سال 25-2024 کا بجٹ، جس کا نفاذ یکم جولائی سے ہوچکا ہے۔ غربت سے سسکتی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ماہرین معاشیات اسے بجٹ کے بجائے غریبوں کے لیے موت کا پروانہ قرار دے رہے ہیں کہ جس میں حکمرانوں نے امرا اور اشرافیہ کو مراعات دیتے ہوئے ایک بار پھر کسمپرسی میں زندگی گزارتے غریب عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اس بجٹ کے نفاذ کے 20 دن کے دوران عوام کو بیسیوں بجٹ آفٹر شاکس کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس غریب مٹاؤ بجٹ کا صلہ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب 7 ارب کے نئے قرض پروگرام پر معاہدے کی صورت میں ملا ہے۔
یوں تو ہر سال بجٹ غریبوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لاتا، لیکن یہ بجٹ تو غریب کے جسم میں بچا کھچا خون بھی نچوڑ لے گا۔ اس بجٹ میں ٹیکس در ٹیکس دیتے تنخواہ دار طبقے کو مزید دبا دیا گیا، جب کہ حکمراں اشرافیہ اور مقتدر و مالدار طبقات کو وہ چھوٹ دی گئی کہ قسمت بھی اپنی قسمت پر نازاں ہوگی کہ وہ کس کی قسمت بنی ہے، لیکن یہ طرز عمل ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ظاہر کرتا ہے۔ یہ بجٹ عوام پر کتنا بھاری ہے اس کا ادراک حکومت کو بھی ہے اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی، لیکن جہاں بے حسی غالب ہو وہاں انسانی ہمدردی مفقود ہو جاتی ہے۔
اس ملک سے متوسط طبقہ تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس کر ختم ہوچکا ہے اور صرف دو طبقے بچے ہیں جن میں ایک غریب اور دوسرا امیر اور ان دونوں طبقوں کا ایک دوسرے کی مخالف سمتوں میں سفر جاری ہے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں یہ سفر اتنی تیز رفتاری پکڑے گا کہ معاشی ماہرین کے مطابق مزید ڈیڑھ کروڑ عوام خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔
اس بجٹ میں کیا چیز مہنگی نہیں ہوئی۔ بجٹ کے نفاذ سے قبل ہی بجلی، گیس مہنگی کر دی گئی تھی لیکن جیسا کہ ہمارے وزیراعظم کہہ چکے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے، تو آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ڈومور مطالبہ دہرایا، جس پر یکم جولائی سے قبل عمل درآمد بھی کر دیا گیا اور اس کے بعد بعد بھی مختلف ناموں سے اس پر مہنگائی کی پرت در پرت چڑھائی جا رہی ہے۔ پٹرول دو بار مہنگا ہوچکا اور یہ مہنگائی کا وہ استعارہ ہے جس کے بلند ہوتے ہی سب چیزوں کی قیمتوں کی پرواز بلند ہوجاتی ہے۔
آٹا، دالیں، چاول، گوشت، سبزی مہنگے ہونے، ڈبل روٹی، شیرمال پر ٹیکس لگا کر لوگوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تو چھیننے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی شیر خوار بچوں کے ڈبہ بند دودھ سمیت عام پیکٹ پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کر کے بچوں کی خوراک پر بھی سرکاری ڈاکا مارا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ غریب سے جینے کا حق چھینتے ہوئے ادویات پر بھی 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا اور اسٹیشنری پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا جس سے غریب کے لیے تعلیم کا حصول نا ممکن ہو جائے گا اور ہم جو شرح خواندگی نے نچلے نمبروں پر ہیں مزید پستی میں چلے جائیں گے۔
بات پرانی ہوگئی، لیکن ہمیشہ کی طرح وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ پیش کرتے ہوئے غریب عوام کو ملک کی بہتری کے لیے مہنگائی کا کڑوا گھونٹ پینے کا درس دیا۔ عوام کو کئی دہائیوں سے یہ گھونٹ پی رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بیرون ملک سے پاکستان کی معیشت اور تقدیر سنبھالنے کا مشن لے کر آنے والے وزیر خزانہ امرا اور اشرافیہ پر بھی کچھ بوجھ ڈال دیتے۔ بجائے بوجھ ڈالنے کے انہیں الٹا نوازا گیا جہاں عوام کے لیے سانس لینا مشکل کر دیا گیا وہیں حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات بڑھ گئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کم از کم ماہانہ اجرت 32 سے بڑھا کر 37 ہزار کر دی، لیکن ملک کا بجٹ بنانے والے آج کی مہگائی میں 37 ہزار روپے میں چار افراد کی فیملی تو کیا، صرف تنہا غریب آدمی کا ماہانہ بجٹ بنا دیں تو بڑا احسان ہوگا۔
یہ بجٹ پیش کرنے والے وہی سیاستدان ہیں جو حکومت میں آنے سے قبل عوام کے سچے ہمدرد بننے کے دعوے دار مہنگائی مارچ کرتے تھے۔ پنجاب کی موجودہ وزیراعلیٰ اس وقت کہتی تھیں کہ جب پٹرول اور بجلی مہنگی ہوتی ہے تو اس ملک کا وزیراعظم چور ہوتا ہے تو آج ان کی بجلی اور پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں پر بھی یہی رائے ہے یا بدل چکی ہے؟ یہ ایسا بجٹ ہے کہ جس کو سوائے حکمراں اور اس سے مستفید ہونے والے ایلیٹ اور مقتدر طبقوں کے علاوہ تاجر، صنعتکار، ایکسپورٹرز، سب ہی مسترد کر چکے اور مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن غریبوں کا درد رکھنے والے حکمرانوں کی آنکھیں، کان بند اور لب سل چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کی بڑی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بجٹ اجلاس میں کھل کر تنقید کی اور اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا لیکن جب منظوری کا وقت آیا تو نہ جانے کیوں اچھے اور فرماں بردار بچوں کی طرح بجٹ کی منظوری دے دی اور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگا کر ہمیشہ اقتدار میں آنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بجٹ دستاویز کے نام پر غریب عوام کے موت کے پروانے پر دستخط کر کے مہر تصدیق ثبت کی۔
بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، لیکن بد قسمتی سے تنخواہ دار اسی طبقے پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی سب سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کر رہا ہے۔ یعنی ملازمت پیشہ افراد کی کمر پر اپنی عیاشیوں کا مزید بوجھ ڈال دیا کیونکہ حکومت، مقتدر حلقوں، پارلیمنٹرینز کے علاوہ بیورو کریٹس، جن کی تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی لاکھوں میں اور تقریباً سب کچھ مفت ہے لیکن شاید یہ سب کچھ ان کے لیے کم تھا اس لیے اراکین پارلیمنٹ کا سفری الاؤنس 10 روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر 25 روپے کر دیا۔ سالانہ فضائی ٹکٹس بھی 25 سے بڑھا کر 30 کر دیے اور یہ سہولت بھی دے دی کہ جو ٹکٹس بچ جائیں گے وہ منسوخ ہونے کے بجائے آئندہ سال قابل استعمال ہوں گے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین بنیادی تنخواہ کا %100 پارلیمنٹ ہاوس الاؤنس اور %65 فیول سبسڈی الاؤنس بڑھا دیا گیا اور کمال کی بات ہے کہ اس سے خزانے پہ کوئی بوجھ پڑا اور نہ IMF کو کوئی اعتراض ہوا۔
ملک کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ غریب کے گھر بجلی آئے یا نہ آئے، گیس سے چولہا جلے یا نہیں، نلکوں سے پانی کے بجائے صرف ہوا آئے یا پھر گندا پانی لیکن انہیں ہر چیز کا بل دینا ہے اور صرف اپنا نہیں بلکہ اشرافیہ کا بھی جنہیں بجلی، پانی، گیس کے ساتھ بیرون ملک علاج، سفر، بچوں کی تعلیم تک مفت یا اسپانسرڈ ہوتی ہے۔ ہم وزیر خزانہ کی کیا بات کریں، جو غیر ملکی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی تقدیر سنوارنے آئے، یہاں تو ایسے وزیراعظم بھی آئے کہ جب اس عہدے کے لیے نامزد ہوئے تو ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں تھا، وہ ملک کو کون سا خوشحال کر گئے جو اب ہم کوئی سنہرے خواب دیکھیں۔
آج حالت یہ ہے کہ غریب کے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں۔ کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ کنبے کے سربراہ نے بیوی بچوں سمیت زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ عوام کو جو اس اجتماعی خودکشی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟ حکمران کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم عوام کو جینے اور سانس لینے کے قابل تو چھوڑیں۔