لیجیے، تھا جس کا انتظار وہ ’’شیر‘‘ آ گیا۔ مطلب یہ کہ شیر کے انتخابی نشان والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف نے چار سال کے طویل انتظار کے بعد عوام کو اپنی وطن واپسی کی حتمی تاریخ دے دی ہے۔ وہ 21 اکتوبر بروز ہفتہ سر زمین پاکستان پر قدم رنجہ فرمائیں گے۔
نواز شریف صرف مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد ہی نہیں بلکہ تین بار پاکستان کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور یہ اعزاز آج تک کسی اور سیاست دان کے حصے میں نہیں آیا، لیکن اقتدار وہ نشہ ہے کہ جسے اس کی لت لگ جائے تو پھر وہ اس میں ہی مست رہنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اب وہ چوتھی بار پھر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہونے کی خواہش لیے لندن سے ’’اپنے‘‘ دیس واپس آ رہے ہیں تاکہ ان کے تین ادوار میں جو کسر رہ گئی تھی یعنی پاکستان کو ترقی یافتہ اور ایشین ٹائیگر بنانے کی اسے پورا کیا جا سکے۔
سابق وزیراعظم کی وطن واپسی کے لیے خصوصی طیارہ بھی بُک کر لیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ پہلے اسلام آباد لینڈ کریں گے اور وہاں کچھ دیر قیام کے بعد لاہور کے لیے روانہ ہوں گے جہاں سے مینار پاکستان جائیں گے اور جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ نواز شریف وطن واپسی سے 10 روز قبل سعودی عرب پہنچے جہاں انہوں نے عمرے کی سعادت حاص کرنے کے بعد جدہ میں اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات سےملاقاتیں بھی کی ہیں جس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
چوتھی بار وزیراعظم بننے کا سپنا تعبیر پاتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والے الیکشن (جن پر تاحال شکوک کے بادل چھائے ہوئے ہیں) کے نتائج ہی بتا سکیں گے لیکن حالات دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ ن لیگ جو لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی آ رہی تھی وہ مل چکی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی فیلڈ سیٹ کر دی گئی ہے کہ آؤٹ ہونے کا گمان نہ رہے۔ ایسے ایسے کھلاڑی فیلڈ میں سیٹ کیے گئے ہیں جو لوز شاٹ پر آسان ترین کیچ چھوڑنے کا فن بخوبی جانتے ہیں یوں یقینی آؤٹ ہو کر بھی منظور نظر ناٹ آؤٹ رہ کر اپنی اننگ جاری رکھ سکیں گے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی لندن سے روانگی کے وقت پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے ان سے ملاقات کی جب کہ وہ اس وقت بھی عدالت سے سزا یافتہ مفرور مجرم ہیں جب کہ گزشتہ ماہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے دورہ امریکا کے دوران ’’خوامخواہ‘‘ کے دورہ برطانیہ میں ایسے ہوٹل میں قیام جہاں نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی مقیم تھے کچھ اور ہی اشارے دے رہے ہیں۔
نواز شریف خوش قسمت ہونے کے ساتھ ہی ایسا نصیب بھی رکھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں دو تہائی اکثریت لینے کے باوجود وہ ایک بار بھی اپنی 5 سالہ مدت وزارت عظمیٰ مکمل نہیں کرسکے ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں اقتدار میں آنے کے بعد ایک عدالتی فیصلے پر وہ سزائے قید کے ساتھ تاحیات نا اہل بھی قرار پائے جو تاحال برقرار ہے اگرچہ چھوٹے بھائی شہباز شریف اپنے 16 ماہ کے اقتدار میں نیب ترامیم کے ذریعے انہیں بڑا ریلیف دے کر چلے گئے تھے لیکن سابق چیف جسٹس جاتے جاتے نیب ترامیم کالعدم قرار دے کر صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ دیگر کئی سیاستدانوں کے سر پر دوبارہ تلوار لٹکا گئے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی روز طلوع ہوتے سورج کی طرح حقیقت ہے کہ اس وقت نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ اور نااہل سیاستدان ہیں جو اپنے ہی دور اقتدار میں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے گئے اور پھر عمران خان کے دور حکومت میں اتنا بیمار ہوئے اور پلیٹیلیٹس اس حد تک گر گئے اور اس کا اتنا شور وغوغا ہوا کہ یہ کہا جانے لگا کہ خدانخواستہ یہاں رہ کر میاں نواز شریف کو کچھ بھی ہو سکتا ہے حد تو یہ کہ عدالت اس وقت کی حکومت سے ان کی زندگی کی ضمانت مانگنے لگی جس کے بعد انہیں عدالتی حکم پر باقاعدہ اہتمام کے ساتھ بغرض علاج صرف 8 ہفتوں کے لیے لندن بھیجنا پڑا وہ بھی ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر۔ مقررہ مدت پر واپس نہ آنے پر عدالت انہیں مفرور قرار دے چکی ہے۔
نواز شریف جب ’’انتہائی تشویشناک حالت‘‘ میں 19 نومبر 2019 کو عدالت کی منظوری سے لندن بذریعہ ایئر ایمبولینس روانہ ہوئے اور ان کو لینے کے لیے قطر ایئر ویز کی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ وہ ایئر ایمبولینس آئی جو نہ صرف براہ راست لندن تک پرواز کرسکتی بلکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت بر وقت آپریشن کی سہولت بھی موجود تھی۔لندن روانگی کے وقت ان کی میڈیا میں آنے والی تصاویر کو دیکھ کر سب کو ہی ان کی صحت کی حالت کے حوالے سے تشویش ہوئی لیکن چند گھنٹوں کے بعد جس طرح وہ ہشاش بشاش لندن کی سر زمین پر اترے تو چند گھنٹے قبل تک پریشان ہونے والے سب ہی حیران رہ گئے کہ یہ کیسی بیماری ہے جو لندن کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اڑن چھو ہوگئی۔ تشویشناک بیماری کے باعث جان کے تحفظ کے لیے بغرض علاج لگ بھگ چار سالہ لندن میں قیام کے دوران میڈیا میں ان کے لندن سمیت یورپی ممالک میں سیر سپاٹوں، خوش گپیوں اور سیاسی میٹنگوں کی خبریں تو آئیں لیکن شاید ہی کسی اسپتال میں ان کے داخلے کی خبر کبھی بھی میڈیا کی زینت بن سکی ہو نہ جانے ایسا کیوں ہوا؟
8 ہفتوں کے لیے لندن جانے والے ن لیگ کے قائد کی واپسی کے لیے قوم منتظر ہی رہی کہ وہ کب پاکستان آتے ہیں لیکن نواز شریف کو پاکستان آنے کے بجائے پاکستانی قوم نے اٹلی، لندن، سعودی عرب، دبئی اور پھر یورپی ممالک آتے جاتے کافی، چائے اور ڈنر کے مزے لیتے دیکھا۔ ان مواقع پر جب بھی نواز شریف کی وطن واپسی کی بات کی جاتی تو ن لیگ کی قیادت یک زبان ہوکر کہتی کہ وہ علاج کے لیے گئے ہیں مکمل ہوتے ہی وہ فوری وطن واپس آ جائیں گے۔ جس پر مخالفین کے ساتھ خود پارٹی ورکرز بھی یہ سوچنے پر مجبور ہونے لگے کہ آخر یہ کیسی انوکھی بیماری اور پلیٹیلیٹس ہیں جو یورپ، برطانیہ، سعودی عرب اور دبئی کے سیر سپاٹوں سے نہیں روکتے ہیں لیکن جہاز کا رخ پاکستان کی جانب ہونے سے کیوں پلیٹیلیٹس گرنے لگتے ہیں؟
اب جب کہ نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں تو پاکستانی عوام کا کیا ردعمل ہوگا یہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ہماری سیاسی روایت کے مطابق جب بھی کوئی سیاسی لیڈر خود ساختہ جلاوطنی یا پھر کسی بھی وجہ سے بیرون ملک طویل قیام کے بعد وطن واپس آتا ہے تو اس کے پرتپاک استقبال کے لیے پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر نواز شریف کا استقبال منسوخ کر دیا گیا جس کا پارٹی رہنماؤں نے ٹریفک بلاک، عوام پریشان، مریض ایمبولینسوں میں پھنسیں گے اور شادیوں کا سیزن ہے اس لیے باراتیں لیٹ ہوں گی جیسے مضحکہ خیز اور بودے جواز بنا کر عوام اور مخالفین کو خود پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا پھر آمد سے قبل لاہور میں شیڈول کارنر میٹنگز بھی منسوخ کر دیں۔ سیاسی مبصرین ن لیگ کے فیصلوں کو عوام کا عمومی رویہ دیکھ کر شرم سے بچنے کا ایک جواز قرار دے رہے ہیں کیونکہ گزشتہ سال مریم نواز کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لوگ جمع نہیں کر سکی تھیں جب کہ حال ہی شاہدرہ میں ہونے والی کارنر میٹنگ کا احوال اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کی لاہور میں اپنے حلقے میں عوام سے عزت افزائی جیسے تواتر سے ہونے والے واقعات ن لیگ کی عوامی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ جو اپنے کارکنوں کو بریانی کھلانے کے حوالے سے مشہور تھی اب پہلے مینار پاکستان جلسے میں پہنچنے والوں کو موٹر سائیکل اور پھر دال نہ گلنے پر مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے جنت کے ٹکٹ دینے کے اعلانات کرنے لگی ہے۔
وطن واپسی سے 15 دن قبل نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹ سامنے آئی ہے جس برطانیہ کے رائل برومپٹن اسپتال کے کنسلٹنٹ پروفیسر کارلو ڈی ماریو نے جاری کی ہے، برطانوی معالج کی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔ جس میں کہا ہے کہ نواز شریف کو اب بھی دل کا عارضہ ہے اور دیگر امراض کی وجہ سے پاکستان و لندن میں مسلسل فالو اپ کی ضرورت ہے۔
اس میڈیکل رپورٹ کے مطابق 2022 میں نواز شریف کی انجیو پلاسٹی کی گئی اور ان کے دل میں اسٹنٹ بھی ڈالے گئے۔ سابق وزیراعظم کے ساتھ گزشتہ سال یہ سب کچھ ہوا تو پھر یہ خبر قومی اور بین الاقوامی میڈیا خبر میڈیا کی زینت کیوں نہ بن سکی جب کہ 2022 میں تو وہ اٹلی کے سیر سپاٹے کرتے پائے گئے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے دور حکومت کے آخری ایام میں ڈاکٹروں کی جانب سے نواز شریف کی صحت سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی تھی جس میں انہیں ٹاکا سوبو سینڈروم نامی بیماری کا شکار بتایا گیا تھا جو دل ٹوٹنے کی بیماری ہے۔ اس سے قبل تو پاکستانی دل ٹوٹنے کو پیار میں ناکامی کا سبب سمجھتے تھے مگر اس رپورٹ نے یہ آشکار کیا کہ یہ بھی کوئی بیماری ہے۔
نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل دو اہم واقعات بتاتے ہیں کہ شاید ان کا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب اتنا آسان نہ ہو کیونکہ ان کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی نیب ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا جس سے نواز شریف پر کیسز کی تلوار پھر لٹک گئی ہے جب کہ گزشتہ ہفتے الیکشن ایکٹ ٹرمیمی سیشن 232 کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جس میں تاحیات نا اہلی کو 5 سال کرنے کی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے جو سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سابق وزیراعظم کی وطن واپسی سے قبل ان کے سر پر لٹکتی تلوار بھی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے عدم اعتراض پر قائد ن لیگ کی حفاظتی ضمانت 24 اکتوبر تک منظور کرتے ہوئے انہیں ایئرپورٹ پر گرفتار کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ احتساب عدالت نے بھی توشہ خانہ کیس میں ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری 24 اکتوبر تک مععطل کر دیے ہیں۔
نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ پاکستان میں سیاست جیسے اور جن سہاروں پر کی جاتی ہے وہاں بازی بنتے بنتے پلٹتے بھی دیر نہیں لگتی اور کبھی تو حالات یہ اس شعر کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ مجھے اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا، میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا‘‘، نواز شریف کو وطن واپسی پر سب سے زیادہ جس بات پر عوامی غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو وہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت میں ریکارڈ توڑ مہنگائی ہے جس نے غریب تو غریب متوسط طبقے کو بھی غربت کی لکیر کے نیچے پہنچا دیا۔ کاروبار تباہ اور بیروزگاری کے ساتھ کمر توڑ مہنگائی معاشرتی زندگی الجھا کئی المیوں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ سو آپ اور ہم انتظار کرتے ہیں کہ آئندہ آنے والے ایام سیاست میں کیا گُل کھلاتے ہیں کیا عوام نئے پر فریب نعروں میں الجھتے ہیں یا اپنی حالت زار کا الیکشن میں ذمے داروں سے بدلہ چُکتا کرتے ہیں۔