The news is by your side.

دی کوینینٹ (فلم ریویو)

فلم دی کوینینٹ امریکا میں سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جسے بعد میں معروف اسٹریمنگ پورٹل “ایمازون پرائم ویڈیو” پرریلیز کیا گیا اور اس امریکی اسٹریمنگ پورٹل کے ذریعے یہ فلم دنیا کے ہر خطّے میں‌ بسنے والے فلم بینوں تک پہنچی۔

یہ اسٹریمنگ پورٹل چند معروف اور مقبول پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، جس پر دنیا بھر سے فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں فلم بینی کا شوق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نیٹ فلیکس پر اپنی پسند کی فلمیں دیکھتی ہے اور ایمازون پرائم ویڈیو اسی کی ٹکر کا اسٹریمنگ پورٹل ہے جو اب پاکستان میں بھی مقبول ہورہا ہے۔

فلم دی کوینینٹ، ایک عہد کی وہ کہانی ہے جو افغانستان میں اتحادی فوجیوں، اور اُن افغانوں کے گرد گھومتی ہے جو بطور مترجم ان فوجیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ یہ کہانی اور واقعات فرضی ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد، امریکی افواج کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں افغان مترجمین کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ دی کوینینٹ اسی پس منظر میں بنائی گئی فلم ہے۔

کہانی/ اسکرین پلے

اس فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران، امریکی فوج کے ماسٹر سارجنٹ جان کنلے اور اس کی یونٹ لشکر گاہ میں معمول کے مطابق گاڑیوں کی چیکنگ میں مصروف ہوتے ہیں کہ طالبان کے حملے میں ان کے ایک مترجم کی جان چلی جاتی ہے۔ اس مترجم کے متبادل کے طور پر جان کنلے کا تعارف احمد عبداللہ سے کرایا جاتا ہے، جو ثابت قدم لیکن ایک ناپسندیدہ ترجمان ہے، اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف اور صرف پیسوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ایک خفیہ مشن کے دوران سارجنٹ کنلے کو معلوم ہوا کہ احمد پہلے طالبان سے وابستہ تھا، لیکن تنظیم کے ہاتھوں‌ جب اس کا بیٹا قتل ہوا تو وہ منحرف ہو گیا۔ احمد ایک موقع پر کنلے کی ٹیم کو گھات لگائے ہوئے طالبان سے بھی بچاتا ہے۔

بگرام ایئر بیس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل) شمال میں باغیوں کے ممکنہ ہتھیاروں کے بڑے ذخیرے کی تلاش کے لیے ایک اور چھاپے کے دوران، کنلے کے یونٹ پر طالبان کا حملہ ہوتا ہے، جو اس کے اور احمد کے علاوہ سب کو مار ڈالتے ہیں۔ یہ دونوں پیدل فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس حملے میں کئی طالبان جنگجو بھی مارے جاتے ہیں۔ افغان پہاڑی علاقے سے گزرتے ہوئے ایئربیس پر واپس جانے کی کوشش کرتے ہوئے، وہ ایک بار پھر باغیوں کے حملے کی زد میں آتے ہیں اس بار کنلے زخمی ہوجاتا ہے، حملہ کرنے والے مار پیٹ کے دوران اسے رائفل کے بٹ سے معذور کر دیتے ہیں۔ احمد اس حملے میں ملوث طالبان کو مارنے کے بعد کنلے کو واپس ایئر بیس پر لے جانے کا عزم کرتا ہے۔ کچھ ہمدرد افغانوں کی مدد حاصل کر کے، احمد وہاں سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کئی دن بعد احمد اور کنلے بگرام کے قریب پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہاں طالبان جنگجو ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ احمد جنگجوؤں کو مار ڈالتا ہے، لیکن اس کے فوراً بعد اسے امریکی فوجی پکڑ لیتے ہیں۔

چار ہفتے بعد کنلے، سانتا کلیریٹا، اپنے گھر کیلیفورنیا میں واپس بھیج دیے جاتے ہیں، لیکن کنلے اس بات سے مکمل طور پر بے خبر ہے کہ اسے کیسے بچایا گیا، وہ سمجھتا ہے کہ اس میں احمد نے کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں یہ جان کر کہ احمد اور اس کے خاندان کو ان دونوں کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، کنلے ان کے لیے امریکی ویزا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوتی ہے۔ وہ جذباتی اور ایک اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ احمد کا مقروض ہے اور اس کی وفاداری اور اپنی ٹیم کے لیے خدمات پر اس کا حق ادا نہیں کرسکا اور یہی سوچ اسے بے چین و مضطرب رکھتی ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آخر کار کنلے احمد کو اور خود کو بچانے کا عزم کر کے اپنے ایک افسرِ اعلیٰ، لیفٹیننٹ کرنل ووکس کی مدد لیتا ہے تاکہ خفیہ طور پر افغانستان جاسکے اور کسی طرح‌ احمد اور اس کے خاندان کو تلاش کر کے ان کے لیے کچھ کرسکے۔

اپنے افسرِ اعلیٰ کی مدد سے کنلے افغانستان جانے میں‌ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے وہ “رون کی” کا نام اپناتا ہے۔ افغانستان واپس جاتے ہوئے، کنلے کی ملاقات پارکر سے ہوتی ہے، جو ایک پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر ہے، اور پھر کِنلے احمد کے بھائی علی تک پہنچ جاتا ہے جو اسے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقے تک لے جانے کا انتظام کرتا ہے۔ اس عمل میں، اس کے ہاتھوں‌ سڑک پر قائم ایک چوکی پر دو باغی مارے جاتے ہیں، جس سے طالبان خبردار ہو جاتے ہیں۔ ادھر ووکس، کنلے کو مطلع کرتا کہ ویزا پر کارروائی ہو چکی ہے اور وہ پارکر کے پاس ہیں۔ اور پھر کنلے، احمد کے ٹھکانے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اسے خاندان سمیت امریکہ جانے کے لیے قائل کرتا ہے۔

اس دوران، پارکر یہ اندازہ کر لیتا ہے کہ کنلے کی حقیقیت کچھ اور ہے اور اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اب طالبان کے لیے وہ دونوں‌ بڑا خطرہ ہیں، اور اِن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ گن شپ اور اپاچی ہیلی کاپٹر کا بندوبست کرتا ہے اور حملہ آوروں کا صفایا ہوجاتا ہے۔ پارکر کہتا ہے کہ اگر وہ اپنی شناخت نہ چھپاتا تو وہ دل سے کنلے کے مشن کی حمایت کرتا۔ پھر وہ واپس بگرام لے جائے جاتے ہیں اور پھر اس ہوائی جہاز میں سوار ہو جاتے ہیں جو افغانستان کی فضائی حدود سے پرواز کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

اس فلم کا مرکزی کردار یعنی کنلے افغانستان میں دو مشن مکمل کرتا ہے۔ پہلے مشن پر وہ اتحادی فوج کے افسر کی حیثیت سے افغانستان بھیجا گیا تھا اور دوسرا اس کا خود ساختہ مشن تھا جس میں وہ جذبات سے مغلوب ہو کر افغانستان پہنچا تھا، یعنی احمد اور اس کے خاندان کو افغانستان سے بحفاظت نکال کر امریکہ لے جانے کا مشن۔ جہاز میں‌ سوار ہونے کے بعد وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر سَر ہلاتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ عہد برقرار رکھا گیا ہے۔یہ اس فلم کے اختتامی لمحات ہیں، لیکن اتحادی افواج، ان کا ساتھ دینے والے افغان باشندوں اور طالبان یا باغیوں‌ کے واقعات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے میں‌ آپ کی دل چسپی ہر بدلتے منظر کے ساتھ بڑھ جائے گی۔ اگر فلم کو امریکی فوجی کِنلے کے دو مشن کی صورت میں‌ دیکھا جائے تو یہ فلم گولہ بارود برسانے اور لاشیں‌ گرانے کے دل دوز واقعات کے ساتھ اُس مشن کی طرف لے جاتی ہے جس کی بنیاد دلی جذبات پر رکھی گئی ہے۔ فلم میں آپ کی دل چسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ اُس ملک کی کہانی ہے جس کے سیاسی اور سماجی حالات سے ہم بھی واقف ہیں۔

فلم سازی و ہدایت کاری

اس فلم کے چار مرکزی پروڈیوسرز ہیں، جن میں فلم کے ہدایت کار بھی شامل ہیں۔ایم جی ایم جیسا عہد ساز ادارہ اس فلم کا تقسیم کار ہے، جس نے اسے امریکی سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کیا، جب کہ اسے اسٹریم کرنے کے لیے ایمازون پرائم ویڈیو کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس فلم کا نام پہلے “دی انٹرپریٹر” تھا، جسے “دی کوینینٹ” سے تبدیل کردیا گیا۔ فلم کے نام کے ساتھ ہدایت کار “گائے رچی” کا نام بھی پیوست ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک پرانی فلم بھی اسی نام سے موجود ہے جس میں تمیز کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

اس فلم کی عکس بندی اسپین کے مختلف علاقوں میں کی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار “گائے رچی” کا تعلق برطانیہ سے ہے جو مشہور‌ گلوکارہ میڈونا کے سابق شوہر بھی ہیں۔ باکس آفس کی بات کی جائے تو اس فلم کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا گیا اور یہ اپنی لاگت پوری نہیں کر سکی، لیکن پروڈکشن، کہانی اور عنوان کے لحاظ سے یہ ایک بہتر اور معیاری فلم ہے جسے فلمی ناقدین اور فلم بینوں دونوں نے پسند کیا ہے۔

ایمازون پرائم ویڈیو کے پورٹل پر پسند کیے جانے کے علاوہ فلم کو مختلف پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے۔ فلم ویب سائٹ “روٹن ٹماٹوز” پر اسے 84 فیصد کی شرح سے پسندیدگی ملی، جب کہ آئی ایم ڈی بی پر یہ فلم دس میں سے 7.5 فیصد اور ایک اور ویب سائٹ “وودو” پر پانچ میں سے 4.7 فیصد کی پسندیدگی حاصل کر پائی ہے۔ گوگل پر اس فلم کے لیے پسندیدگی کا تناسب پانچ میں سے 4.7 فیصد رہا ہے۔

دی کوینینٹ پر تبصرے مثبت رہے اور مجموعی طور پر فلم کے تمام شعبوں میں فن کاروں‌ اور آرٹسٹوں کی کارکردگی کو تسلی بخش اور اسے ایک معیاری فلم گردانا گیا ہے۔

اداکاری

اس فلم کے مرکزی کرداروں میں معروف امریکی اداکار “جیک جیلن ہو” اور “عراقی اداکار “دار سلیم” شامل ہیں۔ ان دونوں کی اداکاری نے فلم کا معیار بلند کیا ہے، خاص طور پر دار سلیم نے اپنے شان دار اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے ناقدین کو بھی متأثر کیا ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بغداد کی ہے، مگر وہ اپنی والدین کے ہمراہ، چھے سال کی عمر میں‌ ہجرت کر کے ڈنمارک آگئے تھے۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کا رجحان فلم سازی اور اداکاری کی طرف ہوا، انہوں نے ٹیلی وژن اور فلموں کے لیے کام شروع کیا اور بطور خاص ہالی وڈ کی فلموں میں شامل کیے گئے۔ دار سلیم کو فلم بینوں‌ نے پسند کیا اور انہیں زیادہ کام ملنے لگا۔ فلم میں ان کے ساتھی فن کاروں نے بھی خوب کام کیا۔ مجموعی طور پر ان سب کی کارکردگی متأثر کن رہی، اور یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں نے بھی اسے پسند کیا ہے۔

حرفِ آخر

امریکہ نے دنیا کے مختلف حصّوں میں کئی جنگیں لڑی ہیں جن پر بنائی گئی فلمیں‌ دیکھ کر اُن جنگوں کے اسباب اور اُن حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کسی ملک کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ افغانستان سے اںخلا کے وقت، وہاں‌ کا ماحول کیا تھا، امریکی فوج اور اتحادیوں کو کن حالات کا سامنا تھا اور ان کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں کی زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی اور کیسے وہ ان حالات میں خود کو اپنے کنبے کو بچا پائے، یہ فلم اِس عکاسی کرتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں