شدید عوامی احتجاج اور فوج کے دباؤ کے بعد بنگلا دیش میں عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد کے مسلسل 16 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں مستعفی ہونے کا حکم آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے دیا جو رشتے میں ان کے بہنوئی بھی لگتے ہیں، جب کہ حسینہ واجد کے ملک چھوڑنے کے بعد صدر شہاب الدین نے طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ خالدہ ضیا سمیت تمام مخالف سیاسی رہنماؤں کو بھی رہا کر دیا گیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تین ماہ میں نئے الیکشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
43 سال قبل بنگلا دیش ہمارا ہی ایک حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، لیکن 1971 میں بھارت کی مداخلت سے سقوط ڈھاکا کے بعد جب دنیا کے نقشے پر بنگلا دیش کے نام سے ابھرا تو کئی مسائل سے نبرد آزما تھا۔ تاہم 2009 میں عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے جب دوسری بار عنان اقتدار سنبھالا تو بنگلا دیش کو معاشی ترقی کی ایسی ڈگر پر ڈالا کہ وہ خطے کے کئی ممالک سے آگے نکل گیا اور خوشحالی کا پیمانہ یہاں تک پہنچا کہ اس کے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک سے زیادہ اور کرنسی (ٹکا) کی قدر پاکستانی روپے سے کئی گنا تک بڑھ گئی۔
بنگلا دیش کو ڈیڑھ دہائی میں تیز رفتار ترقی دینے والی حسینہ واجد کے اقتدار کا ایسا انجام کہ انہیں یوں ملک سے فرار ہونا پڑا، خود انہوں نے تو کیا شاید ان کے بدترین مخالفین نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب کامیابی غرور کی شکل اختیار کر لے اور حد سے بڑھ جائے تو کچھ لوگ خود کو ہی عقل کل سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر اس زعم میں وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔
خطے میں تیزی سے معاشی ترقی کرتے بنگلا دیش کا سیاسی زوال تو حسینہ واجد کے دور اقتدار میں ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے آہستہ آہستہ شروع ہوگیا تھا لیکن جب 2009 میں وہ دوسری بار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھیں تو سارے جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے حریفوں سے بات چیت کے دروازے بند کر دیے اور بھارت نواز پالیسی اپناتے ہوئے ہندو انتہا پسند مودی کو اپنا دیرینہ دوست جب کہ پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔ اپنے ملک میں سیاسی و نظریاتی مخالفین کا جینا حرام کر دیا۔
حسینہ واجد نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی عوامی مقبولیت کے زعم میں عوام کے ہی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائی صرف مخالفین کو دبانے اور انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے پر لگا دی۔ انہوں نے ملک بھر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی۔ اس کے معمر رہنماؤں پر ظلم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے سن رسیدگی کے باوجود پھانسی کی سزا دی اور اس کو اپنا بڑا کارنامہ گردانا۔ انہوں ںے ماضی کی تلخیوں کو دوبارہ تازہ کرتے ہوئے البدر، الشمس اور پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے رضاکاروں کو پھانسیاں دی لیکن یہی رضاکار کا لفظ ان کے اس بھیانک انجام کا باعث بنا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فسطائیت کی اس انتہا پر جا پہنچیں کہ پڑوسی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے بجائے ان پر اپنے ملک کی سرحدیں ہی بند کر دیں۔
اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے رواں سال جنوری میں ہونے والے الیکشن میں ’’بنگلا دیش میں ایک پارٹی‘‘ پالیسی کی تکمیل کے لیے اپنے تمام سیاسی حریفوں جن میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا سمیت درجنوں سیاسی رہنما شامل ہیں، انہیں پابند سلاسل کیا، مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کارکنان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ایسے انوکھے انتخابات کرائے کہ اقتدار میں موجود رہ کر مسلسل چوتھی اور مجموعی طور پر پانچویں بار کامیابی کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے پر فائز ہوئیں اور بنگلا دیش کی تاریخ میں طویل مدت تک حکمرانی کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔
ایسے میں جب 30 لاکھ بنگلا دیشی نوجوان بیروزگار ہیں، تو یہ کوٹہ سسٹم ایک عفریت کی طرح عوام پر مسلط تھا جس کے تحت بنگلا حکومت کی 54 فی صد ملازمتیں مخصوص طبقات میں تقسیم کی جاتی ہیں اور صرف 46 فی صد میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں جب طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو چند طلبہ رہنماؤں کی آواز میں ملک بھر کے عوام نے آواز ملائی لیکن حسینہ واجد جو اقتدار کو شاید اپنا پیدائشی اور دائمی حق سمجھ رہی تھیں۔ انہوں نے مظاہرین کو ’’رضا کار‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جس کو بنگالی میں غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے، جس نے اس احتجاج کو ایک نیا رخ دیا اور گالی نما اس لفظ کی صورت میں بنگلہ دیشی عوام کی غیرت پر ایسا حملہ ہوا کہ لاکھوں عوام بغیر کسی سیاسی چھتری کے سڑکوں پر نکل آئی جو پہلے سول نافرمانی اور پھر حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن مثل مشہور ہے نا کہ ہاتھی کی موت کمزور سی چیونٹی کے سبب ہو جاتی ہے۔ جس طاقتور حسینہ واجد کو ان کے بڑے سیاسی حریف پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کر سکے، اسی طاقتور وزیراعظم کو بنگلا دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف یونیورسٹی سے شروع ہونے والی ایک تحریک، جس کا سرخیل تین طلبہ تھے جنہوں نے حکومتی جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور بہادری کی ایسی داستان رقم کی جس نے بنگلا دیش کی طاقتور ترین وزیراعظم کو یوں پسپائی پر مجبور کیا کہ وہ پھر 45 منٹ کے نوٹس پر نہ اپنا سارا کروفر چھوڑ کر چند سوٹ کیسوں کے ساتھ بہن کے ہمراہ بھارت فرار ہوگئیں۔ مگر عوامی لیگ کی حکومت نے آواز خلق کو نقارۂ خدا نہ سمجھا اور اپنی پسپا ہوتی طاقت کے زعم میں مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ڈھاکا سمیت ملک کے کئی شہروں کی سڑکیں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہوگئیں اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس شورش میں 400 سے زائد بنگلا دیشی شہری جان سے گئے۔ اس موقع پر جب بنگلا دیشی فوج نے بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو یہ حسینہ واجد کے لیے گرین سگنل تھا اور پھر وہی ہوا جو دنیا کی طویل تاریخ میں طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کا ہوتا ہے، جس کے حکم پر پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ جاتی تھی اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اسے آخری بار اپنی قوم سے خطاب کی اجازت بھی نہ دی گئی اور محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹر میں رخصت کیا گیا اور انہیں وقت رخصت وزیراعظم ہاؤس پر حسرت بھری نظر ڈالنا شاید زندگی بھر یاد رہے گا۔
کل تک کروفر سے دنیا کے ہر ملک گھومنے والی حسینہ واجد پر آج ہر ملک اپنا دروازہ بند کر رہا ہے۔ خود ان کا دیرینہ دوست ملک بھارت انہیں طویل مدت تک سیاسی پناہ دینے سے گریزاں ہے جب کہ برطانیہ نے بھی ان کی طویل سیاسی پناہ کی درخواست پر کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ہے جب کہ امریکا نے تو ان کا ویزا ہی منسوخ کر ڈالا ہے۔
شیخ حسینہ کی انتظامیہ پر حزب اختلاف کی آوازوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے نے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کردیا۔ ان کے دور میں انتخابات دھاندلی اور تشدد کے الزامات میں گھرے رہے۔ سرکاری ایجنسیوں نے ان کی ہدایت پر سازش کی اور اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں ڈالتی رہیں یا ان کے خلاف مقدمات کا انبار لگا دیا گیا۔ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں نے اپوزیشن رہنماؤں کو پھنسانے کے لیے کام زیادہ کیا۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات نے بھی ان کے سیاسی کیریئر کو داغ دار کیا۔ حسینہ کی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں نے ان زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی ہے، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک نے ان خلاف ورزیوں سے منسلک کچھ سیکیورٹی فورسز کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں۔ حسینہ واجد کے دور میں ان حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اکثر ہراساں کیے جانے، قانونی کارروائی یا بندش کا سامنا کرنا پڑا۔
حسینہ واجد کے جابرانہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جہاں بنگلا دیش میں عوام خوشیاں اور جشن منا رہے ہیں وہیں ملکی سیاست اور خارجہ امور میں بھارت کی مداخلت کے خلاف بھی غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور ملک میں بھارت کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی مفرور سربراہ کو بھارت کی سپورٹ سے بنگلہ دیش کی اگلی حکومت کے اپنے پڑوسی ملک سے حالات کشیدہ رہیں گے۔
حسینہ واجد جمہوریت کے لبادے میں مطلق العنانی کی واحد مثال نہیں ہیں بلکہ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن ان سب کے لیے بنگلہ دیش کی طاقتور ترین حکمران اور سیاسی رہنما کا یہ انجام ایک سبق ہے اور انہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ کی طاقت کے بعد دنیا میں سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ عوام کا سمندر اگر بے قابو ہو جائے تو زمین کے اندر گہری جڑیں رکھنے والے تناور درخت بھی اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ پھر نہ پابندیاں کام آتی ہیں اور نہ ہی حکومتی جبر، مگر طاقت اور اختیار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا جابر اور مطلق العنان حکمران حسینہ واجد کے انجام سے سبق سیکھے۔