The news is by your side.

سیاسی کھچڑی میں شامل دال شاید گَل نہیں‌ رہی !

پیٹ کی خرابی یا بدہضمی میں معالج دوا کے ساتھ مریض کو ہلکی پھلکی غذا تجویز کرتا ہے جس میں کھچڑی ایک معروف غذا ہے جو آسانی سے تیار ہو جاتی ہے۔ سیاست میں اگر بدہضمی ہونے لگے تو سیاسی طبیب خود کھچڑی بنا کر مریض عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور یہ 75 سال سے ہوتا آ رہا ہے۔

ہمارے قومی مفاد نامی باورچی خانے میں نظریۂ ضرورت کی ہانڈی ہر وقت چڑھی رہتی ہے جب کبھی سیاسی بدہضمی ہونے لگے تو فوری طور پر اس ہانڈی میں کھچڑی تیار کی جاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مسالا جات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِدھر کی بوری سے کچھ چاول نکالے اور اُدھر کی بوری سے کچھ دال۔ دونوں کو ملا کر پکایا اور ‘حسب ذائقہ’ نمک ڈال کر ‘حسب منشا’ کھچڑی تیار کرلی۔

ایسی ہی ایک کھچڑی حال ہی میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے تیار کی گئی لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس بار کھچڑی میں دال گل نہیں رہی ہے۔ 9 مئی واقعے کے بعد گزشتہ سال پی ٹی آئی کو الوداع کہنے والے جہانگیر ترین نئی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے متحرک تھے جو بالآخر استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے وجود میں آئی اور حسب روایت اِدھر اُدھر مختلف سیاسی ڈالوں پر جھولنے کا تجربہ رکھنے والے سیاستدانوں کو اس میں شامل کر لیا گیا لیکن اپنے نام کی طرح اس پارٹی میں استحکام نظر نہیں آ رہا۔

عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے پہلے ان کا منشور اور نظریہ سامنے آتا ہے لیکن یہ تاحال سامنے نہیں آسکا ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں جب کہ اس نئی جماعت میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے کچھ انتہائی فعال اور نامور سیاستدان افتتاحی میٹنگ کے بعد منظر عام سے غائب ہیں جیسا کہ فواد چوہدری، علی زیدی، عمران اسماعیل سمیت کئی نام خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو ابر آلود سیاسی منظر کو مزید دھندلا رہا ہے۔

ملک کی تاریخ دیکھیں تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے بطن سے قومی مفاد کے باورچی خانے میں کئی نئی مسلم لیگ تیار کی گئیں جن میں سے اکثر اپنی پیدائش کے فوری بعد سیاسی موت ماری گئیں یعنی گمنام ہوگئیں صرف ن لیگ یا کسی حد تک ق لیگ نے اپنا وجود قومی سیاست میں برقرار رکھا۔ ٹوٹنے اور بکھرنے سے جے یو آئی، جے یو پی، اے این پی بھی محفوظ نہیں رہیں جب کہ مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک مسافت طے اور کبھی شہری سندھ کی بھرپور نمائندگی حاصل کرنے والی جماعت میں بھی تین دہائی قبل حقیقی نکالی گئی جو مطلوبہ نتائج نہ دے سکی، چند سال قبل پی ایس پی، ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم تنظیم بحالی کمیٹی کے نام سے حصے بخرے کیے گئے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر ایک بار پھر پی ایس پی، بحالی کمیٹی کو دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان میں ضم کر دیا گیا تاہم زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا سیاسی گھوٹالہ کرنے والوں کو اس کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

استحکام پاکستان پارٹی جس کو پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر سیاسی افق پر ‘ابھارا’ گیا ہے اس کے قیام کو ایک ماہ ہونے کو آیا لیکن نہ کوئی ممبر سازی کے حوالے سے کوئی سرگرمی نظر آتی ہے نہ ہی عوامی سطح پر لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے صرف ایک دو چہرے جو ہر چند سال بعد نئی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں وہی بیانات کی حد تک سرگرم ہیں۔ اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت بھی مستقبل کی حقیقی، پی ایس پی یا گمنام لیگوں کی طرح ثابت ہوگی اور قومی سیاسی منظر نامے میں اپنا وجود تادیر سیاسی جماعت کے طور پر برقرار نہیں رکھ سکے گی۔

سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر غیر علانیہ پابندی سے اس کی مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے کچھ بڑھ گئی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا پر جگہ نہ پانے کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اور سیاسی تجزیہ کاروں کے اپنے یو ٹیوب چینل پر تجزیے بھی ماہرین کی رائے کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں استحکام پاکستان پارٹی اور ایم کیو ایم کو دوبارہ جوڑنے والوں کو بھی فکر لاحق ہوگئی ہوگی۔

دال اگر نہیں گل رہی ہے تو کیا الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔ موجودہ قومی اسمبلیاں اپنی مدت 12 یا 13 اگست کو مکمل کر رہی ہیں۔ آئین کے مطابق مذکورہ تاریخ پر قومی اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے گی اس سے قبل نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان ہونا ہے جو آئین پاکستان کے مطابق 60 روز میں نئے الیکشن کرانے کا پابند ہوگا۔

بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق نگراں وزیراعظم کے لیے نام تجویز کر لیا گیا ہے ایک دور روز میں وزیراعظم شہباز شریف اور ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ راجا ریاض جو کئی ماہ قبل ہی ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کریں گے۔ کہا جارہا ہے جس طرح نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے محسنِ پنجاب کا انتخاب کیا گیا اسی طرح نگراں وزیراعظم کے لیے محسنِ پاکستان کا بھی انتخاب ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ محسنِ پاکستان نگراں وزیراعظم بنتے ہیں تو کیا اپنی آئینی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے 60 روز میں الیکشن کروا کے رخصت ہو جائیں گے یا پھر محسنِ پنجاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نگراں حکومت کو غیر آئینی طول دیں گے۔

الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تیاری شروع کر چکا ہے لیکن بظاہر ملک کے جو سیاسی حالات نظر آ رہے اس میں تو عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہےکیونکہ ایک عنصر خاموش ووٹرز ہیں جو لگتا ہے صرف طاقتور حلقوں ہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ بااختیار حلقے ایسا فیصلہ کریں جو اس ملک کو مزید انارکی میں دھکیلنے کے بجائے سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف گامزن کرے کیونکہ پاکستان مزید تجربات اور آزمائشوں کے لیے موزوں نہیں‌ رہا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں