدرد اور غم گسار ثابت کرے گا۔