The news is by your side.

وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے صرف پاکستان اور اداروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو حیران کیا . جس طرح بے نشان سیاسی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ماہر کھلاڑیوں کی طرح بغیر بلے کے ہی سنچری بنا ئی اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ادھر گومگوں کی کیفیت کا شکار حلقوں کی جانب سے حسب منشا نتائج کے لیے سر توڑ کوششوں اور کئی ہفتوں کی محنت شاقہ کے بعد مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ ایک بار پھر ’’پی ڈی ایم 2‘‘ کی صورت میں اقتدار کی کشتی میں سوار ہو گیا ہے۔

جمہوری اصولوں کے مطابق تو حکومت سازی کے لیے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا پہلا حق ہوتا ہے، لیکن اس ملک میں اس سے قبل پہلے کس کو ان کے حقوق ملے ہیں جو ہم اس جمہوری حق کی بات کریں۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جمہوریت کے نام پر ہمیشہ ایک ہائبرڈ نظام لانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے اور حسب روایت اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

پولنگ کے اگلے دن ہی جب تمام آزاد ذرائع اور پاکستانی میڈیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سب سے بڑا کامیاب امیدواروں گروپ بتا رہا تھا، ایسے میں پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ 6 جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ایک ساتھ بٹھا کر بحران کا شکار پاکستان کی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے تیسے کر کے ایک بار پھر اقتدار کی کشتی میں سوار کرا ہی دیا۔

پاکستان میں عام انتخابات جیسے بھی ہوئے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کو کیا پذیرائی ملی، دھاندلی کا کتنا شور اٹھا، غیر جانبدار حلقوں اور ممالک نے کن تشویشات کا اظہار کیا۔ فارم 45 سے 47 تک کیا بحث چلی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت میں سب سے بڑا گروپ بن کر سامنے آئے اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی چھتری کا بھی سہارا لیا مگر پی ٹی آئی سے مخصوص نشستوں پر باریک بینی سے گیم کھیل کر اسے اس حق سے نہ صرف محروم بلکہ پہلے سے دوسرے نمبر پر بھی کر دیا گیا، لیکن یہ سب باتیں پرانی اور بے سود ہو گئیں کیونکہ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں اس ادھوری سدھوری جمہوریت کے ثمرات نئی حکومتوں کے قیام کی صورت میں مکمل ہو گئے۔

وفاق میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے سر پر ایک بار پھر حکمرانی کا تاج سج گیا تو نواز شریف جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی حسرت پوری نہ کر سکے لیکن اپنی سیاسی وراثت کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہوئے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب رہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے کے پی میں جھاڑو پھیر کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سندھ میں حسب روایت پی پی کا سکہ چل رہا ہے تو بلوچستان میں پی پی کی سربراہی میں مخلوط حکومت ہے۔

عمران خان کی حکومت کے خلاف اپریل 2022 میں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم کی تھی جس نے اپنے اقدامات سے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی پی ڈی ایم پارٹ ون کی حکومت کے ذریعے ڈسے ہوئے تھے اور حالیہ الیکشن میں اس کا بدلہ بھی اپنے ووٹ سے لیا لیکن کیا کریں پاکستان کے عوام کی قسمت میں ایک بار پھر اسی بھان متی کے سیاسی کنبے کے حوالے کر دی گئی ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی قائم ہونے والی حکومت بھی ان کی پرانی حکومت کا سیکوئل یعنی ’’پی ڈی ایم پارٹ 2‘‘ ہے مگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔

شہباز شریف بخوشی یا با امر مجبوری وزارت عظمیٰ کا تاج دوبارہ سر پر سجا کر جس کانٹوں بھری کرسی پر براجمان ہوئے ہیں اس کا ان سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو احساس تھا اسی لیے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے تباہ حال پاکستان کی اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کو کوئی دل سے تیار نہیں تھا۔ یوں حکومتی ٹرین کی فرنٹ سیٹ ن لیگ کو دوبارہ دی گئی، لیکن اس کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں لانے والی پیپلز پارٹی حکومتی وزارتوں سے دور رہے گی۔ جس کو سیاسی حلقے ایک زیرک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں، کیونکہ شہباز شریف کے لیے صرف معاشی نہیں بلکہ کئی سیاسی بحران بھی سامنے موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو بھاری قرضوں کی واپسی اور ان کی واپسی سمیت ملکی امور چلانے کے لیے مزید قرضوں کا حصول جس کے لیے آئی ایم ایف کو پی ڈی ایم ون کے ذریعے پہلے ہی پاکستانی عوام پر کئی شکنجے کس چکا ہے مزید نئی اور سخت ترین شرائط کے ساتھ سامنے آئے گا جب کہ اتحادی حکومت کی وجہ سے اتحادیوں کے جائز اور ناجائز مطالبات بھی اس حکومت کے لیے ایک درد سر ہی بنے رہیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی پی کا یہ فیصلہ ن لیگ کی بحران زدہ سیاسی کشتی کو ڈبونے کے لیے اس کا سوراخ مزید بڑا کرنے کے مترادف ہی کہا جا سکتا ہے اور بہت سے حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی پی نے جس مفاہمت کا نام لے کر ن لیگ کو سہارا دیا ہے وہ دراصل ن لیگ کو گہرے گڑھے میں دھکیلنے اور اگلی ٹرم میں اپی جگہ پکی کرنے کی ایک سیاسی چال ہے۔

بہرحال شہباز شریف حکومت سنبھال چکے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری جو ممکنہ طور پر جلد ہی موجودہ صدر بھی ہو جائیں گے نے شہباز شریف کو آئنسٹائن سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ جس طرح آئن اسٹائن مشکل چیلنجز سے نہیں ڈرا اسی طرح شہباز شریف بھی نہیں ڈریں گے اور اہم ان کے پیچھے کھڑے رہیں گے۔ تاہم سیاست بھی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور کی طرح ہے کہ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل مشکل سے ہی کیا جاتا ہے، تو شہباز شریف جنہیں جہاں معاشی مسائل، بیروزگاری، بدامنی، مہنگائی جیسے بے قابو جنات کو بوتل میں بند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے وہیں انہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ اب ان کے سامنے راجا ریاض کی صورت فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے جو حکومت کی ہر جائز وناجائز بات ہر سر تسلیم خم کرے گی۔ پی ٹی آئی اراکین تو حکومت کی نیندیں اڑائیں گے ہی، لیکن کسی بھی غلط شاٹ (فیصلے) پر پی پی بھی اس کو نہیں بخشے گی۔ ساتھ ہی ماضی میں نواز شریف کے ہم قدم رہنے والے شعلہ بیان بزرگ سیاستدان محمود خان اچکزئی اور پی ڈی ایم ون حکومت کے پشتی بان مولانا فضل الرحمان کا اختلاف دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے اس لیے اب زرا سنبھل کر کہ ان کے ساتھ اب ن لیگ کی ساکھ اور سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

دوسری جانب تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو چوتھی بار وزیراعظم پاکستان کا تاج پہننے کی خواہش لیے ’’چار سالہ طویل علاج‘‘ کے بعد اس وطن عزیز میں قدم رنجہ ہوئے تھے تاہم من پسند نتائج اور سادہ اکثریت نہ ملنے کی بنا پر چار وناچار اپنی خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا تو دیا ہے لیکن اب ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا وہ بغیر حکمرانی کے اسی ملک میں مزید قیام کرنا پسند کریں گے یا پھر ’’کسی خاص وجہ‘‘ کی بنیاد پر واپس بیٹوں کے پاس ان کے دیس چلے جائیں گے یہ بھی جلد عوام کے سامنےآ جائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں