The news is by your side.

کراچی: کوئی نوحہ سننے کو تیار نہیں!

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا، کثیر قومی اور کثیر ثقافتی شہر ہے۔ اس شہر میں پاکستان کے ہر گوشے کا عکس نظر آتا ہے اور اسی خصوصیت کے پیشِ نظر یہ منی پاکستان بھی کہلاتا ہے۔ یہ شہر عروسُ البلاد اور روشنیوں کا نام سے بھی ہر پاکستانی کے ذہن میں محفوظ ہے۔

کراچی شہر جتنا بڑا ہے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی وسیع ہے، یعنی اس کے پھلنے پھولنے اور عروج پانے اور پھر زوال کی جانب گامزن ہونے کی تاریخ۔ یہ لگ بھگ چار صدی پرانا قصہ ہے۔ ان چار صدیوں میں اس شہر نے ہر ایک کو اپنے دامن میں پناہ دی، روزگار دیا۔ کراچی سب کا بنا لیکن کراچی کا کوئی نہ بن سکا۔ کراچی ہمارا ہے کے دعویدار تو پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن اپنے دعوؤں کا پاس رکھنے اور اس کے لیے عملی اقدامات کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔

کراچی آج جیسا نظر آتا ہے ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ مچھیروں کی بستی سے دنیا کا اہم ساحلی اور تجارتی شہر بننے میں کراچی نے زمانے کے کئی سرد و گرم سہے، تھپیڑے برداشت کیے، غیروں کی اپنائیت کو محسوس کیا تو اپنوں کا ظلم اور زیادتی بھی دیکھی۔ نظر انداز کیے جانے کا دکھ ہمیشہ اس کی کوکھ میں پلتا رہا۔ لگ بھگ چار صدی قبل بلوچ مائی ’’کولانچ‘‘ نامی علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے اس کو مائی کولاچی کہا جانے لگا اور یہی تعلق شہر کو کولاچی کا ابتدائی نام دے گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب دنیا کے نقشے پر کراچی کے نام سے موجود ہے۔

1772 میں کولاچی کو بحرین اور مسقط کے ساتھ تجارت کرنے کیلیے بندرگاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ یہ شہر جب آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تو یہاں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ شہر کی حفاظت کے لیے اس کے گرد فصیل تعمیر کی گئی جس پر نصب کرنے کے لیے دو توپیں مسقط سے درآمد کی گئیں۔ اس کے دو دروازے تھے، ایک سمندر کی طرف اور اس کے مخالف سمت اور یہ دونوں دروازے آج کے شہر کے مشہور علاقے کھارا در اور میٹھا در کے نام سے مشہور ہیں۔

18 ویں صدی کے اختتام تک شہر کی بندرگاہ کی کامیابی کے بعد اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہونے لگا اور اس کی ترقی نے ہر ایک کی نظریں اس پر مرکوز کردیں اور لوگ یہاں کھنچے آنے لگے۔ جب سب کی نظریں یہاں تھیں تو ایسا کیسے ہوتا کہ برصغیر پر قابض انگریز کی نظروں سے یہ محفوظ رہتا۔ انگریزوں نے اس پر بھی قبضہ جما لیا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام بھی کیا۔ 1839 میں اسے ایک ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی اس شہر میں آنکھ کھولی تاہم ان کی پیدائش تک یہ شہر اپنے دور کا ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا جس میں ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ تھی۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو برصغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔

کراچی اپنے محل وقوع، آب و ہوا اور ہر ایک کے لیے اپنی بانہیں وا کر دینے کی صفت کے باعث آہستہ آہستہ مچھیروں کی بستی سے ایک تجارتی مرکز بنتا گیا جس کے پاس ایک بڑی بندرگاہ تھی۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں اس شہر کی آبادی 115407 تھی۔ 1936 میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا اور صوبے کا درجہ ملا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی کو دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت اس کی آبادی 4 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔

قیام پاکستان سے قبل کراچی تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور اس کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ڈینسو ہال، فریئر ہال، کراچی جم خانہ، این ای ڈی کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، ٹرام چلتی تھی۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے کے لیے پلان اتنا منظم اور ترقی یافتہ تھا کہ مختلف ممالک کے سفیر اس بات پر شرط لگاتے تھے کہ کراچی، نیویارک اور لندن کون سا شہر تیزی ترقی کرے گا اور سب کا خیال تھا کہ کراچی سب سے زیادہ ترقی کرے گا اور وہ اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا مستقل مسکن بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ آج تو معمولی بارش سے کراچی کی سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی ہیں لیکن ان دنوں بارش کے آدھے پون گھنٹے میں پانی سڑکوں سے صاف ہوجاتا تھا۔

موجودہ کراچی میں سانس لینے والوں کو شاید یقین نہ آئے کہ یورپی خواہش رکھتے تھے کہ کراچی سے کنکٹنگ فلائٹ ہو اور جب کنکٹنگ فلائٹ کراچی میں لینڈ کرتی تو غیرملکی ایئرپورٹ سے کرائے پر سائیکلیں لے کر ایمپریس مارکیٹ صدر سے خریداری کا شوق پورا کرتے تھے۔ یہ اپنے دور کا اتنا معاشی ترقی یافتہ شہر تھا کہ قیام پاکستان کے بعد 1958 میں جنوبی کوریا نے سیول کو کیپیٹل معاشی حب ہل بنانے کا فیصلہ کیا تو کراچی کو آئیڈیل بنایا اور اس کے بزنس پلان کو اسٹڈی کیا لیکن آج سیول کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں یہ دیکھ کر صرف سرد آہ ہی بھر سکتے ہیں۔

یہ نوحہ ہے کراچی کی تباہی اور بربادی کا جس کی ذمے داری قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے علاوہ ملک کے تمام حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ذاتی، گروہی مفادات اور تعصب پر مبنی فیصلے کر کے دنیا کے نقشے پر تیزی سے ترقی کرتے شہر کے طور پر ابھرتے ہوئے کراچی کو اپنی ناقص منصوبہ بندی اور ذاتی و سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یوں تو یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور کماؤ پوت شہر ہے لیکن جس طرح گھر میں کسی بڑے کو مان دیا جاتا ہے اور کماؤ پوت کی قدر کی جاتی ہے 75 سالہ ملکی تاریخ میں یہ شہر اس سے محروم رہا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، صفائی کے ناقص انتظامات، صاف پانی کی عدم فراہمی، تفریحی سہولتوں سے محروم ہوتا یہ شہر اب انسانوں کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔

کراچی پاکستان کا واحد پورٹ سٹی اور تجارتی دارُالحکومت ہے جو آج بھی ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کی مجموعی آمدنی کا 64 فیصد سے زائد کما کر دے رہا ہے لیکن اس کے بدلے جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

غیر سرکاری اعداد و شمار اور بین الاقوامی اداروں کی کچھ رپورٹوں کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947 کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں 10 لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ شہر کی آباد 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں ایک بڑا تناسب دیہات سے شہروں کو منتقل ہونے والوں کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ کئی افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔

کراچی جس طرح کثیر قومی اور کثیر ثقافتی شہر ہے اسی طرح کثیر المسائل بھی ہے اور مسائل سے مسلسل چشم پوشی نہ صرف مسائل کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہے بلکہ شہریوں میں ایک مسلسل مایوسی اور اضطرابی کیفیت بھی پیدا کر رہی ہے۔ جس کراچی شہر کی سڑکیں قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں روز دھلا کرتی تھی اور چمچاتی رہتی تھیں، وہی سڑکیں آج کھنڈر بن چکی ہیں۔ ایک زرا سی بارش لمحوں میں اس شہر کو بڑے دریا میں تبدیل کر دیتی ہے۔ نکاسی کا نظام مفلوج، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، صاف پانی کی عدم فراہمی، پولیس سمیت مختلف اداروں میں غیر مقامی افراد کی بھرتی، کوٹہ سسٹم کے ذریعے کی جانے والی مسلسل حق تلفی سے اب اس شہر کے باسیوں میں احساس محرومی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

70 کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کوٹا سسٹم متعارف کروانے کے بعد کراچی شہر کے باسی لسانی تفریق اور تعصب کا نشانہ بنے۔ شہر کی سب سے بڑی آبادی یعنی اردو بولنے والوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1979 میں اے پی ایم ایس او کے نام سے کراچی یونیورسٹی سے طلبہ سیاست کا آغاز کرنے والی تنظیم نے جب خود کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے 1984 میں ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کو قائم کیا تو سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد سے اردو بولنے والوں کی اکثریت نے اس پر لبیک کہا اور اس پرچم تلے اپنے اور شہری علاقوں کے حقوق کے حصول کے لیے جمع ہوئے۔ عوام نے ایم کیو ایم کو وہ محبت اور پیار دیا جو بہت کم سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو نصیب ہوا۔ 30 سال تک شہر قائد میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا رہا۔

ایک وقت تھا کہ جب بانی ایم کیو ایم کی آواز پر لاکھوں کے مجمع پر خاموشی چھا جاتی تھی لیکن جب اپنی جوانی اور زندگیاں لٹانے والوں کو اس جماعت سے سوائے چند معروف نعروں کے کچھ نہیں ملا بلکہ آئے دن کی ہڑتالوں، ہنگامہ آرائی، تعلیم کی تنزلی، کاروبار کی تباہی کے ساتھ کوٹہ سسٹم جیسے مسائل ہر حکومت میں رہتے ہوئے بھی حل نہ ہوئے بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے اپنی اتحادی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور پھر ان سے دوبارہ گلے مل لینے پر عوام کی محبت آہستہ آہستہ بیزاری میں تبدیل ہوتی گئی اور یہ جماعت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو کر اب بھولی بسری داستان بنتی جا رہی ہے۔

آج کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے لوگوں کی گنتی پورا نہ ہونا ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں بڑی ڈنڈی مارے جانے کے بعد جب دوبارہ رواں سال مردم شماری ہوئی تو ایک بار پھر دھوکا دیا گیا اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 89 لاکھ بتائی گئی۔ دوسری جانب نادرا ریکارڈ کے مطابق کراچی میں مستقل پتے پر شناختی کارڈ اور ب فارم جاری ہونے کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ سے زائد ہے جب کہ لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جو برسوں سے کراچی رہ رہے ہیں لیکن کراچی کے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔ گورنر سندھ کا بھی کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی کسی طور پر ڈھائی کروڑ سے کم نہیں جب کہ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ نفوس کراچی کی گود میں پل رہے ہیں لیکن نادرا ریکارڈ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی دو بڑی جماعتوں کے دعوؤں کے برعکس ڈیجیٹل مردم شماری میں آبادی ایک کروڑ 89 لاکھ ظاہر کرنے کو کیا کہیں‌ گے؟ کیا یہ متعلقہ اداروں کی بدنیتی کو صاف ظاہر کرتا ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ کراچی کو اگر درست گنا گیا تو اندرون سندھ کے ووٹوں سے کراچی پر حکومت کرنے والی جماعت کی حکمرانی خطرے میں پڑسکتی ہے اس لیے کبھی کراچی کو درست نہیں گنا گیا۔ شہروں کی طرف مسلسل نقل مکانی کے باوجود دیہی سندھ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور کراچی میں دس فیصد سے بھی کم سالانہ اضافہ مردم شماری کے گورکھ دھندے کا پول کھول رہا ہے۔

پیپلز پارٹی جو مسلسل 15 برس سے اس صوبے میں حکومت کر رہی ہے اس کے دور میں کراچی کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے گو کہ کوئی سیاسی جماعت اپنا میئر لانے کی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی لیکن پیپلز پارٹی کی اس طرح کی فتح کسی بھی شہری کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ سوشل اور قومی میڈیا پر بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی سے متعلق چلنے والی فوٹیجز چیخ چیخ کر سندھ کی حکمراں جماعت کے عزائم بتا رہی ہیں جس سے بلدیاتی الیکشن کے غیر جانبدار اور منصفانہ الیکشن پر سوال اٹھ گئے ہیں۔

اپنوں اور غیروں سب کے دیے ہوئے زخموں سے چُور اور کرچی کرچی کراچی اب خود کسی لاوارث کی طرح چاروں جانب دیکھ رہا ہے اور پکار رہا ہے کہ کون ہے جو اس درد کا درماں کرے اور اس کی کوکھ میں پلنے والے کروڑوں لوگوں کا مسیحا بنے۔ کراچی اور کراچی کے باسیوں کو کچھ اور نہیں چاہیے، وہ صرف اپنا حق چاہتے ہیں۔ جتنا کما کر دیتے ہیں اسی کے مطابق سہولتیں چاہتے ہیں۔ صاف پانی، پختہ سڑکیں، محفوظ اور موثر ٹرانسپورٹ، بااختیار بلدیاتی نظام، تعلیم و صحت کی مناسب سہولیات اور یکساں حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں