The news is by your side.

عزت دوپٹے کی قیدی نہیں !

ایک سہمی ہوئی جان،کانپتا بدن جس کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا کہ نجانے اگلے لمحے کیا ہوجاۓ،ایک چھوٹے سے ریستوراں کے کونے میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے کھڑی ہے اور موبائل فون کے کیمرے یہ منظر قید کررہے ہیں . خاتون نےجو لباس زیبِ تن کیا ہوا ہے، آج وہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اُس کا کفن بن سکتا ہے۔اس پر عربی رسمُ الخط میں حروف اور لفظ حلوہ پرنٹ ہے. ہجوم کا اصرار ہے کہ خاتون نے قرآنی آیات والا پرنٹ پہن کر توہینِ مذہب کا ارتکاب کیا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے الزام عائد کرتے ہوئے مشتعل ہجوم کی جانب سے مسلسل لعنت ملامت کی جارہی ہے. جذبات کے سمندر میں‌بہہ جانے والا کوئی ایک فرد بھی یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا کہ حقیقت کیا ہے.

یہ خاتون لاہور کے علاقہ اچھرہ کے بازار میں اپنے شوہر کے ساتھ خریداری کے لیے آئی تھی جہاں یہ واقعہ پیش آیا. پولیس کی مداخلت کے باعث خاتون محفوظ رہیں .یہ بحث ابھی زوروں پر تھی کہ خاتون کی قمیص پر حلوہ لکھا تھا یا جلوہ اور اسے ہجوم سے بحفاظت نکال کر لے جانے والی پولیس افسر کی تعریف کا سلسلہ بھی جاری تھا کہ نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ایک ویڈیو سامنے آگئی جس میں‌ لیڈی پولیس افسر کاکام کے دوران کھسک جانے والا دوپٹہ اس کے سر پر جماتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔

ہمارے ہاں ”دانشوروں“ کی کمی نہیں ہے. ایسے ”دانشور“ جو دماغ سے بالکل نہیں سوچتے۔جو کسی حال میں خوش نہیں ہیں۔ دوپٹہ لیا ہے تو کیوں لیا ہے اور نہیں اوڑھا تو پھر بس قیامت آنا ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اچھرہ کے واقعے کے بعد جس طرح اے ایس پی شہربانو نقوی نے کہا کہ ہمیں خوف تھا کہ لوگ دکان کے چولھے سے وہاں‌ آگ ہی نہ لگا دیں، لیکن اچھرہ میں جنونیوں‌کا سامنا کرتے وقت محترمہ نے دوپٹہ نہیں اوڑھا ہوا تھا . وہ مشتعل ہجوم کے درمیان کھڑی ہوکر ایک ایسی عورت کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کررہی تھیں‌جس پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا تھا اور اس وقت مجھے یہ خوف ستا رہا تھاکہ کہیں مذہبی جذبات سے مغلوب یہ لوگ ان کے لیے کوئی فتویٰ جاری نہ کردیں اور یہ سوال نہ کرلیں کہ ”بی بی تمہارا دوپٹہ کہاں ہے؟“

یہ بحث تو ابھی جاری رہے گی کہ آئندہ کوئی عربی رسم الخط میں الفاظ یا عبارت والا پرنٹ خریدے یا نہیں، لیکن مریم نواز اور خاتون اہلکار کی ویڈیو وائرل ہونے پر پھر ہمارے”دانشور“ یہ کہتے نظر آرہے ہیں‌کہ مریم کا یہ انداز اچھرہ جیسے واقعات کو بڑھاوا دے سکتا ہےیاان عورتوں‌کو مشکل میں‌ڈال سکتا ہے جو دوپٹہ بالکل نہیں اوڑھتیں‌ یا کم از کم روایتی طریقے سے دوپٹہ اوڑھنے کی عادی نہیں‌ہیں. کچھ نے تو مریم بی بی کو اپنی بیٹیوں کی طرف توجہ دینے کا مشورہ دے دیا۔ لیکن کیا کسی عورت کے سَر پر دوپٹہ جما دینا اس کی عزت کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ یہی دینِ اسلام کی خوبصورتی ہے، لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہر انسان خودمختار اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب دنیا میں کلچر کے بعد آیا ہے۔مختلف معاشروں‌میں‌مذہب مختلف ہوسکتا ہےلیکن وہاں رہنے والے ایک ہی کلچر کو اپنائے ہوتےہیں۔کسی دوسرے کے مذہب کی توہین یا کسی پر اپناعقیدہ تھوپنے کی اجازت بھی یقیناً دنیا کا کوئی مذہب، ثقافت اور قانون نہیں دیتا۔

پنجاب میں پگ (دستار)کی ایک مکمل داستان ہے ۔ یہ پگ صرف سیاسی اعتبار سے تو نہیں اہمیت رکھتی اس سے جڑے کئی اور بھی پہلو ہیں جن کو پیشِ‌نظر رکھنا چاہیے، لیکن شاید ہمارے ”دانشور“ اس طرف توجہ نہیں دینا چاہتے۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ”دانشور“ دینی اقدار اور معاشرتی طور طریقوں کی بات کرنے والوں کو تنگ نظر، دقیانوس ثابت کرنے پر تلے ہیں گو کہ مولویوں یا ایک خاص طبقہ کی ہر بات درست نہیں ہوتی لیکن جب وہ ایک ضابطۂ حیات، مثالی اور متوازن نظامِ معاشرت کی بات کرتے ہیں، تب ”آزادی“ کا نعرہ بھی کچھ زیادہ زور سے لگادیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ تضاد، تصادم، معاشرے میں افراتفری اور انتشار کی صورت میں نکلتا ہے.

ضرورت بس اس بات کی ہے کہ ہماری حکومت آئی ایم ایف اور امیر ممالک سے امداد کے نام پر بھیک مانگنے کے بجاۓ پہلے اپنے لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرے، ان کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کرے اور جب ان کے دماغ پر اس کا مثبت اثرپڑے گا تو اس کےنتیجے میں‌سب کی توجہ اپنے کام پر مرکوز ہوجائے گی۔ اور یہی توجہ ہمیں اتنا آگے تو لے جاۓ گی کہ ہمیں کم از کم کسی سے بھیک مانگنے نہیں جانا پڑے گا۔ پھر یہی دماغ ہوں گے جو دوپٹہ نہ لینے والی کی بھی اتنی ہی عزّت کریں گے جتنی دوپٹہ اوڑھنے والی کی کرتے ہیں۔ پھر مذہب کے نام پر انتشار پھیلانے والے بھی سمجھ جائیں گےکہ اب یہ قوم بھی ہوش سے کام لیتی ہے جوش سے نہیں۔