The news is by your side.

فلم ریویو: Blood and Gold

جنگ کے دوران 'سونے' کی تلاش میں سرگرداں نازی فوجیوں کے انوکھے مشن کی کہانی جو پاکستان میں نیٹ فلیکس پر مقبول ہورہی ہے

عالمی سینما میں “جنگ” ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ہزاروں فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ان فلموں میں جنگِ عظیم اوّل اور دوم پر بننے والی فلموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ اس تناظر میں جب کوئی فلم ساز ایسے مقبول موضوع پر فلم بنائے تو اس کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے کوئی نیا اور اچھوتا پن اس میں ڈالے اور ایک نئی کہانی تشکیل دے سکے۔ اس مرحلے سے “بلڈ اینڈ گولڈ” کے فلم ساز کو بھی گزرنا پڑا، لیکن وہ اس موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے ہر مرحلے پر کام یاب ہوئے۔

“بلڈ اینڈ گولڈ” سے متعلق ہماری بنیادی رائے جاننے کے بعد اس کہانی پر ہمارا تبصرہ پیشِ‌ خدمت ہے اور ہمیں‌ امید ہے کہ تبصرہ پڑھ کر آپ  اس دل چسپ فلم کو دیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالیں گے۔

اسکرین پلے/ کہانی

یہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتامی دنوں کی کہانی ہے، جب موسمِ بہار میں اتحادی فوجوں نے نازی جرمنی پر حملہ کیا تھا۔ نازی فوج کے ایک سفاک اور تجربہ کار لیفٹیننٹ کرنل “وان اسٹینفرڈ” کی قیادت میں ایک فوجی دستہ ایک انوکھے مشن پر روانہ ہوتا ہے۔ اس دوران اس دستے کا ایک فوجی “ہینرک” اپنے مشن سے منحرف ہو کر اس دستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ یہ اس کا ناقابلِ معافی جرم تھا۔ نازی بڑی سرگرمی سے فرار ہو جانے والے اس سپاہی کو تلاش کرتے ہیں اور بالآخر اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔ اسے پھانسی دے دی جاتی ہے۔ نازی اسے پھندے پر لٹکتا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن وہاں کی ایک مقامی عورت “ایلسا” اسے بچا لیتی ہے اور اپنے گھر لے آتی ہے۔ نازی فوجی اور بالخصوص وہی فوجی دستہ ایک قریبی گاؤں میں اُس تباہ شدہ گھر کی کھوج میں نکلتے ہے جہاں پہلے یہودی رہتے تھے اور انہوں نے بہت سارا سونا اس گھر میں چھپا رکھا تھا۔ یہ فوجی دستہ اسی سونے کو حاصل کرنے کے مشن پر ہوتا ہے اور یہاں پہنچتا ہے۔

کہانی کا ایک منظر ہے کہ یہ فوجی دستہ، جو ایس ایس سپاہیوں کا دستہ کہلاتا ہے، ایلسا کے فارم ہاؤس پر آتے ہوئے ایک گاؤں کو لوٹ رہا ہے، اور وہیں ہینرک چھپا ہوا ہے۔

اس دستے کے فوجیوں کا ایلسا کے بھائی پاول سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے، وہ اس کو گالی دیتے ہیں۔ یہ لڑکا “ڈاؤن سنڈروم” نامی بیماری کا شکار ہے۔ پھر وہ ایلسا پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جب ہینرک سے رہا نہیں جاتا اور وہ سامنے آجاتا ہے، ان کو بچانے کے لیے۔ اس جھڑپ میں نازی دستے کے فوجیوں کی اکثریت ماری جاتی ہے اور باقی سپاہیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑتا ہے۔

ایلسا کا بھائی فوجی دستے کے کرنل کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ وہ اس کو گاؤں کے چرچ کے سامنے لاتے ہیں تاکہ اس کو موت کو مقامی لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ اس غرض سے اسے چرچ کی چوٹی پر لے جایا جاتا ہے، جب دو سپاہی اسے پھانسی دینے کی تیاری کرتے ہیں۔ تاہم، موقع پاکر پاول ایک کو ٹاور سے دھکیلنے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے اور دوسرے کو گولی مار دیتا ہے۔

اس کے بعد منحرف سپاہی ہینرک، اسے موت کے منہ سے نکال لانے والی ایلسا اور نازی دستے کے کرنل اور فوجیوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوجاتی ہے۔

ادھر گاؤں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر اس سونے پر ہے، جسے یہ سب تلاش کر رہے ہیں۔ گاؤں کا سرکاری سربراہ مقامی لوگوں اور فوجی دستے کے درمیان رابطے کا کام کر رہا ہوتا ہے اور اس تشویش میں مبتلا ہوتا ہے کہ کس طرح حالات پر قابو پائے۔ ہینرک اور ایلسا، آخرکار چھپائے گئے خزانے تک پہنچ جاتے ہیں اور سونا حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف فوجی ایلسا کو پکڑ لیتے ہیں۔ تب، ہینرک سونے کے بدلے ان سے ایلسا کی واپسی چاہتا ہے۔ پھر کس طرح ڈرامائی طور پر حالات بدلتے ہیں اور اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنا ہوگی۔

بعد میں ہینرک اور ایلسا کو ہیگن شہر پہنچتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، جہاں ہینرک کا اپنی بیٹی کے ساتھ جذباتی ملاپ ہوتا ہے۔ فلم کے اس موڑ پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک باپ، جس کا خاندان جنگ کا شکار ہو چکا ہے، اور صرف ایک چھوٹی بیٹی زندہ بچی ہے، وہ اس تک پہنچنے کے لیے موت کو کئی بار چکما دیتا ہے۔ فلم کے اسکرین رائٹر اسٹیفن بارتھ ہیں، جو جرمن سینما میں بطور کہانی نویس اور فلم ساز بھی شہرت رکھتے ہیں۔

پروڈکشن ڈیزائن/ ہدایت کاری

اس فلم میں ان تمام باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے، جو کہانی کو حقیقت سے قریب تر بنانے کے لیے ضروری تھیں۔ یہ فلم جرمنی کی پروڈکشن ہے، جو چار مختلف جرمن پروڈیوسروں نے مل کر بنائی ہے، جن میں کرسٹین بیکر جیسے معروف فلم ساز بھی شامل ہیں۔

اس فلم کو نیٹ فلیکس کے ذریعے دنیا بھر میں‌ اسٹریم کیا گیا ہے، اور اسی لیے ڈسٹری بیوشن کے حقوق نیٹ فلیکس کے پاس ہیں۔ یہ فلم سو(100) منٹس کے دورانیے پر مشتمل ہے اور اسے جرمنی میں اپریل کے مہینے میں جب کہ نیٹ فلیکس پر مئی کے آخری دنوں میں ریلیز کیا گیا ہے۔ اس وقت یہ فلم پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ 10 چارٹ میں اوپر نظر آرہی ہے۔ تادمِ تحریر یہ پانچویں نمبر پر تھی۔ فلم کی موسیقی، لوکیشنز، ملبوسات، لائٹنگ، تدوین، سینماٹوگرافی، میک اپ، گرافکس اور دیگر تمام شعبہ جات میں بلاشبہ ہر آرٹسٹ نے بہترین کام کیا ہے اور کسی بھی طرح سے ہالی وڈ سے کم نہیں رہے۔

یہ فلم بہت عمدہ اور جامع پروڈکشن ڈیزائن کا نمونہ ہے۔ فلم کے ہدایت کار “پیٹر تھورورتھ” نے بھی اپنی فنی مہارت کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔

اداکاری

اس فلم کے مرکزی کردار “ہینرک ” کو “رابرٹ میسر” نے انتہائی عمدگی سے نبھایا ہے۔ وہ ایک ایسے جرمن اداکار ہیں، جنہوں نے کئی بین الاقوامی فلموں میں کام کیا ہے اور ہالی وڈ سے لے کر انڈین فلموں تک وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں، جن میں ٹام کروز کی “مشن امپاسبل، روگ نیشن” اور اجے دیوگن کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم “شیوائے” سمیت دوسری مشہور فلمیں شامل ہیں۔ اس فلم میں دوسرا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ “مری ہیک” بھی عالمی شہرت یافتہ اداکارہ ہیں، اس فلم میں بھی ان کی پرفارمنس متأثر کن ہے۔

فلم کا تیسرا مرکزی کردار ایک لیفٹیننٹ کرنل کا ہے جسے نبھانے والے اداکار کا نام “الیگزینڈر شیئر” ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری سے فلم میں جان ڈال دی اور ایک منفی کردار نبھانے کے باوجود آخر تک چھائے رہے۔ یہ بھی ایک جرمن اداکار اور موسیقار ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے اداکاروں نے بھی اپنے اپنے کرداروں کو اچھی طرح نبھایا ہے۔ ان اداکاروں میں جوڈیز ٹرابیل، کونرلونگ، رائے میکری، سائمن رُپ، اسٹیفن گروسمن اور دیگر شامل ہیں۔

حرفِ آخر

رواں برس اس فلم کو، جنگ کے موضوع پر اب تک سب سے بہترین فلم کہا جاسکتا ہے، اور توقع ہے کہ یہ کئی اعزازات بھی اپنے نام کرسکے گی اور کچھ بعید نہیں کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد کی جائے۔ نیٹ فلیکس پر مقبولیت کے علاوہ بھی یہ فلم مختلف فورمز پر شائقین کی توجہ اور پسندیدگی سمیٹ رہی ہے۔ فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی مقبولیت 10 میں سے ساڑھے چھے ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی مقبول ترین فلمی ویب سائٹ “فلم ایفینٹی” پر 10 میں سے پانچ اعشاریہ آٹھ ہے۔ ایک اور معروف ویب سائٹ “روٹن ٹماٹوز” کے مطابق اس کی مقبولیت کا تناسب 100 میں 80 فیصد ہے۔

آپ اگر وار سینما دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ معیاری فلم یقیناً آپ کے لیے ہے اور اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسے ہالی وڈ نہیں‌ بلکہ جرمن فلم سازوں نے بنایا ہے اور یہ ان کی اپنے ملک پر بنائی ہوئی فلم ہے، اور نظریاتی طور پر بھی اہمیت رکھتی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے آپ یہ فرق واضح طور پر محسوس کریں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں