The news is by your side.

پاپولر فکشن پر ایک ناگزیر گفتگو-راجہ گدھ اور ناول آنچ کا ایک ضمنی تناظر

کمرشل رائٹنگ اُسی طرح ایک معاشی سرگرمی ہے، جیسا کہ دنیا بھر میں معاش کے حصول کے ان گنت راستے بنائے جا چکے ہیں۔ جدید کاروباری اخلاقیات کے اطلاق نے ایسے شعبوں کو بھی قانونی بنا دیا ہے جو عرف عام میں سخت غیر اخلاقی سمجھے جاتے ہیں چناں چہ، جسم فروشی دنیا کی باضابطہ معیشت میں ایک بڑا حصہ شامل کرتی ہے۔ جدید سماجوں میں کسی بھی معاشی سرگرمی کو ایک معاشی سرگرمی ہی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور ہر شعبے کے اخلاقی اصول اس کے اپنے دائرے میں ترتیب دیے جاتے ہیں، باہر سے اس پر مسلط نہیں کیے جاتے۔ کمرشل رائٹنگ میں پاپولر فکشن ایک ایسا شعبہ ہے جس میں دنیا بھر میں ہر سال بلاشبہ ہزاروں ناول لکھے جاتے ہیں، اور اس سے پبلشنگ انڈسٹری کو کافی ایندھن فراہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں پبلشنگ انڈسٹری میں ادبی سرگرمی کی مایوس کن کارکردگی کے سبب پاپولر ادب کے خلاف ایک نظریاتی قسم کی مخاصمت پیدا ہوئی ہے، اگر اسے معاشی مخاصمت کے طور دیکھا جائے تو شاید معاملے کی بہتر تفہیم ہو سکتی ہے۔

مطالعے کے رجحانات تعلیمی اور تربیتی اداروں میں متعین کیے جاتے ہیں، پاپولر رائٹرز تو محض ان میں سے ایک رجحان کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں، ان کے کندھوں پر اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ چناں چہ، پاپولر فکشن کے سوال کو ہمارے سماج میں سماجی و ادبی اخلاقیات سے جوڑ دیا گیا ہے۔ پاپولر فکشن کے لیے کوئی اصول وضع کیا جا سکتا ہے تو وہ اس کے اپنے دائرے کے اندر ہی ممکن ہے۔ اگر سماج کو فکری طور پر زوال آمادہ سمجھا جا رہا ہے تو اس کی ذمہ داری پاپولر فکشن پر ڈالنا ایک قسم کے پاگل پن کی مثال ہے۔

پاپولر فکشن پر عام طور سے تنقید کے نقطہ نظر سے نہیں لکھا جاتا، کیوں کہ یہ وقت گزاری کا ایک ذریعہ ہے جس کا معاشی پہلو بہت طاقت ور ہو چکا ہے۔ مجھے اس صنف سے جڑے بنیادی ڈسکورس سے دل چسپی رہی ہے، کیوں کہ بد قسمتی سے پاکستان میں اردو ادب کے مطالعے کا رجحان اگر مسلسل بڑھتی آبادی کے تناسب میں دیکھا جائے تو نتائج مایوس کن نظر آتے ہیں۔ ریاست ابھی تک اتنی نوزائدہ اور اتنی فکری و وجودی شکستگی سے دوچار ہے کہ اس سے اپنا بنیادی سیاسی نظام بھی طے نہیں ہو پا رہا۔ معاشی اور پھر بہ تدریج تعلیمی نظام کی تشکیل اور استحکام تک آنے میں جانے کتنا وقت لگے گا، اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ غیر استحکام اور انتشار کے ایسے سمے میں پاپولر فکشن اگر معاشی سرگرمی کے چکر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے، تو اس پر ادبی مارشل لا کے نفاذ کی کوشش عبث ہے۔اور یہی پس منظر ہے کہ خالص ادبی سرگرمی کی ناگفتہ بہ صورت حال میں اس صنف کی طرف فکری رجوع قابل فہم ہے۔

اس ساری بحث کی طرف پھر سے توجہ کی وجہ بچوں کے ادب سے پاپولر فکشن کی طرف جانے والے ادیب کاوش صدیقی کی ایک کاوش ہے جسے انھوں نے “آنچ” کا عنوان دیا ہے۔ پاپولر فکشن کی کسی کتاب کو تنقید کا موضوع بنانا خود کسی پاگل پن سے کم نہیں ہو سکتا، اس لیے میں نے یہ موقع اس کے بنیادی ڈسکورس کی طرف رجوع کے طور پر لیا ہے۔ میرا پاپولر فکشن کا مطالعہ نہ صفر ہے نہ باقاعدہ، تاہم ایک نگاہ اس پر ضرور رہی ہے، جس کی مدد سے میری رائے ہے کہ اگر پاکستان میں پاپولر فکشن کی ابتدائی اور سب سے بڑی مثال لی جا سکتی ہے تو وہ ابن صفی ہیں، جن کی عمران سیریز میں پوری پڑھ چکا ہوں۔ پاپولر فکشن کا یہ ایک دور تھا جو ان کے ساتھ ہی ختم ہو چکا ہے۔ خوش قسمتی سے بچوں کے ادب میں بھی ایسا ایک دور اشتیاق احمد کے ساتھ آیا جو اَب ان کے انتقال کے ساتھ ختم ہو گیا ہے، میں اشتیاق کے بھی تقریباً سبھی ناول پڑھ چکا ہوں۔ لیکن آج جس پاپولر فکشن کی گونج ہے، وہ اپنی نوعیت میں بالکل مختلف ہے۔

ابن صفی بلاشبہ ایک بڑا رائٹر تھا، اس کے جملوں میں ادبی چاشنی ہوتی تھی، اسی طرح اشتیاق احمد نے دل چسپ محاوراتی زبان میں ناول لکھے۔ اس کے برعکس آج کے پاپولر فکشن کی زبان پوری طرح کلیشے زدہ ملتی ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے اسے مذہب اور رومانس کے ملے جلے ذائقے والے فکشن سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ ایسا لگتا ہے کہ اپنی انٹر ٹیکسچوئلٹی میں یہ بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” سے نکلا ہے۔ اگرچہ ہاشم ندیم اور احمد سسٹرز کے رائٹنگ اسٹائل میں فرق کرنا ممکن ہے، لیکن راجہ گدھ میں جو اسلوب ہے اس نے ان سب کے لیے ایک راستہ متعین کر دیا ہے۔ جتنے بھی نمایاں پاپولر لکھاری ہیں، اپنے اپنے معمولی فرق کے ساتھ اسی راستے پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔ ڈائجسٹوں کی کہانی سے لے کر موجودہ پاپولر فکشن کی مخصوص صورت گری تک لکھاریوں نے جس شے کو دریافت کیا ہے، وہ مذہب اور رومانس کا وہی آمیزہ ہے جسے بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں برتا ہے۔ اگر کسی واضح فرق کی نشان دہی ضروری ہو، تو وہ راجہ گدھ کے متن کی فنی پختگی ہے جو کسی اور ناول میں نہیں ملتی۔ چناں چہ، جس فکشن کو پاپولر کہا جا رہا ہے، اور جو اپنی کمرشل ویلیو رکھتا ہے، وہ دراصل مذہب اور رومانس کے اسی بلینڈ پر مبنی ہے۔

راجہ گدھ میں یہ آمیزہ اس شکل میں نہیں ملتا جس طرح آج کے پاپولر فکشن میں اس کی صورت گری ملتی ہے۔ راجہ گدھ کے متن میں یونیورسٹی کے طلبہ کو تعلیم، محبت، شادی اور معاش جیسے معاملات کے باہمی کشمکش میں گرفتار دکھایا گیا ہے لیکن ان معاملات کو مذہب کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ مگر اس جدوجہد کے دوران کبھی کبھی ایک بڑا المیہ رونما ہوتا ہے اور اسی المیے کو سمجھنے کے لیے اس متن میں مذہبی تصورات کا باقاعدہ اطلاق کیا گیا ہے۔ انسانی جذبات کے المیے اور مذہبی تصورات کے مابین کوئی رشتہ قائم کرنے کے لیے ادبی علامت نگاری کے طور پر مردار خور جانور گدھ سے کام لیا گیا ہے۔ “مردار خور” کو “حرام خور” کا ہم معنی ثابت کرنے کے لیے مصنف کو ایک بڑی جرات کے طور پر فطرت ہی میں نقب زنی کرنی پڑی۔ اگرچہ اس “واردات” ہٹ کر راجہ گدھ کا متن کلیشے زدہ ہونے سے بچا ہوا ہے، تاہم اس سے نکلنے والے پاپولر فکشن نے جو رخ اختیار کیا ہے، وہ نہ تو کلیشوں کی بھرمار سے بچ سکا نہ فنی پختگی کا حامل ہوا۔

کلیشے کسی رائٹر کو کس طرح متضاد صورت حال میں پھینک دیتے ہیں؛ اس کی مثال زیر نظر ناول آنچ میں دیکھیں۔ بالکل ابتدائی صفحات میں یہ جملہ مذکور ہے: “پیسے کی بھوک کو طاقت کی ضمانت سمجھنے والے اس (موت کے) خوف کے باعث ہمیشہ محکوم رہتے ہیں۔” یہاں جس پیسے کی طاقت کے حصول کو نفرت انگیز سرگرمی بنایا گیا ہے، خود کمرشل رائٹنگ پیسے کے اسی عظیم چکر میں شامل ہونے کی ایک انسانی سرگرمی ہے۔ جب اس چکر میں مذہبی جذبات کو بھی شامل کیا جاتا ہے تو مزید کلیشے زدہ متون کی تشکیل ہونے لگتی ہے۔ مذہبی تعلیم دنیا کے پیچھے پڑنے اور پیسے جمع کرنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، جب کہ پاپولیرٹی اور لائم لائٹ دنیا اور پیسے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کلیشے زدہ فکشنی ماحول میں مذہب اور رومانس کی وہ نہایت غیر مربوط اور غیر حقیقی شکل برآمد ہوتی ہے جو آج پاپولر فکشن کا مقبول چہرہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول آنچ میں صوفیوں کا جو کردار تخلیق کیا گیا ہے وہ بہت دل چسپ اور تباہ کن ہے۔ ایک صوفی جو نودولتیے کو تو نفسیاتی مریض (وہی کلیشے) سمجھتا ہے لیکن اس سے دو نمبری سے کمائی اس کی دولت کسی اور کے لیے نکلوانے کو ایک “اچھا” کام سمجھتا ہے (مقامی سطح پر کلیشے لیکن عالمی سطح پر خود ایک نفسیاتی مرض)۔ یہ صوفی بہ ظاہر تو دنیا داری سے بے نیاز ہے لیکن لوگوں کے دنیاوی معاملات میں جس پراسرار طور سے مداخلت کر کے “خدائی انداز” میں انھیں سلجھاتا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بھی پاپولیرٹی کے مواقع کی تلاش میں ہوتا ہے، اور اس شہرت کے بغیر اس کا وجود ہی بے معنی محسوس ہوتا ہے۔

اگرچہ میں نے فنی طور اس ناول آنچ سے زیادہ کم زور پاپولر ناول کوئی اور نہیں پڑھا، جس میں کسی بھی ایک کردار کو بھی نہ سنبھالا جا سکا نہ پروان چڑھایا جا سکا، تاہم یہ فیصلہ خود پاپولر فکشن کے قارئین کا ہے کہ وہ جس کتاب پر مشکل سے کمائے اپنے ہزاروں روہے خرچ کرتے ہیں، اس کے بارے میں بہ طور قاری ایک سخت تنقیدی نقطہ نظر سے رائے قائم کریں۔ یہ جدید دنیا ہی کا ایک مظہر ہے کہ پاپولر فکشن کی تنقید اس کے صَرف ہی سے وابستہ ہے، قارئین ہی خرید یا نظر انداز کر کے فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو کتنا پاپولر ہونا ہے۔ جدید سماجوں میں تعلیمی اداروں کے اندر نئی نسلوں میں اس قسم کے فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے، ناول پڑھنے کی ترغیب ہی نہیں ان میں ان پر تنقیدی رائے قائم کرنے کی اہلیت بھی ابھاری جاتی ہے۔ اگر ادب اور پاپولر فکشن کے جھگڑے کے اس تناظر کو مد نظر رکھا جائے تو مخاصمت کا احساس کم ہو سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں