The news is by your side.

کاشف غائر چوتھے مجموعے میں کیفیات کے ایک سنگم پر!

اردو کے ایک اچھے غزل گو شاہ نواز فاروقی عظیم جرمن شاعر رلکے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ شعر و ادب کی تخلیق کو شاعر یا ادیب کا وجودی مسئلہ ہونا چاہیے، اور کاشف حسین غائر کے لیے شاعری وجودی مسئلہ ہے، شوق یا مشغلہ نہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ان ہی رلکے نے نوجوان شاعر کے مجموعے پر رائے پر مبنی خط میں یہ بھی کہا ہے کہ فن پارے پر تنقید کی حیثیت نیک نیتی پر مبنی غلط فہمی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسے شاعر کا خیال ہے شاعری خود جس کے لیے بڑی شدت کے ساتھ وجودی مسئلہ رہا تھا، اور اگرچہ کاشف کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے لیے بھی یہ اتنی ہی شدت کا مسئلہ ہے، تاہم ان کی شاعری کے بارے میں یہ کہنا کہ ’شاعری غائر کے لیے وجودی مسئلہ ہے‘ ہرگز کسی ’غلط فہمی‘ پر مبنی بیان یا رائے نہیں ہے۔ تنقیدی رائے اپنا منہج رکھتی ہے، مابعد ساختیاتی مباحث کے بعد اسے غلط فہمی کہہ کر نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں مصنف کا تذکرہ کر کے تنقید میں سوانح مصنف کی طرف رجوع کر کے متن سے باہر کسی معنوی کلیت کی تلاش کر رہا ہوں؛ مصنف کی شخصیت کی طرف اشارہ یہاں بر سبیل تذکرہ ہے۔ اردو غزل میں روایت اور جدت دو مستحکم اسکول ہیں، اس حقیقت کے ساتھ کہ جدت ہی اب وہ دائرہ ہے جس میں کچھ بالکل نئی اور زیادہ دیر تک برقرار رہ سکنے والی شاعری ممکن نظر آتی ہے؛ بہر کیف روایت کے دائرے میں بھی ایک طرح کی جدت لانے کی کسی حد تک کامیاب کوشش برسوں سے جاری ہے۔ کاشف غائر کی شعر گوئی بھی اسی دائرے میں درون ذات کے جذبوں سے جھوجھتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں یہ بات عام طور سے مذکور کی جاتی ہے کہ انھوں نے غزل میں اپنا ایک اسلوب تشکیل دینے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی ہے، جو معمولی بات نہیں ہے۔ پہلا مجموعہ آنے کے بعد غائر کے شعروں نے آگے ہی کی طرف سفر طے کیا ہے، دوسرے اور تیسرے مجموعے کے اچھے اشعار اس سفر کی گواہی دیتے ہیں۔ اب ان کا چوتھا مجموعہ ’کام آتی ہے رایگانی بھی‘ کے عنوان سے آیا ہے، جس میں گزشتہ مجموعوں سے ہٹ کر ایسا تخلیقی تجربہ ملتا ہے جو معروض کے رشتوں سے بُنا ہے، شعری تجربے کا یہ دوسرا اہم پہلو ہے کہ معروض کس سطح پر شاعر کی داخلی کیفیات اور تخلیقیت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مجموعے میں غائر جیسے روایت پسند شاعر نے نئے تخلیقی تجربے کی تلاش میں ذات کے اس دائرے سے نکلنے کی کوشش کی ہے، جس میں شعر کی تخلیق کا عمل مکمل طور پر داخلیت پر مبنی ہوتا ہے، داخلی احساس ہی سے شعر جنم لیتا ہے اور داخلی کیفیت ہی شعر کو مفاہیم عطا کرتی ہے۔ ان اشعار کی لفظیات اور کیفیات پر غور کریں:

میرے اعزاز میں اک بزم سجا کر غائر
لوگ دیتے ہیں مجھے داد اکیلے پن کی

چائے خانوں میں، مکانوں میں، بیابانوں میں
دیکھتا رہتا ہوں تنہائی کہاں اچھی ہے

یہ کیا کہ صرف ہمارے چراغ رکھے جائیں
ہوا کے سامنے سارے چراغ رکھے جائیں

ایسا منظر ہے کوئی آنکھ ہٹاتا ہی نہیں
میں نے جس سے بھی کہا ایک نظر کرنے کو

وگرنہ چھاؤں کی حرمت پہ حرف آئے گا
کہیں بھی دھوپ ہو لیکن شجر کے ساتھ نہ ہو

موت کے اس کھیل میں گر زندگی شامل نہ ہو
پھر کسی قیمت پہ اس میں آدمی شامل نہ ہو
قصہ گو نے چھیڑ دی ہے پھر کہانی دیو کی
ننھے بچوں کی دعا ہے اب پری شامل نہ ہو

چپ چاپ کھڑے دیکھ رہے ہیں یہاں خوددار
یہ شہر سخی صرف بھکاری کے لیے ہے

جنگل کے راز ان کے سوا جانتا ہے کون
سانپوں سے پوچھیے کہ خزانہ کہاں گیا

عجب نہیں کہ کسی روز یہ بھی اڑ جائے
جو کینوس پہ بنایا ہوا پرندہ ہے

بند آنکھوں سے تری سمت سفر کرتا ہوں
ورنہ بینائی کسی اور طرف لے جائے

ہم اس سفر کے لیے ایک ساتھ نکلے تھے
تمھیں تو آخری زینے پہ ہونا چاہیے تھا

ان اشعار میں بھی غائر کا اسلوب تبدیل نہیں ہوا ہے، روایت کے اندر بھی وہ مضمون اور بیان کے جس نئے پن کو چھونے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں، تخلیقی تجربے کی نوعیت تبدیل کرتے ہوئے بھی وہ اُسی کیفیت اور اُسی شعری اظہار کی خط کو قائم رکھ کر شعر کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر لفظیات اور کیفیات پر غور کریں تو یہ نکتہ کھل سکتا ہے کہ معروض سے جب شاعر اپنی کیفیت جوڑتا ہے تو اس کے احساس کا رنگ کتنا مختلف ہو جاتا ہے۔ پہلے شعر میں بزم آرائی اور اس میں لوگوں کی طرف سے داد دہی کے جس منظر سے اکیلے پن کی داخلی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے، وہ نہ صرف ذو معنویت کا حامل ہے (تنہائی کے ساتھ یکتائی کا معنیٰ بھی) بلکہ اسی سے غائر کے اسلوب کی تشکیل بھی ہوتی دکھائی دیتی ہے، کہ وہ کس طرح شعر میں معنویت پیدا کرتے ہیں۔

تنہائی غائر کا مرغوب موضوع ہے، لیکن شعر کی سطح پر آنے سے قبل یہ احساس کی سطح پر قلبِ شاعر کی وہ کیفیت محسوس ہوتی ہے، جو اس کے لیے تخلیق کا بنیادی محرک ہے۔ جس شاعری کی قرات کے دوران ’احساس اور کیفیت‘ کے عناصر اپنے وجود کا ادراک کراتے ہیں، وہ شاعری کی پوری روایت سے بھی روشناس کراتی ہے؛ شعر بیان کس طرح کیا گیا ہے، اِس سے اُسلوب اور جدت کی راہ نکلتی ہے۔

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری!

پہلے مجموعے کے اس شعر سے لے کر آنے والے مجموعوں میں تنہائی کی کیفیت کو جس طرح مختلف اطوار سے بیان کیا گیا ہے، اُس اظہار کی معروضیت کی نہ صرف داخلی احساس اور تخلیقیت کے ساتھ ہم آہنگی کی شدت کا ادراک ممکن ہے، بلکہ خود اُس شعری بیان میں معروض کے رشتوں کی پہچان بھی کی جا سکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ غزل گوئی کے اتنے وسیع اور بھرے میدان میں غائر کا اسلوب ممکن ہو سکا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مجموعے کے یہ اشعار دیکھیں:

اس شہر دل آویز میں تنہائی میرے ساتھ
اب یاد نہیں کون سی محفل سے لگی تھی
تنہائی جیسی شے کو سمجھنا محال ہے
لیکن جو تیری بزم میں بیٹھا سمجھ گیا

اور اب چوتھے مجموعے میں وہ احساس کی شدت سے مغلوب ہو کر اپنے ماحول میں نکل پڑے ہیں تاکہ ذات کی تنہائی کو معروض کی تنہائی سے کسی طور ہم آہنگ کر کے قرار حاصل کیا جا سکے۔ بیابان اور تہنائی کے رشتے کو تو آن واحد میں سمجھا جا سکتا ہے لیکن چائے خانوں اور مکانوں کے ساتھ تہنائی کے رشتے کو سمجھنے کے لیے احساس کی شدت درکار ہے، کہ کس طرح بھیڑ بھاڑ والی یہ جگہیں داخلی کیفیت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔

چائے خانوں میں، مکانوں میں، بیابانوں میں
دیکھتا رہتا ہوں تنہائی کہاں اچھی ہے

صرف یہی نہیں، تازہ مجموعے کی دو غزلوں سے دو دو اشعار کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ساختیاتی سطح پر لفظ تنہائی غائر کو کس طرح لفظ بینائی کی طرف دھکیلتی ہے، وہ بہت دل چسپ ہے۔ (مندرجہ بالا شعر سے قبل بھی بینائی کے قافیے کا شعر ہے: نیتِ چشم تماشائی کہاں اچھی ہے: یعنی سب کے لیے بینائی کہاں اچھی ہے) قافیے کے اس انتخاب پر غور کیا جائے تو یہ نکتہ روشن ہوتا ہے کہ تنہائی کا داخلی احساس جتنا گہرا ہوتا ہے، بینائی کا قافیہ اپنے ساتھ اتنی ہی شدید کیفیت لے کر آتا ہے۔

کیسے ہو میری اور تری تنہائی ایک سی
بکھراؤ ایک سا ہے، نہ یکجائی ایک سی
یہ فرق دیکھنے کا نہیں، سوچنے کا ہے
ورنہ ہے میری آپ کی بینائی ایک سی
۔۔۔

بزم آرائی کسی اور طرف لے جائے
اور یہ تنہائی کسی اور طرف لے جائے
بند آنکھوں سے تری سمت سفر کرتا ہوں
ورنہ بینائی کسی اور طرف لے جائے

جب غائر کا دوسرا شعری مجموعہ ’’کہاں جائے گی تنہائی ہماری‘‘ شائع ہوا تو شاہ نواز فاروقی نے اس پر ایک مضمون (روزنامہ جسارت: 26 اکتوبر 2018) لکھ کر کہا کہ ان کا پہلا مجموعہ ’اچھا‘ اور یہ دوسرا ’بہت اچھا‘ ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے روایت اور جدیدیت کی فکری بنیادوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انھیں الگ الگ تصور زندگی، مخصوص تناظر، تصور انسان اور تصور کائنات سے جوڑا؛ جب تخلیق کار کا شعور ان تصورات کے ادراک اور تفہیم سے تہی ہوتا ہے تو تخلیقی قوت محض ایک (امکانات سے خالی) فکری خلا میں معلق ہو جاتی ہے۔ میرے لیے چونکانے والی بات یہ ہے کہ اس مضمون میں فاروقی نے غائر کی ان فکری بنیادوں سے شعوری عدم آگاہی کا ذکر کرتے ہوئے لاشعوری سطح پر روایت کے سائے اور جدیدت کی جھلکیوں کو نوٹ کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کا خیال تھا کہ غائر اگر ’’روایت اور جدیدیت کو شعوری طور پر جذب کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے امکانات کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔‘‘ جس کے لیے مضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ شعر و ادب میں معلوم کو محسوس بنانا مذاق نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ کاشف حسین غائر نے چوتھے مجموعے میں تخلیقی سطح پر یہی کوشش کی ہے، اور احساس ہوتا ہے کہ شعر کہتے کہتے ان کے اعصاب چٹختے دکھائی دیتے ہیں۔ میری بہت محتاط رائے ہے کہ پہلے، دوسرے اور پھر تیسرے مجموعے میں جس سطح کے اشعار ہمارے سامنے آتے ہیں، اب تک کے اس آخری مجموعے میں تخلیق کی وہ سطح کہیں ’سمجھوتے‘ کی شکار ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کے شعری متون میں روایت اور جدیدیت کی فکری بنیادیں جذب ملتی ہیں، ہاں متن معروض کے ساتھ احساس کی سطح پر زیادہ سے زیادہ تخلیقی جڑت پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ شعری اُسلوب وہی ملتا ہے جو اس سے قبل کے مجموعوں میں بہ تدریج مستحکم ہوتا رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ معروض کے ساتھ تخلیقی جڑت پیدا کرنے کی ’کوشش‘ ہو، جس نے شعر کے معیار کو کسی قدر متاثر کیا ہے، تاہم اس نے اسلوب کا کچھ نہیں بگاڑا۔ غائر جس وفور کے ساتھ شعر کہتا رہا ہے، اب بھی اُسی وفور کے ساتھ شعر کہہ رہا ہے۔

شام ہوتے ہی کہاں جاتا ہوں کیا بتلاؤں
آدمی ہو کے پریشان کہاں جاتا ہے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں