The news is by your side.

تھا جس کا انتظار وہ الیکشن آ گیا!

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو اعلان کردہ عام انتخابات کے حوالے سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے حکم پر شیڈول کا اعلان کر ہی دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی الیکشن ہوں گے، نہیں ہوں گے کی افواہوں کو بریک لگ گیا اور ان کے منہ میں خاک پڑ گئی جو عوام کو ووٹ کے حق سے دور رکھنا چاہتے تھے اب الیکشن صرف کسی انہونی کی وجہ سے ہی ملتوی ہو سکتے ہیں اور یہ انہوںی کیا ہے اس بارے میں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں صورتحال ’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے‘ جیسی ہے۔

انتخابات کے شیڈول کے بعد ہر سیاسی جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے مصروف عمل ہو گئی ہے دوسری معنوں میں اب سب اپنا چاند چڑھانے پر کمر بستہ ہو گئے ہیں لیکن اس سے پہلے کے امتحان اور بھی ہیں جس سے گزرنا باقی ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق تو پاکستان میں عام انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر نومبر میں ہونے تھے جو گزر چکا ہے، لیکن یہاں تو پورے سال ہی آئین کی پامالی ہوتی رہی تو اس بار بھی یہی ہوا بالآخر جب سپریم کورٹ کا واضح حکم آیا تو چار وناچار الیکشن کمیشن کو تقریباً دو ماہ قبل انتخابات کا اعلان کرنا پڑا جس کے لیے 8 فروری کی تاریخ دی گئی تاہم تاریخ دینے کے دو ماہ تک الیکشن شیڈول کا اعلان نہ ہونے اور الیکشن کے التوا کے لیے اچانک کئی درخواستیں عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں دائر ہونے کے بعد انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئی تھیں اور اطلاعات کے مطابق شرطوں کے شوقیہ افراد نے تو الیکشن ہونے اور نہ ہونے پر شرطیں بھی لگانا شروع کر دی تھیں۔

انتخابات کا التوا چاہنے والوں کی خواہش کو تقویت اور افواہوں کو عروج اس لیے بھی ملا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا انتخابات کے لیے بیورو کریسی کی خدمات لینے کا نوٹفیکیشن معطل کر دیا، جس کے بعد انتخابی عملے کی تربیت روک دی گئی۔ تاہم اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس موقع پر ایک بار پھر عدالت عظمیٰ نے فوری شنوائی کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل اور الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا جس پر الیکشن کمیشن کو بھی انتخابات کا شیڈول جاری کرنا ہی پڑا، جس کے مطابق کاغذات نامزدگی حاصل کرنے سے لے کر امیدواروں کی حتمی فہرست اور انتخابی نشان کے اجرا تک کا یہ عمل 19 دسمبر سے شروع ہو کر 13 جنوری تک جاری رہے گا۔

اس شیڈول نے جہاں انتخابات ملتوی ہونے کا خواب دیکھنے والوں کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا وہیں اگلے 5 برسوں کے لیے اقتدار کا خواب دیکھنے والے سیاسی رہنماؤں کی امیدوں کو روشن کر دیا اور انہوں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ چلو کشتی ایک کنارے تو لگی۔

الیکشن ۲۰۲۴ اور پاکستان

الیکشن شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ہمارے ملک کی (الف سے لے کر یے تک حرف تہجی سے شروع ہونے والی) تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔ نئے سیاسی اتحاد بنائے اور پرانوں سے نظریں چرائی جا رہی ہیں۔ جن سے نظریں چرائی جا رہی ہیں، ان پر الزامات کی بارش شروع ہو چکی ہے اور ماضی کے قریب کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ اب ایسے ایک دوسرے کی پول پٹیاں کھول رہے ہیں کہ جیسے ڈاکٹر کسی کے زخم کی پٹی کھولتا ہے جس سے کچھ نہ کچھ تکلیف تو ہوتی ہے۔

بات ہو رہی ہے سیاسی جماعتوں کی انتخابی تیاریوں کی تو بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے سنگھاسن پر اپنا اپنا چاند چڑھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کو تیار ہیں، لیکن سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ جس طرح زمین کے افق پر چمکتے روشن چاند کی روشنی اس کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ یہ سورج کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے سیاسی افق پر چاند کوئی بھی چمکے وہ اپنے چمکنے کی طاقت ’ایک سورج‘ سے ہی لیتا ہے اور جب بھی وہ سورج کے ’دارومدار‘ سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا گرہن لگتا ہے کہ پھر دیکھنے والوں کو وہ کہیں نظر بھی نہیں آتا اور ہم پاکستانیوں نے بارہا ایسا دیکھا ہے، اسی لیے الف سے یے تک کی تمام جماعتوں میں سے جو اپنا چاند چڑھانے کا حوصلہ رکھتی ہیں یا جو کسی جماعت کے چاند کو اپنی حمایت سے طاقت بخشتی ہیں سب کی سب اسی سورج کے گرد طواف کرتی ہیں لیکن زرا چھپ کر اور رازداری سے کہ کہیں ان کی جمہوریت کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے لیکن یہ 20 ویں نہیں بلکہ 21 ویں صدی ہے جہاں اب کچھ چھپانا ممکن نہیں جیسا کہ رواں سال کئی خفیہ آڈیو اور ویڈیو لیکس ہوئیں جس سے کئی راز افشا ہوئے۔

ویسے تو چاند چڑھانا مشکل امر ہے اس کے لیے کئی پاپڑ بیلنے اور سخت مراحل طے کرنے پڑتے ہیں لیکن پاکستان میں چونکہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر حکومت کرنا بہت آسان اور مفید بھی ہے اس لیے ہر کوئی اقتدار کے مزے لینے کے لیے یہ پاپڑ بیلنے اور اقتدار سے قبل کے سخت مراحل طے کرنے پر بخوشی رضامند ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ چند روز کی سخت مشقت انہیں 5 سالہ آسان اقتدار کے مزے لینے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

حکومت کرنا عوامی خدمت کے زمرے میں آتا ہے اور حکمران عملی طور پر عوام کے خادم ہوتے ہیں اسی لیے دیگر ممالک میں مشکل ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ سب سے آسان جاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ جو بھی اقتدار میں ہوتا ہے اسے صرف حکم صادر کرنا، غیر ملکی دورے لاؤ لشکر سمیت کرنا، اچھے کام ہوں تو اس کا کریڈٹ خود لینا اور کوئی مصیبت پڑ جائے تو اس کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر خود ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جانا اور پھر اللہ اللہ خیر صلاّ۔ زیادہ مشکل آ جائے تو سامنے سے آنے والے حکم کے آگے سر کو جُھکا دینا، اگر اتحادی حکومت ہے تو اتحادیوں کی دھمکیوں پر ان کی مراعات، وزارتیں اور فنڈز بڑھا دینا اور اگر ان سب سے فرصت مل جائے تو چھوٹا موٹا عوامی خدمت کا کام کر دینا۔ یہی کچھ تو ہم سب دیکھتے آ رہے ہیں تو پھر کون بے وقوف ہوگا جو اتنی آسان اور شاہانہ جاب جو کہ اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مفید ہو، کرنے کے خواب نہ دیکھے گا اسی لیے تو الیکشن قریب آتے ہی بیرون ملک میں بیٹھے اور وہاں کاروبار جمائے ہمارے سیاستدان پاکستان کا رُخ کرتے ہیں اور ملک وقوم کی تقدیر سنوارنے کا خواب دکھا کر ایک اور جھانسہ دیتے ہیں اور جہاں اقتدار پورا ہو یا نکال دیا جائے تو واپس اپنے حقیقی ممالک روانہ ہو جاتے ہیں۔

الیکشن ۲۰۲۴ اور پاکستان

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم ہوئے 76 برس ہو گئے ہیں لیکن اس ملک میں جمہوری عمل یعنی الیکشن قیام پاکستان کے 33 سال بعد 1970 میں ہوئے۔ اس کے بعد جمہوری اور غیر جمہوری سفر کے 53 سالوں میں کئی بار انتخابات ہو چکے ہیں سوائے 1970 کے الیکشن کے سب پر دھاندلی کے سوالات اٹھتے آ رہے ہیں۔ اب 2024 کے الیکشن سے قبل بھی لیونگ پلیئنگ فیلڈ کی گردان جاری ہے اور ہر سیاسی جماعت کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے سب کو یکساں مواقع دیے جائیں لیکن اس وقت تو سیاسی صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک جماعت کے لیے سب دروازے بند اور دوسری جماعت کے لیے دروازوں سے ’’دیدہ و دل فرش راہ‘‘ کر دیے گئے ہیں اور عوام جس کے ووٹوں سے سیاستدانوں کو اقتدار کا سنگھاسن ملنا ہے وہ تو گومگوں کیفیت کے ساتھ ’’کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں کیا‘ کی حالت میں ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں