دی ڈپلومیٹ : جب برطانیہ اور ایران ممکنہ جنگ کے دہانے پرکھڑے تھے!
نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں شامل امریکی ویب سیریز(ریویو)
برطانیہ اور ایران کے مابین جنگ کے امکان اور امریکا کی طرف سے ثالثی کے تناظر میں اس ویب سیریز دی ڈپلومیٹ کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ درجن بھر سے زائد ممالک کا تذکرہ اس کہانی میں ہوا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دو ملکوں کے درمیان کیسے جنگ چھڑتے چھڑتے رہ جاتی ہے، یہ آپ اس ویب سیریز میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت یہ نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں تیسرے نمبر پر موجود ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں ویب سیریز کے ناظرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
کہانی۔ اسکرین پلے
اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، عالمی سیاست میں اُس وقت اتار چڑھاؤ آتا ہے، جب خلیج فارس میں کھڑا طیارہ بردار برطانوی بحری جہاز ایک میزائل کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر موجود 42 برطانوی فوجی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
برطانیہ کا خیال ہے یہ حملہ ایران کی طرف سے ہوا ہے، جب کہ برطانیہ کے جنگی ساتھی امریکا کی سفارت کار جو برطانیہ میں تعینات ہوتی ہے وہ سمجھتی ہے کہ حملہ ایران نے نہیں کروایا۔
امریکا ہی میں موجود ایک سفارت کار ”کیٹ وائلر“ افغانستان میں بحیثیت سفیر، روانگی کی تیاری کر رہی ہے۔ ایسے میں اس کو بتایا جاتا ہے، وہ اب برطانیہ سفیر بن کر جائے گی، اور اسے وہاں حالیہ کشیدگی اور تنازع کے پس منظر میں امریکا کے کردار اور تعلقات کو محفوظ بنانا ہے۔
برطانیہ میں یہ نئی امریکی سفیر اس کشیدہ صورتِ حال میں جنگ کو روکنے اور معاملات کو سلجھانے کے ساتھ ساتھ دو ذیلی تنازعات کو بھی جھیلتی ہے، لیکن ان کا تعلق اس کی ذات سے ہے۔
یہ ویب سیریز آٹھ اقساط پر مبنی ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ اس کہانی کی خالق”ڈیبرا کاہن“ ہیں، جنہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اداکاری میں ماسٹرز کیا ہے، لیکن ان کی شہرت تجسس بھری کہانیاں لکھنے کے لیے ہے۔ اس ویب سیریز میں پے در پے کئی پُرتجسس موڑ اس بات کو درست ثابت کرتے ہیں اور اختتام تو ایسا ہے کہ آپ دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں گے، جب آپ کو معلوم ہوگا کہ اس طیارہ بردار برطانوی بحری جہاز پر حملہ کس ملک نے کیا تھا۔ یہ کلائمکس میں آپ کو نہیں بتاؤں گا، اس کے لیے آپ کو یہ شان دار ویب سیریز ”دی ڈپلومیٹ“ دیکھنا ہو گی۔
پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری
اس ویب سیریز کا مجموعی تأثر اچھا ہے، خاص طور پر سفارت کاری کے سلسلے میں، جس طرح کے مناظر درکار ہوتے ہیں، ان کا اہتمام اچھے طریقے سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف ممالک کے سربراہوں، سفارت کاروں، اندرونی معاملات کی عکس بندی، عمارتوں اور مختلف سفارتی مقامات کی فلم بندی اچھے طریقے سے کی گئی ہے۔
امریکا، برطانیہ اور فرانس، تینوں ممالک کو ویب سیریز میں مرکزی جگہ دی گئی ہے۔ اس ویب سیریز میں ملبوسات، گاڑیاں، ہیلی کاپٹر، جہاز، دیگر سامان اور آلاتِ حرب کا بھی بھرپور استعمال دکھایا گیا ہے۔
اس پوری ویب سیریز میں جو بات بہت عجیب محسوس ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ سفارت کاری میں ہر چیز پیشگی طے کی جاتی ہے، لیکن جس خاتون امریکی سفیر کو برطانیہ میں سرگرم دکھایا گیا ہے، وہ بغیر اجازت، بنا کسی اطلاع اور ملاقات کا وقت لینے کا کوئی تکلف کیے بغیر کسی وقت بھی برطانوی دفتر خارجہ میں گھس جاتی ہے۔
دکھایا گیا ہے کہ یہ خاتون اہلکار مشن کی ہدایات کو نظر انداز کر کے اپنی حکمتِ عملی کے تحت معاملات کو آگے بڑھاتی ہے اور یہ سب کچھ بہت آسانی سے وہ کر پاتی ہے۔ اس تنازع کو ایک طرف اتنا خطرناک دکھایا گیا ہے کہ ایک ایرانی سفیر سخت کشیدہ صورتِ حال کی بھینٹ بھی چڑھ جاتا ہے، لیکن امریکی سفارت کار کو کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کی موت حرکت قلبِ بند ہونے سے واقع ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اتنی آزادی کیسے کسی سفارت کار کو میسر آسکتی ہے؟ جس کا مظاہرہ اس ویب سیریز میں دیکھا۔ یہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور اس کی وجہ سے ہدایت کاری کے ناقص پہلوؤں کی طرف ذہن جاتا ہے۔
اداکاری
اس ویب سیریز میں اداکاروں کو تین صفوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ پہلی صف ان اداکاروں کی ہے جو اس میں مرکزی کردار نبھا رہے ہیں، ان میں کیری رسل (امریکی خاتون سفیر)، امریکی اداکارہ ہیں، جب کہ روفس سیول (سفیر کے شوہر)، ڈیوڈ گیثی (فارن سیکرٹری) کا کردار نبھانے والے یہ دونوں اداکار برطانوی ہیں۔
ان کے علاوہ ایلی اہن (برطانیہ میں سی آئی اے چیف) ایشیائی نژاد امریکی اداکارہ اور ڈپٹی چیف مشن کے طورپر اداکاری کرنے والے اداکار ”اتوایساندو“ بھی امریکی اداکار ہیں۔ امریکی صدر کا کردار نبھانے والے اداکار ”مائیکل میکین“ امریکی فن کار جب کہ برطانوی وزیراعظم کا کردار ادا کرنے والے اداکار ”روئرکننر“ برطانوی فن کار ہیں۔ ان سب نے بلاشبہ جَم کر کام کیا ہے۔
دوسری صف میں وہ اداکار ہیں، جو پوری ویب سیریز میں آتے جاتے رہے ہیں، جب کہ تیسری صف ایسے فن کاروں کی ہے، جنہوں نے مختصر کردار نبھائے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ بطور اداکار سب نے اپنے کام سے خوب انصاف کیا، لیکن امریکی خاتون سفیر، اس کے شوہر، برطانوی صدر اور امریکی وزیراعظم، برطانیہ میں امریکی ڈپٹی چیف آف مشن، امریکا کے سیکرٹری آف دی اسٹیٹ کے کردار نبھاتے ہوئے فن کاروں نے ناظرین کے دل موہ لیے ہیں۔
ان کو دیکھ کر ویب سیریز کے ناظرین اداکاری کی چومکھی جہتوں سے روشناس ہوں گے۔
مقبولیت کا تناسب
یہ ویب سیریز 20 اپریل 2023 کو نیٹ فلیکس پر ریلیز ہوئی ہے۔ اس کے بعد سے اب تک یہ مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران یہ ٹاپ ٹین کے چارٹ میں شامل ہوچکی ہے اور مختلف نمبر ون پوزیشن پر براجمان رہی ہے۔ ان دنوں یہ تیسرے نمبر پر ہے، غالب گمان ہے کہ یہ ویب سیریز بھی پہلے درجے پر فائز ہو جائے گی۔ فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ 10 میں سے 8.2 ہے اور روٹین ٹماٹوز پر89 فی صد ہے۔ گوگل کے صارفین کے مطابق 95 اور تھری سکس ٹی گیجٹ ویب سائٹ پر اس کو 5 میں سے 2.4 فی صد مقبولیت ملی ہے۔ گوگل کی ریٹنگز کے مطابق 5 میں سے 3.9 فیصد تک اس کی مقبولیت پہنچ چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ ویب سیریز مزید بلندی کو چھوتی دکھائی دے رہی ہے۔
حرفِ آخر
ویب سیریز دی ڈپلومیٹ کی تین ممالک میں عکس بند کی گئی ہے، جن میں امریکا، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس کے سوا جن ممالک کا صرف تذکرہ ہوا، ان میں ایران، روس، انڈیا، اسرائیل، پاکستان، سعودی عرب، جاپان، آسڑیلیا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ اگر آپ ممالک کے درمیان سفارت کاری کے امور میں دل چسپی رکھتے ہیں اور یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ خاص طور پر دنیا کی بڑی طاقتیں کشیدگی اور جنگ کا خطرہ سَر پر منڈلانے لگے تو آپس میں رابطہ کر کے ان معاملات کو کیسے نمٹاتی ہیں، اس میں کیا نشیب و فراز آتے ہیں، کس طرح ایک میز پر بیٹھے چند افراد ممالک کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں، اپنے عوام کے پیسے کا استعمال کس طرح ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر سیاست کس طرح معصوم لوگوں کے خون سے رنگی ہوتی ہے، اس کو دیکھنے کے لیے یہ ویب سیریز آپ کا بہترین انتخاب ہوگا۔
اس امریکی خاتون سفارت کار کو ویب سیریز میں نہایت ذمہ داری سے اور مسلسل بھاگ دوڑ کرتے ہوئے دیکھ کر اگر آپ کو معروف امریکی سیاست دان اور سفارت کار ”ہلیری کلنٹن“ کا خیال آئے تو یہ ابھی سے جان لیجیے کہ اس ویب سیریز سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں۔ دو ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ اور اس کو ٹالنے کی کوششوں بنائی گئی اس فلم کی کہانی اور تمام کردار فرضی ہیں، البتہ مقامات حقیقی ہیں۔ ان آٹھ اقساط کو جتنی توجہ اور تحمل کے ساتھ دیکھیں گے اتنا ہی اس ویب سیریز سے لطف اندوز ہوں گے۔