ہر سال مئی کے مہینے کا یہ دن ماں اور ممتا کے جذبے کے لیے مخصوص ہے۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور اسی دن کی مناسبت سے ہم جس فلم کا ریویو پیش کر رہے ہیں، وہ اِس وقت نیٹ فلیکس پر ٹاپ ٹین میں شامل ہے۔
پاکستان میں شائقین کی بڑی تعداد یہ فلم دیکھ رہی ہے۔ فلم کا نام ہے “دی مدر۔” اسے ماؤں کے عالمی دن سے صرف دو دن پہلے نیٹ فلیکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔
اس فلم کی کہانی ماں اور اولاد کے انمول رشتے اور ممتا کے جذبے پر بُنی گئی ہے اور ماؤں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ یہ فلم اس وقت پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں مقبولیت سمیٹ رہی ہے۔ پاکستان میں یہ فلم، نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں یہ دوسرے نمبر پر موجود ہے۔
کہانی /اسکرین پلے
اس فلم کی کہانی ایک خاتون کی زندگی کااحاطہ کرتی ہے، جس کی ملازمت کا پس منظر فوج کا ہے۔ وہ امریکی فوج میں رہتے ہوئے متعدد ملکوں میں آپریشنز میں عملی طور پر حصّہ لے چکی ہے۔ اس کہانی میں وہ اپنی ہونے والی بچّی کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے یوں تیّاری کرتی ہے جیسے کسی محاذ پر جانے کے لیے کی جاتی ہے، اور پھر عملی میدان میں اترتی ہے۔ اپنی بچّی کی حفاظت کے لیے وہ جان پر کھیل جاتی ہے۔ فلم کی کہانی اس ماں کی اسی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔
فلم کی کہانی تو جان دار ہے، البتہ کہیں کہیں جھول بھی ہیں۔ مثال کے طور پر دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون جو امریکی فوج میں ملازمت کرتی رہی ہے، اس کی اولاد کو خطرہ لاحق ہے اور ملک کی خفیہ ایجنسی، جس کے ذمے اس کی بچّی کی حفاظت کرنا ہے، وہ دشمنوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں۔ آخرکار اس ماں کو خود میدان میں اترنا پڑتا ہے۔
یہ عجیب محسوس ہوتا ہے کہ ایک معروف خفیہ ادارہ جس کے اہل کار نہایت تربیت یافتہ اور مشکل سے مشکل حالات سے نمٹنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان دشمنوں کو نہیں سنبھال پاتی، اور اسے آخر کار ایک فوجی پس منظر کی حامل عورت انجام تک پہنچاتی ہے۔
اس فلم کے تین اسکرین رائٹر ہیں، جن کے نام میشا گرین، اینڈریا برلوف اور پیٹر کیرج ہیں۔ یہ تینوں امریکا میں اسکرین رائٹنگ کی دنیا کے اہم نام ہیں، بلکہ ان میں سے ایک میشا گرین تو فلم کی پروڈیوسرز میں بھی شامل ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی خیال بھی انہی کا ہے، جس پر انہوں نے دو ساتھی اسکرین رائٹروں کے ساتھ مل کر کہانی لکھی۔ بنیادی طور پر کہانی کی بنت، پیش کش اور معاملات اپنی چند کمزوریوں کے باوجود دل چسپ ہیں۔
ہدایت کاری
اس فلم کی ہدایت کارہ نکولا جین کائرو ہیں، جن کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے۔ وہ ایکشن اور رومانوی فلمیں بنانے کے لیے شہرت رکھتی ہیں، ان کی آخری فلم “مولان” بھی ایسا ہی ایک زبردست شاہکار تھا، جس طرح انہوں نے مذکورہ فلم “دی مدر” بنائی ہے۔ ایکشن کے اعتبار سے یہ ایک عمدہ فلم ہے۔ کہانی کی کمزوری کے باجود انہوں نے اپنی ہدایت کاری سے منظر نامے میں جان ڈال دی ہے۔ مجموعی طور پر وہ ایک اچھی فلم تخلیق کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
اداکاری
فلم کا مرکزی کردار “جینفر لوپیز” نے نبھایا ہے، جو عالمی شہرت یافتہ امریکی اداکار اور گلوکار ہیں۔ 80 کی دہائی سے بطور رقاصہ اپنا کیریئر شروع کرنے والی اس باصلاحیت فن کارہ نے آگے چل کر موسیقی اور سینما کی دنیا میں بے شمار کامیابیاں اپنے نام کیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
سیاسی طور پر سرگرم، فلاحی کاموں میں پیش پیش اس فن کارہ نے کڑی محنت کر کے اداکاری میں بھی اپنا جداگانہ مقام بنایا۔ رواں برس اس کی دو فلمیں نیٹ فلیکس ریلیز کرے گا۔ قارئین پہلی فلم کے بارے میں پڑھ رہے ہیں۔ نوے کی دہائی سے فلمی دنیا میں کام کرنے والی اس اداکارہ کی فلمیں تواتر سے نمائش کے لیے پیش ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تناسب کامیاب فلموں کا ہے۔ وہ مذکورہ فلم کی پروڈیوسر بھی ہیں۔
اس فلم کے دیگر اداکاروں میں برطانوی اداکار جوزف فینس، امریکی اداکار اومری ہارڈ وک، میکسیکو کے گئیل گارشیا برنل اور دیگر نے فلم میں اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کیا ہے۔
اس فلم میں چھوٹی بچّی کا مرکزی کردار لوسی پیز نے نبھایا ہے۔ وہ ایک چائلڈ اسٹار کے طور پر بہت متحرک ہیں اور کئی بڑی فلموں میں کام کرچکی ہیں۔ اس فلم میں بھی انہوں نے اپنے کردار سے انصاف کیا ہے۔ اومری ہارڈوک نے بھی اپنے مختصر کردار میں فلم بینوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کا تعلق میکسیکو سے ہے۔
پروڈکشن و دیگر شعبہ جات
فلم کا پروڈکشن ڈیزائن بہت اچھا ہے۔ اس فلم کے کل 7 پروڈیوسر ہیں جب کہ دو بڑی پروڈکشن کمپنیوں کے اشتراک سے یہ فلم تیار ہوئی ہے۔ ڈسٹری بیوشن کے حقوق نیٹ فلیکس کے پاس ہیں، دنیا بھر کے فلم بینوں کے لیے اس فلم کو نیٹ فلیکس پر ہی ریلیز کیا گیا ہے، البتہ مقامی طور پر امریکا میں اس کا شان دار فلم پریمیر کیا گیا، جہاں کاسٹ بھی موجود تھی۔
”دی مدر” کے دیگر تکنیکی پہلوؤں پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ اس پر بھی توجہ دی گئی ہے اور فلم کافی پیشہ ورانہ انداز سے بنائی ہے۔ اس فلم کے سینماٹوگرافر بین سیری سین ہیں، جن کا تعلق بھی نیوزی لینڈ سے ہے۔ انہوں نے بھی اپنا کام بخوبی کیا ہے۔ فلم کی عکس بندی کینیڈا اور اسپین میں کی گئی ہے۔ فلم میں لائٹس، ویژول ایفکیٹس، کاسٹیومز، ایڈیٹنگ سمیت ہر کام میں معیار کا خیال رکھا ہے۔
فلم کی موسیقی
اس فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک اور گائیکی دل کو چھو لے گی۔ فلم کے تمام دورانیے میں 11 نغمات کی دھنوں کو فلم کے مختلف مواقع پر، کہانی کے پس منظر میں شامل کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جینفر لوپیز، جو خود ایک بہت عمدہ گلوکارہ ہیں، انہوں نے اس فلم کے لیے اپنی آواز کا جادو نہیں جگایا۔ البتہ اداکاری اور جذبات کے اظہار اور بیانیے سے وہ پوری فلم پر چھائی رہی ہیں۔ اس فلم کی موسیقارہ “جرمین فرینکو” مبارکباد کی مستحق ہیں، انہوں نے اس فلم کے لیے انتہائی شیریں اور مٹھاس بھری موسیقی ترتیب دی، جس سے کہانی کے منظرنامے میں مزید جان پڑگئی۔
حرفِ آخر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیکھی جانے والی فلم “دی مدر” روٹین ٹماٹوز جیسی فلموں کی مقبول ویب سائٹ کی طرف سے 100 میں سے 45 فیصد پسندیدگی حاصل کر پائی ہے۔ ایک اور ویب سائٹ میٹ کریٹک کی طرف سے اسے 100 میں سے 44 اور گوگل کی طرف سے پانچ اسٹارز میں سے چار اسٹارز کے ساتھ یہ فلم مزید مقبول ہورہی ہے۔ آج ماؤں کے عالمی دن پر ابھی اسے پاکستان اور دنیا بھر میں مزید شائقین دیکھیں گے اور جس کے بعد پسندیدگی کے تناسب کا اس کا گراف مزید بلند ہوگا۔
ایک ایکشن فلم، ماں اور بیٹی کی محبت، اور زندگی کی جدوجہد میں کبھی نہ ہارنے والی بہادر عورت کو آپ اس فلم میں دیکھ سکتے ہیں۔