درجن بھر سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سالہ دورِ حکومت پر سرسری نظر ڈالی جائے تو عوام نے سوائے سیاسی دھما چوکڑی، مہنگائی اور بدحالی کے کچھ نہیں پایا اور اتحادی حکومت کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کرسکی ہے۔
آج سے ایک سال قبل ماہِ رمضان کا پہلا عشرہ ہی تھا جب پاکستان کا سیاسی بحران عروج پر تھا اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کام یاب ہوئی جس کے نتیجے میں عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے عنانِ اقتدار سنبھالا اور وزارت عظمیٰ کا تاج شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کی حکومت پر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے، عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غرق کرنے اور اسی نوع کے دیگر الزامات لگانے کے بعد حکومت میں آنے والے اپنے ایک سالہ دور میں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہاتے مگر اپنے اقدامات سے ان کی زندگی قدرے آسان تو بناتے لیکن ہُوا اس کے بالکل برعکس۔ عوام مہنگائی کے پاٹوں میں اس قدر پس گئے کہ اب ان کے لیے دو کیا ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔
سیاسی بحران، معاشی بحران، آئینی اور عدالتی بحران موجودہ حکومت کے بڑے کارنامے ہیں جس پر بڑے زور و شور سے بات کی جا رہی ہے لیکن اس ملک کے 22 کروڑ عوام جس میں سے 98 فیصد بدقسمت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ ایک سال قبل اگر ملک کا متوسط طبقہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست مشکل سے کر رہا تھا تو اب تو یہ حالات ہوچکے ہیں کہ ان کے لیے ایک وقت پیٹ بھرنے کا سامان کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ملک میں متوسط طبقہ اب صرف کاغذات کی حد تک رہ گیا ہے، عملاً ملک کے طول و عرض سے اس طبقے کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ مفادات کی سیاست کی وجہ سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں 365 دن میں خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے آج تک کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب کسی نہ کسی حوالے سے عوام پر مہنگائی کا کوئی بم نہ گرایا گیا ہو۔ اس ایک سال میں آٹا، چینی، دالیں، گوشت، سبزی، پھل، دودھ، تیل، گھی، پٹرول، ادویات غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 30 سے 100 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، کہیں یہ اضافہ سو فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس عرصہ میں اگر کوئی شے ارزاں یا تنزلی کا شکار ہوئی ہے تو وہ عوام کا معیارِ زندگی ہے، ان کا رہا سہا سکھ اور اطمینان ہے۔ مستقبل ایک بھیانک عفریت بن کر ان کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے اور ان بے چاروں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ اس ایک سال میں عوام کے لیے زندگی ہی مشکل نہیں ہوئی بلکہ مرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کفن دفن بھی ایک غریب کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں۔ عوام کی حالت اب ابراہیم ذوق کی غزل کے ان اشعار کی صورت ہے کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روشِ تیرِ نظر جائیں گے
عوام کی تہی دامنی اور مفلسی کا اندازہ کرنا ہے کراچی کی وہ سڑکیں دیکھ لیں جو ہر سال رمضان المبارک میں افطار کے دستر خوانوں سے سج جاتی تھیں اور ہر خاص و عام وہاں افطار کر سکتا تھا اور یہ سلسلہ قیام پاکستان کے وقت سے جاری تھا مگر شہباز اسپیڈ کے دور میں برق رفتاری سے آسمان کی بلندیوں کو بھی مات دیتی مہنگائی نے یہ رونقیں بھی چھین لی ہیں اور رواں سال یہ سلسلہ بھی متأثر ہوا ہے۔ کیوں کہ جو مخیر افراد اور صاحبِ استطاعت اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے ان میں سے کئی اب مخیر نہیں رہے اور یہ سب پچھلے 365 دنوں پر محیط بے یقینی، سیاسی افراتفری اور سکڑتی ہوئی معاشی سرگرمیوں اور تباہ ہوتے کاروبار کے اثرات ہیں۔ گھروں میں بھی دسترخوان سمٹ چکے ہیں اور لوگ اہتمام کرنے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔
ایک سال قبل جو آٹا 60 سے 70 روپے کلو مل رہا تھا، اب لوگوں کو اس کے لیے جان دینا پڑ رہی ہے۔ رمضان ریلیف پیکیج کے نام پر پنجاب اور کے پی میں مفت آٹے کی تقسیم کا جو سیاسی کھیل کھیلا گیا اس میں اب تک درجنوں مرد خواتین موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ روٹی کو ترستے ہوئے ایک درجن افراد نے کراچی ایک ہزار روپے کی زکوٰۃ پانے کے لیے اپنی جانیں گنوا دیں تو کہیں بھوک کے ستائے غریب ایک بوتل خون کے عوض راشن کا ایک تھیلا حاصل کررہے ہیں۔ کیا یہ سب مہذب معاشرے میں ہوتا ہے؟ کیا اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے دعوے دار ملک کے حکمرانوں کا یہ رویہ قابل قبول ہے؟
یہ تو ملک کے 22 کروڑ عوام میں سے 98 فیصد عوام کی حالت زار ہے۔ اب اگر دیگر معاملات پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی کوئی حوصلہ افزا یا قابل تعریف کام نظر نہیں آتا۔ سیاسی افراتفری، مخالفین پر الزام تراشیاں، عدم برداشت کے رویے اور حکمرانوں کی مسلسل وعدہ خلافیوں نے ملک کے عوام کا اعتماد ہی متزلزل نہیں کیا بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ خبریں تک گردش میں ہیں کہ ماضی میں ہر دم پاکستان کی مدد کے لیے تیار خلیجی عرب اور دوست پڑوسی ممالک بھی اس بار بحرانوں میں پھنسے اور ڈیفالٹ کے دہانے کھڑے پاکستان کی مدد کرنے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔
ملک میں ڈالرز کی قلّت نے اہم درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے معاشی سرگرمیوں پر چھایا جمود حکمرانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈالرز کی قلت کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو سعودی عرب سے ملنے والا حج کوٹہ مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ کہیں حکومت کو حج کوٹہ ہی سعودیہ کو واپس نہ کرنا پڑے۔
سیاسی بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت پوری سیاست صرف انتخابات ہوں گے یا نہیں کے گرد گھوم رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دو بار پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے باوجود اب تک کسی کو یقین نہیں ہے کہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں کیونکہ جن کے پاس اقتدار و اختیار ہے وہاں سے کوئی سنجیدہ بات کے بجائے ایمرجنسی لگانے سمیت دیگر مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں جب کہ اچھا خاصا سنجیدہ طبقہ بھی اس اہم مسئلے پر شرطیں لگا رہا ہے۔
حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سیاستدان چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے اپنی اپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے اقدامات کریں لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ آج ملک کا اکثریتی طبقہ زندگی برقرار رکھنے کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہے اور دوسری جانب دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کی ساری توجہ ذاتی مفادات، اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے یا اقتدار کے حصول کے لیے اخلاقیات کی ہر حدیں پار کرنے پر ہے۔
پاکستان کے عوام اس وقت صاحبانِ اختیار اور اقتدار کی جس بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہیں وہ ان کے غم و غصے کو بڑھا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اور قوم کے لیے سوچا جائے اور عوام کو فوری اور حقیقی ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ آج کی یہ بے حسی کل کسی بڑے اور سنگین حادثے یا پچھتاوے کو جنم دے سکتی ہے۔