8 فروری کو عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے 13 ویں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ انتخابی مراحل کا آغاز ہو چکا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال جاری ہے۔ اب تک نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مریم نواز سمیت چوٹی کے سیاستدانوں سمیت دیگر کو بھی الیکشن لڑنے کی کلین چٹ مل چکی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی سمیت اہم رہنماؤں کے فارم مسترد کیے جا چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے لیے سیاسی جوڑ توڑ میں بھی تیزی آ گئی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا لیکن یہاں پارلیمانی طریقۂ انتخاب یعنی عوام کو حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے لگ بھگ 23 سال کا عرصہ لگا۔ گو کہ قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریت ( بی ڈی الیکشن) کے نام پر بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کا تجربہ کیا گیا لیکن نہ تو پارلیمانی الیکشن تھے اور نہ ہی اس میں براہ راست عوام کی شرکت ہوئی جو کہ جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔
ملکی سطح پر پہلی بار عام انتخابات 1970 میں متحدہ پاکستان میں منعقد ہوئے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرائے گئے، جس کے بعد سے اب تک 12 بار عام انتخابات کا میدان سجایا گیا ہے۔ 11 بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے جب کہ ایک بار غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے۔ اسی دوران دو بار صدارتی ریفرنڈم بھی ہوئے جس کے ذریعے ایک بار جنرل ضیا الحق اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دیا۔
ملک میں عام انتخابات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو 1970 میں ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے نتائج میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ جب کہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہاں سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد عملی طور پر جمہوری حکومت کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1973 کے آئین کی تشکیل کے بعد پہلی جمہوری حکومت 1970 کے انتخابی نتائج کے تحت 1973 میں پی پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں قائم کی گئی۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مقبولیت کے زعم میں ایک سال قبل ہی 1977 میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا اور اس کا جو نتیجہ آیا اس نے اسے ملک کی اب تک کی تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن بنا دیا۔ نتائج میں پیپلز پارٹی نے پورے ملک سے لگ بھگ کلین سوئپ کیا، پی پی کے اکثر امیدوار بلا مقابلہ ہی منتخب ہوئے۔ یہ نتائج منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں وہ سیاسی طوفان اور احتجاج اٹھا کہ جو پھر بھٹو کی معزولی سے تختہ دار تک اور مارشل کے قیام پر ہی منتج ہوا۔
جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بعد ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر بھی بن گئے اور انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ملک بھر میں عام انتخابات کرائے جس کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا اور یوں سندھ کے علاقے سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے ہی ضیا الحق کو مارشل ہٹانے پر آمادہ کیا تھا۔ تاہم یہاں صدر کے ہاتھ 58 ٹو بی آئینی ترمیم کے نام سے ایک ایسا اختیار دے دیا گیا جس کی مدد سے صدر جب چاہے منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا تھا اور یہیں سے حکومتوں کو قبل از وقت برطرف کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک دہائی سے زائد وقت تک جاری رہا اور پانچ منتخب حکومتیں اس کا شکار بنیں۔
مئی 1988 میں اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے نومبر میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیا تاہم اگست میں ان کی حادثے میں موت کے بعد الیکشن تو اپنے اعلان کردہ وقت پر ہوئے مگر غیر جماعتی کے بجائے جماعتی بنیادوں پر ہوئے جن میں کسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت تو نہ ملی لیکن پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔
پی پی نے سندھ کے شہری علاقوں سے کلین سوئپ کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) جو اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے اپنا وجود رکھتی تھی، سے اتحاد کیا اور وفاق میں حکومت قائم کی۔ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم یہ اتحادی حکومت صرف 18 ماہ کی مہمان ثابت ہوئی اور 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے 58 ٹو بی کے ڈنڈے کا استعمال کرتے ہوئے بینظیر حکومت کو چلتا کیا اور اسی سال اکتوبر میں پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہوئی اور نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔
صدر غلام اسحاق خان کی نواز شریف سے بھی نہ بنی اور 2 سال بعد ہی دونوں کے درمیان اختلافات منظر عام پر آنے لگے جس کا نتیجہ نواز شریف کی برطرفی کی صورت نکلا لیکن عدالت نے نواز شریف کو عہدے پر بحال کر دیا جس کو اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نے چمک قرار دیا تاہم سیاسی بحران اس قدر بڑھا کہ پھر وزیراعظم اور صدر دونوں کو ہی گھر جانا پڑا۔
1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم ان کا دوسرا دور سندھ کے شہری بالخصوص کراچی میں فوجی آپریشن جس کا نشانہ واضح طور پر ایم کیو ایم (جس نے اس الیکشن میں قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا) اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا انکی رہائشگاہ کے باہر مبینہ پولیس مقابلے میں قتل جیسے واقعات رہے۔
گزشتہ دور حکومت میں 58 ٹو بی کے وار سے ڈسی ہوئی بینظیر بھٹو نے اس بار اپنے تئیں محفوظ قدم اٹھایا اور اپنی ہی پارٹی کے فاروق لغاری جنہیں وہ فاروق بھائی کہتی تھیں کو صدر بنایا تاکہ ان کی حکومت ماضی کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوا۔ تاہم یہ ان کی خوش فہمی رہی اور انہیں اپنے ہی بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی چارج شیٹ کے ساتھ پانچ سالہ مدت سے قبل ہی گھر بھیج دیا گیا۔
فاروق لغاری کے دور صدارت میں ہی 1996 کے انتخابات منعقد ہوئے اور نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر آئے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بار کسی سیاستدان کو انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملی تھی لیکن یہ اکثریت بھی ان کی حکومت کو قبل از وقت خاتمے کے انجام سے نہ بچا سکی۔
نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں جمہوری صورت میں مطلق العنان بننے کی کوشش کی اور خود کو ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی کوشش کی، جس کو پی پی اور دیگر جماعتوں نے ن لیگی قائد کی امیر المومنین بننے کی کوشش قرار دیا اور اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلاتے ہوئے اسے ناکام بنایا۔ اسی مدت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صدر لغاری اور اس وقت کے چیف جسٹس سے تنازعات ہوئے، سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا۔ بالآخر آرمی چیف پرویز مشرف کی برطرفی کا فیصلہ نہ صرف ان کی حکومت کا اختتام ثابت ہوا بلکہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے جیل تک کا سفر بھی کرایا جس کے ایک سال بعد انہیں 10 سال کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ اسے اس وقت ایک ڈیل یا معاہدہ کہا گیا جب کہ نواز شریف پہلے اس معاہدے سے انکار کرتے رہے لیکن بالآخر قبول کر ہی لیا کہ وہ دس سال نہیں بلکہ پانچ سال کے جبری معاہدے پر بیرون ملک گئے تھے۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کا بڑا حصہ مطمئن انداز میں گزارا کیونکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک سے باہر تھے۔ ان میں نواز شریف معاہدے کے تحت جلا وطن جب کہ بینظیر بھٹو نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ہوئی تھی۔ 2006 ملکی سیاست کے لیے خوشگوار سال ثابت ہوا کہ 90 کی دہائی کے دو بدترین سیاسی حریف نواز شریف اور بینظیر بھٹو اکٹھے ہوئے اور لندن میں میثاق جمہوریت کے نام سے تاریخی معاہدہ وجود میں آیا لیکن افسوس یہ معاہدہ کرنے والی جماعتوں نے بعد ازاں خود ہی اس معاہدے کے چیتھڑے اڑا دیے۔
پرویز مشرف نے 2002 میں پارلیمانی انتخابات اپنے پیشرو صدر جنرل ضیا الحق کے برعکس جماعتی بنیادوں پر کرائے جن میں نواز شریف، بینظیر بھٹو سمیت دونوں جماعتوں کے کئی اہم رہنما بذات خود حصہ نہیں لے پائے لیکن انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے بطن سے مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بطن سے پی پی پی پیٹریاٹ کا جنم ہوا۔ جن کے اشتراک اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے خصوصی تعاون کی بدولت نئی وفاقی حکومت تشکیل دی گئی جس کی سربراہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ جمالی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سر پر سجا کر کی گئی۔
یہ ملک کی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی لیکن اس مدت کے دوران وزارت عظمیٰ کا منصب بدلتا رہا۔ میر ظفر اللہ جمالی صرف ڈیڑھ برس تک وزیراعظم ہاؤس میں متمکن رہے جس کے بعد مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا جب کہ شوکت عزیز کو معین قریشی کی طرح بیرون ملک سے درآمد کرکے وزارت عظمیٰ کا تاج حتمی طور پر ان کے سر پر سجایا گیا جو پھر اسمبلی کے اختتام تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک اسمبلی کے برقرار رہتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کے مکین میں تبدیلی کی یہ روایت ایسی چلی کہ جو اب تک چلی آ رہی ہے اور اگلی حکومتوں میں بھی چار و ناچار یہی فارمولا آزمایا گیا۔ اس دور میں ہی بزرگ بلوچ رہنما اکبر بگٹی کا قتل اور سانحہ لال مسجد جیسے واقعات پیش آئے۔ اسی اسمبلی نے ایل ایف او پاس کر کے مشرف کے تمام اقدامات کی منظوری دی۔
جنرل مشرف کی اقتدار پر گرفت مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کرنے کے فیصلے بعد کمزور ہونا شروع ہوئی کیونکہ نہ صرف ملک بھر کے وکلا سڑکوں پر نکل آئے بلکہ سیاسی جماعتوں کے پشت پناہی نے اس تحریک کو قوت بخشی۔ اسی دوران بینظیر بھٹو جو خود ساختہ جلا وطن تھیں اپنی جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں جس کو مشرف سے ہوئی ڈیل کا نتیجہ بھی کہا جاتا ہے جب کہ نواز شریف جو مشرف حکومت سے معاہدے کے تحت قید سے نکل کر سعودی عرب گئے تھے ان کی بھی واپسی ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں سے ایل ایف او کی منظوری کی ڈیل پوری ہونے پر وردی اتار دی اور نئے الیکشن کے لیے 8 جنوری 2008 کی تاریخ دی لیکن اس سے قبل نومبر 2007 میں ایمرجنسی نے حالات کو ایک نیا موڑ دیا۔ بینظیر بھٹو کے 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل نے ملک کو ایک نئے بھونچال میں مبتلا کر دیا۔ الیکشن کو ایک ماہ آگے بڑھا کر 8 فروری کو پولنگ کرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں اکثریت حاصل کی جس کو ناقدین بینظیر بھٹو کے قتل میں پڑنے والا ہمدردی کا ووٹ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
بہرحال 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نےمرکز اور سندھ میں حکومت بنائی اور پی پی شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو بعد ازاں اسی سال اگست میں صدر مملکت بھی بن گئے انہوں نے سیاسی افق پر مفاہمت کا جھنڈا لہرایا جس کے تحت مرکز میں ن لیگ، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت بنائی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ پنجاب میں ن لیگ کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا لیکن صوبائی حکومت میں شامل رہی، سندھ میں پی پی نے اقتدار اپنے پاس ہی رکھا لیکن ایم کیو ایم کو شریک کار کیا۔
پی پی اور ن لیگ کا اشتراک صرف چند ماہ ہی قائم رہا اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے وعدے سے منحرف ہونے پر ن لیگ وفاقی حکومت سے نکل گئی تاہم پی پی نے پنجاب حکومت سے رہنے کا فیصلہ برقرار رکھا، اسی دوران پنجاب میں کچھ عرصے کے لیے گورنر راج کے قیام نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آنے پر شریف برادران یعنی نواز شریف اور شہباز شریف بدلے کی سوچ میں کالے کوٹ پہن کر عدالت جا پہنچے۔ سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو اپنی پارٹی کے سربراہ اور صدر مملکت کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر جب برطرف اور نا اہل کیا تو راجا پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔
سال 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی وفاق کے ساتھ پنجاب، بلوچستان میں حکومت قائم ہوئی جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں حسب سابق پی پی پی کی حکومت بنی۔ نواز شریف ریکارڈ تیسری بار وزیراعظم بنے لیکن انہیں اقتدار کے آغاز سے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا سامنا رہا۔ اقتدار حاصل کرنے کے چند ماہ بعد ہی نواز شریف حکومت کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان لانگ مارچ لاہور سے لے کر اسلام آباد پہنچ گئے اور 100 سے زائد دن تک دھرنا دیا۔ اسی دوران 16 دسمبر کا سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج ختم کر دیا تاہم چار حلقوں کے نتائج پر شروع ہونے والا احتجاج جاری رہا۔ اسی دوران پاناما کیس سامنے آیا اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ نے کیس شروع کیا لیکن اقامہ کیس میں انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف اور تاحیات سیاست کے لیے نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی۔ اس فیصلے کے بعد ن لیگ نے حکومت سے نکلنے کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرایا اور اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی۔
سال 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اکثریت حاصل کی اور پارٹی چیئرمین عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ ان کا دور تنازعات سے بھرا ہے اور پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی سابقہ حکومتوں کی روایات پر عمل کرتے ہوئے بالخصوص اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف الزامات کی سیاست اور مقدمات کی طویل فہرست مرتب کی گئی۔ ان کے دور حکومت میں ہی جیل میں قید نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ایسا بیانیہ بنایا گیا کہ لگا ان کی صحت اتنی خراب ہے کہ اگر فوری طور پر بیرون ملک نہ بھیجا گیا تو خدانخواستہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی انہیں فوری طور پر علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجنے کی سفارش کی اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے 50 روپے مالیت کے اسٹامپ پیپر پر انہیں عدالت عظمیٰ نے 6 ہفتوں کے لیے لندن جانے کی اجازت دی لیکن یہ عرصہ چھ ہفتوں سے طوالت اختیار کر کے لگ بھگ چار سال بن گیا اور حیرت انگیز طور پر وہ نواز شریف جن سے پاکستان میں چلنا پھرنا بھی محال ہوگیا تھا اور ایئرایمبولینس کے ذریعے انہیں لندن لے جایا گیا۔ لندن کی ہوا ایسی راس آئی کہ اس سر زمین پر اترتے ہی وہ اپنے پیروں سے چلتے ہوئے ایون فیلڈ اپنے بیٹوں کی رہائشگاہ پہنچے اور اس کے بعد جب تک وہ وہاں رہے ان کے علاج کے حوالے سے خبریں کم بلکہ ان کے یورپی ممالک سمیت دیگر مقامات پر سیر سپاٹوں اور سیاسی سرگرمیوں کی خبریں میڈیا کی زینت زیادہ بنیں۔
عمران خان کی حکومت کو کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مارچ 2022 میں ختم کیا گیا اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی۔ شہباز شریف وزیراعظم بنے جن کے دور حکومت میں ملک کو کچھ اور تو نہیں لیکن ریکارڈ مہنگائی کا تحفہ ضرور ملا۔ اس دور حکومت میں پی ٹی آئی چیئرمین نے احتجاجی تحریک جاری رکھی جس کے دوران ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔ لیکن 9 مئی 2023 کو ہونے والی ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج بالخصوص فوجی تنصیبات اور یادگار شہدا کو نقصان پہنچانے والے واقعات ایسا سیاہ دھبہ ہیں جو بانی چیئرمین کے سیاسی کیریئر پر گہرا داغ چھوڑ گئے۔ عمران خان سیاسی طور پر زیر عتاب نظر آتے ہیں اور اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں آنے والے انتخابات میں کون کس کو پچھاڑتا ہے، کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی مات، مگر موجودہ حالات تو ان کہی داستان بیان کر رہے ہیں۔