کرکٹ کا عالمی میلہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کا 13 واں ایڈیشن بھارت میں ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے کے بعد آسٹریلیا کو چھٹی بار حکمرانی کا تاج پہنانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فائنل میچ میں حیران کُن طور پر ٹورنامنٹ میں تمام مخالف ٹیموں کو روند کر نا قابل شکست رہنے والی میزبان ٹیم بھارت کو شکست ہوئی۔ اس نتیجے نے بڑے مقابلے سے پہلے جہاں کرکٹ ماہرین کے دعوؤں، تجزیوں کی نفی کر دی وہیں بھارت کا تیسری بار ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
عالمی کپ کا آغاز گزشتہ ماہ 5 اکتوبر سے ہوا جو اپنے آغاز سے پہلے سے ہی کئی تنازعات میں گھر گیا تھا جب کہ ایونٹ کے دوران دیگر کئی تنازعات نے بھی اس کو اپنی لپیٹ میں لے کر میگا ایونٹ کی رنگینی کو گہنانے کی کوشش کی۔ بات کریں تنازعات کی تو ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل پاکستانی ٹیم کو ویزے میں تاخیر اور پھر پاکستانی شائقین اور صحافیوں کو ویزوں کی عدم فراہمی کے معاملے نے بھارت کے پاکستان مخالف اقدامات کو آئی سی سی کے سامنے ایک بار پھر آشکار کر دیا لیکن کرکٹ کی عالمی کونسل حسب معمول اس معاملے پر اپنا کردار ادا نہ کر سکی۔
ورلڈ کپ میں شریک 10 ٹیموں میں سے بھارت میں 9 ٹیموں کے سپورٹرز اپنی اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہے، جب کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث گرین شرٹس اس سپورٹ سے محروم رہی۔ بالخصوص ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے مشہور احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں ہونے والے پاک بھارت ٹاکرے میں ایک لاکھ 30 ہزار شائقین کے مجمع میں صرف میدان میں موجود 11 پاکستانی کھلاڑی ہی گرین شرٹس میں نظر آئے جب کہ باقی اسٹیڈیم نیلے رنگ کی جرسیوں کا ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناقص پرفارمنس میں ایک عنصر مخالف ٹیم کے سوا لاکھ سپورٹرز کے متعصبانہ نعرے اور رویے کا دباؤ بھی تھا کہ دو فتوحات سے ٹورنامنٹ کا آغاز کرنے والی پاکستان ٹیم بھارت سے اس میدان میں شکست کھا کر ایسی گری کہ پھر سنبھل نہ سکی اور بالآخر اسے خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔
بھارت نے ورلڈ کپ میں اپنی مہم کا آغاز اور اختتام آسٹریلیا کے ساتھ ہی کیا۔ چنئی میں اپنے افتتاحی میچ میں میزبان ٹیم نے کینگروز کو آسان ہدف بنانے کے بعد سامنے آنے والی ہر ٹیم کو تر نوالہ سمجھا۔ پھر چاہے سامنے جنوبی افریقہ آیا یا نیوزی لینڈ، پاکستان آیا یا سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان، نیدر لینڈ یا پھر دفاعی چیمپئن انگلینڈ۔ بھارت نے سب کے ساتھ یکساں برتاؤ روا رکھا اور تمام ٹیموں کو روندتے ہوئے فائنل فور میں ناقابل شکست ٹیم کے طور پر جگہ بنائی۔
آسٹریلیا نے میگا ایونٹ میں اپنی ابتدا دو شکستوں کے ساتھ کی۔ بھارت کے بعد جنوبی افریقہ سے ہارنے کے بعد 5 بار کی سابق عالمی چیمپئن ٹیم اور اس کے قائد پیٹ کمنز کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں تجزیے اور تبصرے ہونے لگے، لیکن مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی ہار نہ ماننے اور گر کر اٹھنے اور پھر فتح یاب ہونے کے ہنر سے آگاہ کینگروز سری لنکا کے خلاف فتح یاب ہو کر جیت کا جو سفر شروع کیا تو فائنل تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور فائنل میں بھارت کو شکست دے کر ابتدائی شکست کا حساب کتاب بھی چکتا کر دیا۔
ورلڈ کپ کے پورے ایونٹ میں بھارتی سر زمین پر جہاں دیگر ملکوں کے بولرز کو مخالف بیٹرز کو آؤٹ کرنے میں جہاں قدرے مشکلات پیش آئیں وہاں بلیو شرٹس کے فاسٹ بولرز ہوں یا اسپنر یا میڈیم پیسر سب کے سب ہی کامیاب رہے جس پر ہمارے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے ایک نجی ٹی وی شو میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ کر ڈالا کہ بھارتی بولرز کو میچ میں خاص گیند دی جاتی ہے اس لیے وہ کامیاب رہتے ہیں تاہم اس مفروضے کو سنجیدہ خیال کرکٹ طبقے نے اہمیت نہ دی یوں یہ بات تو آئی گئی ہوگئی۔ تاہم بھارت اور نیوزی لینڈ کے سیمی فائنل کے موقع پر برطانوی میڈیا کے اس انکشاف نے ہلچل مچا دی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارت نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے سیمی فائنل کی پچ کو تبدیل کرایا اور اپنے مفاد میں سلو پچ پر میچ کھیلا جس میں وہ کیویز کو 70 رنز سے شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی۔
دنیائے کرکٹ میں ابھی پچ تنازع کی گونج تھی کہ بھارتی کپتان کے اپنے میچوں میں ٹاس کا سکہ قدرے دور پھینکنے کا ایک اور شور اٹھا جس نے بھی معاملات کو مشکوک بنایا لیکن اس حوالے سے بی سی سی آئی اور آئی سی سی تاحال خاموش ہیں۔
تاہم ان سب میں پچ تنازع اتنی سنگین صورتحال اختیار کر گیا کہ خود انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو میدان میں آنا پڑ گیا اور اس نے کہا کہ میزبان ٹیم کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی پچ استعمال کر سکے۔ آئی سی سی کی یہ وضاحت اپنی جگہ مگر پچ تنازع کے بعد جس طرح فائنل میں بھارت کے شیر کینگروز کے آگے گھر میں ہی ڈھیر ہوگئے اس نے اس تنازع کی چنگاری کو بھڑکا دیا اور اب خود سابق بھارتی کھلاڑی، کمنٹیٹرز اور اسپورٹس صحافی اپنے مفاد کے لیے پچ کا سہارا لینے والی بھارتی ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق بھارت نے اپنے اسپنرز کے ذریعے کینگروز کو قابو کرنے کے لیے پچ خشک رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن حریف کپتان پیٹ کمنز بھارتیوں کی سوچ سے کہیں زیادہ سیانے نکلے کسی اور نے پچ تبدیلی تنازع پر کان دھرے یا نہ دھرے لیکن پیٹ کمنز نے اس کو لگتا ہے اتنی سنجیدگی سے لیا کہ فائنل میچ سے ایک روز قبل پچ معائنے کے دوران اپنے موبائل فون کے ذریعے پچ کی تصویریں لے لیں اور پھر ٹاس ہوا تو بیٹنگ کے بجائے فیلڈنگ کا دلیرانہ فیصلہ کرکے سب کو حیران اور بھارت کو خود اس کے بچھائے گئے شکنجے میں کس دیا۔
سابق بھارتی کھلاڑی اور موجودہ کمنٹیٹر آکاش چوپڑا نے تو فائنل کے نتیجے کے بعد واضح کہہ دیا کہ ہم نے کھیل کے لیے غلط پچ کا انتخاب کیا اور بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے لیے بچھائے گئے پچ کے جال میں خود پھنس گئی۔ سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ، انگلش کپتان مائیکل وان اور ناصرحسین نے بھی پچ کی تیاری پر تنقید کی اور کہا کہ بھارت کی چال خود ان پر ہی الٹ گئی۔
پچ تنازع پر ان ماہرین کی رائے کی روشنی میں اگر پورے ٹورنامنٹ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صورتحال بھارت کے میگا ایونٹ میں فائنل سے قبل تک ناقابل شکست رہنے کے اعزاز کو مشکوک بناتی ہے اور اس کی شاندار کامیابیوں کو بھی گہنا دیا ہے، کیونکہ بلیو شرٹس نے اس ورلڈ کپ میں جب بھی پہلے بیٹنگ کی وہاں رنز کے پہاڑ کھڑے کر دیے لیکن کینگروز کے سامنے بھارتی شیروں کا یوں بھیگی بلی بن جانا کسی کو آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا ہے یہی وجہ ہے اب ورلڈ کپ کے بعد اس میچ کا ہر پہلو سے پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے
کسی بھی ملک میں کھیل کا کوئی بھی ایونٹ ہو، اس ملک کے شہریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ٹیم فاتح بنے اور بھارت تو ورلڈ کپ میں نا قابل شکست چلا آ رہا تھا، جس کے باعث بلیو شرٹس کھلاڑیوں کا اعتماد اور شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھو رہی تھیں، لیکن جب نتیجہ امیدوں کے برعکس آیا تو ڈیڑھ ماہ تک ہنستے مسکراتے کھلاڑیوں کو دنیا بھر کے شائقین کرکٹ نے نم آنکھوں اور بجھے دل کے ساتھ گراؤنڈ سے باہر نکلتے دیکھا۔
کھیل کوئی بھی ہو اس میں ایک ٹیم جیتتی اور دوسری ہارتی ہے۔ کھیلوں سے محبت کرنے والے ہار کو بھی حوصلے سے برداشت کرتے ہیں لیکن بھارتی شائقین نے اس ہار کے بعد اپنی روایات کو دہراتے ہوئے جو غیرمہذبانہ طریقہ اختیار کیا وہ ان کے خود کو کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم قرار دینے کے دعوے کے برعکس ہے کیونکہ اسپورٹس سے محبت کرنے والے تعصب نہیں کرتے بلکہ اچھا کھیلنے والوں کو داد دیتے ہیں اور شکست کو حوصلے سے برداشت کرتے ہیں تاہم بھارت کی ہار کے بعد دیکھا جا رہا ہے پورا انڈیا سوگ میں ایسا ڈوبا ہے کہ کرکٹ فینز غم کی حالت میں اپنے ہوش و حواس ہی گنوا بیٹھے ہیں اسی لیے تو اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرتے اور پست ذہنیت کی انتہا کرتے ہوئے آسٹریلوی کھلاڑیوں پر گالیوں کی بوچھاڑ اور ان کی فیمیلز کے خلاف اخلاق باختہ الفاظ اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔
یہ رویہ اپناتے ہوئے بھارتی شائقین اپنی ٹیم کی بڑی فتوحات یاد کریں کہ 1983 ورلڈ کپ فائنل میں ویسٹ انڈیز، 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان، 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں سری لنکا کو ہرایا تو کیا مخالف ملکوں کے عوام نے بھارتیوں کو برا بھلا کیا تھا یا مہذب قوم کی طرح بہترین رویے کا مظاہرہ کرکے بھارت کی جیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا۔