گزشتہ دنوں گھر سے دفتر جانے کے لیے نکلا تو آفس تک پہنچنا جوئے شیر لانے سےبھی مشکل ثابت ہوا، کیونکہ ایک سربراہ مملکت کا دورہ کراچی تھا، جس کے لیے آدھے سے زیادہ شہر کراچی کو بند کردیا گیا تھااور سڑکیں غیر اعلانیہ کرفیو کا منظر پیش کررہی تھیں۔
کراچی میں برادر اسلامی ملک ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کی آمد کے موقع پر کئی مرکزی شاہراہوں اور ان سے منسلک سڑکوں اور گلیوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا. یوں ہزاروں افراد اپنے کام کاج پر جانے سے محروم رہے اور دوست ملک کے سربراہ کا دورہ کراچی کے باسیوں کے لیے ایک ناخوشگوار یاد بن کر رہ گیا، لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یہ ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے۔
جب بھی کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کی آمد ہو یا ملکی سربراہ اور کسی وی آئی پی شخصیت کا دورہ ہو مذہبی جلسوس ہوں یا ہنگامی حالات، اس ملک کے کرتا دھرتا ؤں نے سب کا آسان حل پابندیوں اور راستوں کی بندش میں ڈھونڈ لیا ہے۔ جہاں کچھ ہوا ، دھڑا دھڑ کنٹینر لگائے اور راستے بند کر کے کرفیو کا سا سماں پیدا کر دیا .یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے اس اقدام سے عام لوگوں کو کیا تکلیف ہوگی۔ صرف حکومتی اور ریاستی اداروں پر ہی کیا موقوف راستوں کی بندش تو ایسا کھیل بن چکا ہے کہ اب عوام بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔ کوئی مذہبی تہوار ہو یاگھرکی تقریب، عیدالاضحیٰ پر جانوروں کو باندھنے کا انتظام کرنا ہو یا کسی مسئلہ پر احتجاج سب ہی راستے بند کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر شہر میں یہ وتیرہ اپنایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اہم مواقع پر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا کر لوگوں کو اس مہنگائی کے دور میں ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتاہے ، جس سے ان کی جیبوں پر مزید مالی بوجھ پڑتا ہے۔ چند سال قبل تک صرف موبائل فون پر پابندی لگائی جاتی تھی جس کو سیکیورٹی تھریٹ سے جوڑ کر لوگوں کو باہمی رابطوں سے محروم کر دیا جاتا تھا لیکن اب تو اس سے کئی قدم آگے جا کر انٹرنیٹ سروس بند کر دی جاتی ہے۔ اس نئی پابندی سے شہری نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک ذاتی اور کاروباری رابطوں سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ گلوبل ولیج بن جانے والی دنیا کے اس ترقی یافتہ دور میں پاکستانی دور قدیم کے لوگوں کی طرح صرف دنیا ہی نہیں بلکہ ملکی حالات سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارا مین اسٹریم میڈیا تو پہلے ہی غیر اعلانیہ پابندیوں کی زد میں ہے۔
راستوں، انٹرنیٹ، موبائل فون کی بندش کے ساتھ دوسری پابندیوں سے جہاں پاکستانی شہریوں کا ذہنی سکون برباد ہوتا ہے اور معمولات زندگی درہم برہم ہو جاتے ہیں، وہیں انہیں بعض اوقات ایسا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، جس کی زندگی بھر تلافی نہیں ہو پاتی۔ اکثر پڑھنے اور سننے میں آتا ہے کہ فلاں وی آئی پی کی سیکیورٹی کی وجہ یا راستوں کی بندش کی وجہ ایمبولینس ٹریفک میں پھنس گئیں اور مریض زندگی کی بازی ہار گئے۔ جو لوگ ہٹو بچو کی آوازوں اور سیکیورٹی پروٹوکول کے نام پر گاڑیوں کی فوج ظفر موج ساتھ لے کر چلنے کے شوقین حکمرانوں اور مقتدر شخصیات کے باعث زندگی کی بازی ہارتے ہیں وہ اپنے گھر والوں کے پیارے اور کوئی تو گھر کے واحد کمانے والے ہوتے ہیں، لیکن اس کا احساس عوام کے دکھ درد کے حقیقی احساس سے عاری ان حکمرانوں کو نہیں ہوتا۔
صرف انسانی زندگیاں ہی داؤ پر نہیں لگتیں۔ راستوں کی بے جا بندش ہزاروں لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے اور انہیں بھوکا پیٹ سونے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ جب بھی راستے بند کیے جاتے ہیں تو ان علاقوں میں دکانوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں روز کی اجرت پر کام کرنے والے ملازمین، سڑکوں پر پھیری یا ٹھیلا لگا کر اپنے گھر والوں کے لیے چٹنی روٹی کا انتظام کرنے والے غریب اس روز بیروزگار رہتے ہیں۔
راستوں کی بندش ہو یا انٹرنیٹ، موبائل فون کی بندش ہمیشہ سیکیورٹی تھریٹ کو جواز بنایا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن کا کام دہشتگردوں کو روکنا ہے وہ دہشتگردوں کو روکنے کے بجائے پُرامن شہریوں کی آمدورفت پر ہی کیوں ڈاکا مارتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ فارمولا اتنا ہی کامیاب ہوتا تو چند سال قبل 12 ربیع الاول کے موقع پر نشتر پارک اور یوم عاشورہ کے موقع پر ٹاور پر خودکش دھماکے نہ ہوتے جس میں درجنوں بے گناہ شہری جان سے گئے تھے اور ایک مذہبی جماعت سنی تحریک اپنی صف اول کی قیادت سے محروم ہو گئی تھی۔
یہ تو وہ بندشیں اور رکاوٹیں ہیں جو وقتاً فوقتاً لگائی جاتی ہیں لیکن ملک بھر میں کچھ ایسی رکاوٹیں بھی ہیں جو مستقل بنیادوں پر ہیں جو کہ ہمارے اداروں، حکمرانوں، اعلیٰ افسران ودیگر حکام کے گھروں، دفاتر کے باہر سیکیورٹی کے نام پر مستقل بنیادوں پر قائم کر دی گئی ہیں اور کئی مقامات کو تو عوام کے لیے نوگو ایریا تک قرار دے دیا جاتا ہے، جس پر سپریم کورٹ بھی خاموش نہیں رہی ہے۔ اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی راستے بند کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند نہ کریں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی، صوبائی، مقامی حکومتوں اور اداروں کو سرکاری اور نجی عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا بھی واضح حکم دے دیا ہے اور عملدرآمد نہ ہونے پر انہیں مسمار کر دیا جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ رکاوٹیں ہٹائی جاتی ہیں، انہیں مسمار کیا جاتا ہے یا اس حکم کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ماضی میں دیگر احکامات کی حکم عدولی کر کے کیا جاتا رہا ہے۔