اگر آپ کا واسطہ ایسے کسی آدمی سے پڑے جو کتابیں پڑھنے اور دنیا میں رائج تعلیمی نظاموں کے تحت ڈگریاں حاصل کرنے میں فرق کرنے سے قاصر ہو، تو سنبھل کر اس کی باتوں پر غور کریں، کیوں کہ بات کچھ اور ہو رہی ہوتی ہے، اور وہ بات کچھ اور کرتے ہیں، اور نتیجہ کچھ اور نکل رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ کتاب پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور کسی بھی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے، تو اس سے آپ گمراہ ہو جائیں گے، اور آپ کو لگے گا کہ ہاں کتابیں پڑھنا تو واقعی ایک بے کار کام ہے، اور یہ ایک سازش ہے۔
ارتقا کے سفر میں آدمی کا یہ بہت بڑا کارنامہ رہا ہے کہ عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے ہر قسم کے کچے پکے تجربات کی یادداشتیں محفوظ کیں، ان تجربات نے ہزاروں برسوں میں آدمی کی جینیاتی ذات میں عقل اور ذہانت مجتمع کی۔ اس کی واضح شکلیں تب سامنے آئیں جب اس آدمی نے ’کتاب‘ ایجاد کی۔ جو شخص آپ کو عجیب اور متضاد اور کنفیوژن پر مبنی باتوں کے درمیان اس ’کتاب‘ کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا کرتا ہے، وہ دراصل اس ’ذہانت‘ کو اپنے اندر ابھارنے سے آپ کو متنفر کرتا ہے جس پر آپ اپنے ’ہنر‘ کو آسمان کی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ آدمی کے اندر ہنر اُن آبا و اجداد کے صدیوں پر محیط ارتقائی سفر کے تجربات کی دین ہے، جو ہمیشہ نئی چیزوں کی تلاش میں رہے، نئے علوم کھوجتے رہے، اور خود آدمی کے وجود کے اندر موجود صلاحیتوں کو سمجھنے اور بروئے کار لانے کے لیے ان گنت تعداد میں پیدا ہوئے اور مر گئے۔
آدمی نے جب سے زمین پر اپنا وجود پایا ہے، تب سے یہ ’معاش‘ کی فکر، دوڑ، خوف، اور جنگ میں مبتلا رہا ہے۔ اسے زندہ رہنے کے لیے غذا چاہیے اور یہ اسے حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کی جبلت میں ہے۔ اس زمین پر اربوں آدمی یہ جاننے سے قبل مر گئے کہ جس ’غذا‘ کے لیے وہ صبح شام پریشان رہتا ہے، اس کی ’یقینی دستیابی‘ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کہ اگلے دن کی فکر نہ کرنا ممکن ہے کہ اگلے دن کھانا یقینی طور پر دستیاب ہوگا۔ آدمی نے اپنی جبلی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے، تجربات اور ان کی یادداشتوں کو کام میں لا کر اس ایک دن کو ایک مہینے اور اس سے آگے مزید طوالت بخش دی۔
جب آدمی نے لکھنا سیکھا، اور پھر رفتہ رفتہ کتاب کی بھی ایجاد کر لی، تو اس نے ہر موضوع پر اپنے تجربات رقم کرنا شروع کیے، اور یوں مختلف علوم کی واضح صورت گری ہونے لگی۔ لیکن کتاب سے پہلے بھی انسانی تاریخ میں ایسے افراد گزرے ہیں جو لوگوں کو بہتر طور پر سوچنا سکھاتے تھے، یعنی ان کے اندر ’ذہانت‘ ابھارنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ بہتر طور سے زندگی گزارنا سیکھ سکیں۔ معاش نے کبھی کسی آدمی کو بہتر طور سے زندگی گزارنا نہیں سکھایا، یہ تو اس کی جبلت ہے، اگر ذہن لوگ اسے انسان کے تاریخی تجربات سے روشناس نہ کرائیں تو یہ رزق کے حصول کے لیے جبلتاً کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے ’اخلاقیات‘ ایجاد کیں۔ اگرچہ طاقت وروں نے اسے آدمی ہی کے خلاف استعمال کیا لیکن یہ ’اخلاقیات‘ اگر درمیان میں نہ ہوں تو دو آدمیوں کا قریب رہنا رہنا جنگلی جانوروں جیسا تمدن بنا دیتا ہے۔
آدمی نے ارتقائی سفر میں اپنی ذہانت سے جہاں خوراک کی دستیابی کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک ممکن بنایا، وہاں اس نے اسی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کے اندر ’ایک انوکھا جذباتی وجود‘ بھی باقاعدہ طور پر منکشف کیا۔ یہ اس کی بے پناہ ذہانت ہی کا حصہ تھا۔ اس نے زمین پر مختلف اور بے پناہ فنون کی دنیا تخلیق کرنے میں اس آدمی کی مدد کی۔ اس طرح آدمی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچانا، اور اس صلاحیت سے اس نے بے شمار ایجادات کر ڈالیں۔ ذہانت کے اس ارتقائی سفر نے مجموعی طور پر آدمی کو جدید ترین دنیا کی تعمیر تک پہنچایا جس میں ہر موضوع، ہر خیال پر کتابوں کا ایک الگ منطقہ موجود ہے۔ ذہانت، علم اور کتاب نے بے انت اور ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کی لہروں سے بہہ کر ساحل کی طرف بہہ کر آنے والے اس زندہ دھڑکتے لیکن ہر دم فنا کے خطرے سے دوچار وجود کو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ اس نے جان لیا ہے کہ اسے خوراک کا حصول نہیں بچا سکتا، یہ بہت سارا معاش اکٹھا کر کے بھی ’بہتر طرز زندگی‘ کے لیے مختلف شعبوں کے ماہرین کا محتاج ہوتا ہے۔ کیوں کہ بہت سارا معاش بھی اس کے خوف اور اندیشوں کو کم نہیں کر پاتا۔ اسے یہی کمایا ہوا معاش کچھ ذہین لوگوں کی حاصل کردہ صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لیے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ مزید معاش جمع کرنے اور زیادہ آسانی سے زیادہ بڑی مقدار میں معاش جمع کرنے کے لیے بھی اسے ذہین دماغوں سے نکلے خیالات جاننے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اسے معلوم ہو چکا ہے کہ معاش کمانا ذہانت نہیں ہے۔
چناں چہ ہماری اس موجودہ دنیا میں ہمارے سامنے ایسے بہت سی اعلا مثالیں موجود ہیں، جن کی زندگی کے بارے میں پڑھ کر ہم غلط خیالات کو اپنے دماغوں میں جگہ دینے سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ زیادہ تر کامیاب لوگ اپنے انٹرویوز اور خود نوشتوں میں اپنی کامیابی کے بارے میں بتاتے ہوئے مطالعے کی عادت کا بھی بہ طور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ان کامیاب لوگوں نے اپنی کامرانی میں کتاب خوانی کو ہمیشہ ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا۔
ٹیسلا جیسی پُر تعیش گاڑیاں بنانے والی کمپنی اور اسپیس ایکس جیسی خلائی کھوج کی ٹیکنالوجی والی کمپنی کے مالک ایلون مسک، جو اب ٹوئٹر کے بھی مالک ہیں، جب ٹیسلا کے سی ای او بن رہے تھے تو وہ ہر روز 10 گھنٹے پڑھا کرتے تھے۔ مائیکروسافٹ کے سابق سی ای او بل گیٹس بتاتے ہیں کہ وہ ہر ہفتے ایک نئی کتاب پڑھتے ہیں، جن میں زیادہ تر کتابیں صحت عامہ، بیماری، انجینئرنگ، کاروبار اور سائنس سے متعلق یعنی نان فکشن ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی وہ ناول بھی پڑھتے ہیں اور وہ بھی راتے دیر گئے تک ایک ہی لمبی نشست میں۔
بائیوگرافی میں اسٹیو جابز نے کہا کہ انھوں نے لڑکپن ہی میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہٹ کر بھی بہت پڑھنا شروع کر دیا تھا، شیکسپیئر اور افلاطون کو پڑھا، کنگ لیئر ڈراما اور ناول موبی ڈک انھیں بہت پسند تھے، ڈیلن تھامس کی شاعری ان کی پسندیدہ تھی۔ اسی دور میں انھوں نے شن ریو سوزوکی کی کتاب ’زین مائنڈ بگنرز مائنڈ‘ اور چوگیام ترونگپا کی ’کٹنگ تھرو سپرچوئل مٹیرئیلزم‘ جیسی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔
وارن بفٹ کو بیسویں صدی کا سب سے کامیاب سرمایہ کار سمجھا جاتا ہے، ان سے کولمبیا یونیورسٹی کی سرمایہ کاری کی ایک کلاس میں لیکچر کے دوران ایک طالب نے سوال کیا کہ سرمایہ کاری میں کیریئر کے لیے کیسے تیاری کی جائے؟ بفٹ نے چند سیکنڈ کے لیے سوچا اور پھر کچھ جریدوں اور کاغذات کے پلندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس طرح کے روزانہ 500 صفحات پڑھیں۔ لیکن اگلی اہم بات جو انھوں نے کی وہ یہ تھی کہ ’’علم اسی طرح کام کرتا ہے، یہ ہر بار دوچند ہوتا ہے۔‘‘ اور اس کے بعد انھوں نے یہ تشویش ناک بات بھی کہی کہ آپ سب یہ کر سکتے ہیں، لیکن میں اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ آپ میں سے بہت سے لوگ ایسا کریں گے۔ اس کلاس میں ٹوڈ کومبس نامی ایک طالب علم بھی تھا جس نے اسے گرہ سے باندھ لیا اور روزانہ ایک ہزار تک صفحات پڑھ ڈالتا تھا، اس نے کہا جو علم اس نے حاصل کیا اس نے کامیاب ہونے میں بہت مدد کی۔ یہ وہی ٹوڈ کومبس تھا جسے 2010 میں وارن بفٹ نے اپنی کمپنی میں انویسٹمنٹ منیجر کی اہم پوسٹ پر رکھا۔
فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ بھی مطالعے کے رسیا ہیں، انھوں نے آٹھ سال قبل نیا عہد کیا تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک نئی کتاب پڑھیں گے، اور موضوعات ہوں گے مختلف ثقافتیں، عقائد، تاریخ اور ٹیکنالوجی۔ ان کا کہنا تھا کہ کتابیں آپ کو کسی موضوع کو مکمل طور پر دریافت کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کامیاب لوگ زندگی بھر سیکھتے رہتے ہیں اور اس کا بڑا ذریعہ کتاب ہوا کرتی ہے۔ امریکی ارب پتی تاجر مارک کیوبن کہتے ہیں کہ وہ روزانہ تین گھنٹے پڑھتے ہیں۔ ایک اور ارب پتی، پرائیویٹ ایکویٹی فرم کارلائل گروپ کے شریک بانی روبین اسٹائن ایک دن میں آٹھ اخبارات اور ہفتے میں 6 کتابیں پڑھتے ہیں۔ امیزون کے مالک جیف بزوس تو اتنے شوقین قاری ہیں کہ نہ صرف انھوں نے اپنی پڑھی ہوئی کتابوں سے لیے ہوئے آئیڈیاز کے ذریعے اپنے کاروبار کو کامیاب بنایا، بلکہ انھوں نے تو رہنماؤں کے لیے ایک بک کلب بھی بنایا۔
دنیا کے کامیاب ترین کاروباری افراد کی عادت تو یہاں محض معاشی سرگرمی کے حوالے سے مذکور کی گئی ہے۔ خود کتابیں لکھنے والے بھی بہت پڑھتے ہیں۔ ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کتابیں پڑھنے کی شوقین ہیں، کلاسک انگریزی کتابیں اور عصری ناول پڑھے ہیں اور مشہور ہونے سے قبل اپنے مشکل دنوں میں ان کتابوں سے روشنی حاصل کی. ہانس کرسچن اینڈرسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ میرا واحد اور سب سے پسندیدہ مشغلہ کتاب پڑھنا تھا۔ گیبرئل گارشیا مارکیز جیسا ناول نگار بھی اچھے ناول پڑھتا تھا اور اس طرح پڑھتا تھا کہ حوان رلفو کے ناول پیڈرو پرامو کے بارے میں کہا کہ یہ ناول انھوں نے اتنی بار پڑھا کہ کئی باب زبانی یاد ہو گئے۔