The news is by your side.

حالیہ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر دنیا میں مذاق بنا دیا ہے

بھارت میں جاری ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی ناقص پرفارمنس اور مسلسل ناکامیوں کے باعث پہلے ہی تنقید کی زد میں تھی۔ ٹیم میں اختلافات، چیف سلیکٹر اور ٹیم ڈائریکٹر میں اختیارات کی جنگ کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں۔ ایسے میں پلیئرز ایجنٹ جس کو ’’مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کا بھی نام دیا جا رہا ہے جیسے اسکینڈل پر دنیائے کرکٹ نے اپنی نظریں قومی کھلاڑیوں کی پرفارمنس سے ہٹا کر پی سی بی کے اندرونی معاملات اور نجی سرگرمیوں پر گاڑ دیں، جو 1999 کے بعد پاکستان کرکٹ میں ایک نیا بڑا سنگین بحران بن کر ابھر سکتا ہے۔

آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم فیورٹ ٹیم کے طور پر شریک ہوئی تھی۔ ابتدا میں وارم اپ میچز ہارنے کے باوجود نیدر لینڈ اور پھر سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف 345 عبور کر کے قوم کی امیدوں کو مزید بڑھایا بھی، مگر پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ روایتی حریف بھارت کے خلاف میچ میں شکست کسی کو برداشت نہیں ہوتی، لیکن یہ کڑوا گھونٹ قوم خود کو یہ بہلاوا دے کر نگل سکتی ہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کبھی بھارت سے نہیں جیتا لیکن آسٹریلیا کے بعد افغانستان سے شرمناک شکست کے بعد قومی ٹیم کے پاس کیا جواز ہے جب کہ جنوبی افریقہ سے جیتا میچ بھی ہار گئے، یوں گرین شرٹس اب میگا ایونٹ میں اپنے سفر کے اختتام کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اسے ماضی کے ہر بڑے ایونٹ کی طرح اگر مگر کی صورتحال کا سامنا ہے کہ اپنے تینوں میچز جیتنے کے ساتھ دیگر ٹیموں کے میچز کے نتائج پر بھی انحصار کرنا ہوگا۔

خیر یہ تو میگا ایونٹ میں پاکستان کی اب تک کی کارکردگی کا مختصر سا خلاصہ تھا۔ مگر اس بدترین کارکردگی نے جہاں ناقدین کو تنقید کی توپیں کھولنے کا موقع دیا، وہیں وہ ماہرین اور شائقین جو ورلڈ کپ سے قبل ٹیم سے امیدیں لگائے بیٹھے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، وہ بھی ٹیم کی اس حیران کن مگر شرمناک کارکردگی پر انگشت بدنداں ہو کر کھری کھری سنانے لگے۔

ورلڈ کپ کسی بھی کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں کھیلنا اور کارکردگی دکھانا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے، تاہم بابر الیون نے اس ایونٹ میں اب تک حالیہ برسوں میں اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے اس کا مورال پہلے ہی گرا ہوا تھا۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کے اندر باہمی اختلافات کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ میں چپقلش کی خبریں بھی سامنے آنے لگی تھیں، جو ایسی شکستوں کے بعد پاکستان کرکٹ میں معمول کی باتیں ہیں لیکن حالیہ دو تین روز میں ابھرنے والے معاملات جو اب اسکینڈل کا روپ دھار چکے ہیں، اس نے پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر دنیا میں مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی مسلسل شکستوں کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ ٹیم کپتان بابر اعظم کی مرضی سے منتخب کی گئی۔ اس موقع پر پریس ریلیز کو سابق کھلاڑیوں نے بھی غیر ضروری اور بے موقع قرار دیا۔ ابھی اس کی دھول بیٹھی بھی نہ تھی کہ ’’پلیئرز ایجنٹ کمپنی‘‘ اسکینڈل سامنے آ گیا جس میں چیف سلیکٹر انضمام الحق، کپتان بابر اعظم، محمد رضوان کا نام لیا جانے لگا۔ اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کی انٹرویو میں عین ورلڈ کپ کے درمیان ٹیم کے اندرونی معاملات پر گفتگو اور تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کے ساتھ بابر اعظم کی چیٹ لیک کرنے نے اس تنازع کو ہوا دی، جب کہ انضمام الحق کا استعفیٰ بھی تنازع کا ایک نیا در وا کر گیا گو کہ انہوں نے اس کو تحقیقات سے جوڑا ہے۔

اس سارے کھیل تماشے کا آغاز سابق کپتان راشد لطیف کے اس بیان سے ہوا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بورڈ حکام نے ورلڈ کپ میں پے در پے ناکامیوں کے بعد کپتان بابر اعظم کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور بورڈ چیف ان کی کال تک نہیں سن رہے جس کے بعد ذکا اشرف نے بابر اعظم کی اس حوالے ایک چیٹ لیک کر دی جو سراسر غیر اخلاقی طرز عمل ہے جس پر شائقین کرکٹ سمیت سابق کھلاڑی بھی بورڈ کو لعن طعن کر رہے ہیں۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پانچ ماہ سے زیر التوا کھلاڑیوں کے سالانہ کانٹریکٹ کے معاملے کو پی سی بی کے عقل مندوں نے عین ورلڈ کپ کے درمیان اٹھا دیا اور نہ جانے کیا ایمرجنسی ہوئی کہ متعلقہ حکام دستاویزات کا پلندا لے کر بھارت کھلاڑیوں سے کانٹریکٹ سائن کرانے پہنچ گئے جس نے ایک نیا پنڈورا کھول دیا۔ جب معاہدہ پانچ ماہ پہلے ہی تاخیر کا شکار تھا تو اگر دو تین ہفتے (ورلڈ کپ ختم ہونے میں اتنا ہی وقت رہ گیا ہے) مزید تاخیر ہو جاتی تو کیا قیامت آ جاتی کیا کہ ایسے ملک (بھارت) میں جو ہمیشہ پاکستان کو سیاسی ہو یا کھیل ہر شعبے میں نیچا دکھانے کی تاک میں رہتا ہے اور ہماری قومی ٹیم جو مسلسل شکستوں سے پہلے ہی دل برداشتہ ہو، وہاں یہ مذاق بنوانا خود بورڈ حکام کے رویے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان ٹیم ڈو اور ڈائی والی پوزیشن میں ہے تو اس سارے اسکینڈل میں پہلے ہی دباؤ کا شکار کھلاڑی کیسے اچھا پرفارم کر سکتے ہیں یہ کسی نے نہیں سوچا سب کو اپنی سیٹ بچانے کی فکر ہے مگر پاکستان کے وقار کی کسی کو پروا نہیں۔

ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی، ٹیم میں اختلافات، انضمام اور مکی آرتھر میں اختیارات کی جنگ جیسی خبروں کے بعد میگا ایونٹ کے درمیان ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کا یوں اپنے ایک انٹرویو میں حساس اور ٹیم کے اندرونی معاملات پر بیان سے لگتا ہے کہ بورڈ سے معاملات سنبھل نہیں رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ورلڈ کپ مکمل ہونے کے بعد ٹیم کی واپسی پر اس کی کارکردگی پر ہر ذمے دار کا محاسبہ اور سزا وجزا کا عمل روا رکھا جاتا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ حکام ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص پرفارمنس کا پھندا ڈالنے کے لیے پتلی گردن تلاش کر رہی ہے جس میں یہ پھندا فٹ آ سکے اور باقی سب کو بری الذمہ قرار دے کر چین کی بانسری بجا سکیں۔

پی سی بی کے چیف پہلے ہی کہہ چکے ہیں ابھی ٹیم کے جو بھی معاملات ہیں وہ سابق انتظامیہ (نجم سیٹھی دور) کے ہیں، ہم ورلڈ کپ کے بعد بعد میں فیصلے کریں گے اور ذمے داری لیں گے اگر یہ درست مان لیا جائے تو سوال یہ کیا جائے گا کہ پھر تین ماہ تک آپ نے ان کے غلط فیصلوں کو کیوں جوں کا توں رکھا؟ کیا آپ کو اس لیے لایا گیا تھا کہ خاموش تماشائی بنے پاکستان کرکٹ کی بربادی کا تماشہ دیکھتے رہیں؟

اس سارے منظر نامے میں قومی ٹیم کے ایک سینیئر کھلاڑی کا یہ دعویٰ جو اس نے ایک بھارتی کرکٹ ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم جو نتائج چاہتے تھے وہ نہیں ملے مگر ہم پوری محنت کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب بورڈ کو ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے ایسے وقت میں وہ ہمارے لیے مزید مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔ پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز غیرضروری تھی۔ ہمیشہ کپتان اور سلیکٹرز ہی ٹیم منتخب کرتے ہیں تو اس میں نئی بات کیا ہے، ہم یہاں ورلڈ کپ کھیلنے آئے ہیں اور یہاں ہمارے پیچھے سیاست ہو رہی ہے تو ہم کیسے لڑیں گے کس سے لڑیں گے۔ بورڈ ہمیں اپنے اس اقدام سے انڈر پریشر لا رہا ہے تاکہ ہماری کاکردگی خراب ہو اور بورڈ اپنی من مانی کرسکے۔

موجودہ حالات اور پاکستان کرکٹ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد ایک بڑا بحران سر اٹھانے والا ہے جیسا کہ 1999 کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں آیا تھا اس بحران میں کون کون بہہ جائے گا اور کون اپنی جگہ برقرار رکھ سکے گا اس بارے میں پیشگی کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ پی سی بی کی 5 رکنی کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن اس سے قبل بھی کئی اسکینڈلز آئے، تحقیقات ہوئیں، سفارشارت اور تجاویز دی گئیں اس پر کتنا عملدرآمد ہوا یہ سب پر عیاں ہے ویسے بھی یہاں من پسند کو مکھن سے بال کی طرح نکالنے کا فن سب جانتے ہیں اور حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کے معاملات بہت خراب ہوچکے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں