پاکستان اور بھارت میں یوں تو متعدد جنگیں اور کئی محاذوں پر گولہ بارود کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن ایک محاذ ایسا ہے جہاں آئے روز جنگ کا ماحول نظر آتا ہے، لیکن یہاں لڑی جانے والی جنگ کسی ہتھیار سے نہیں بلکہ گیند اور بلّے سے لڑی جاتی ہے۔ تاہم بھارت ہمیشہ اس میں بھی سیاست کو گھسیٹ لاتا ہے لیکن موقع، موقع کا راگ الاپنے والے بھارتیوں کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت شاید اب آ چکا ہے۔
بھارت کے کھیلوں کے میدان میں بھی سیاست کو کھینچ لانے کی وجہ سے دونوں ممالک ڈیڑھ دہائی سے باہمی سیریز بھی نہیں کھیل رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کی سطح پر مقابلے ہوتے رہتے ہیں لیکن دیگر ٹیموں کی نسبت ایک دوسرے کے مدمقابل کم آنے اور روایتی چپقلش کے باعث کھیل کے یہ مقابلے بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیریز ہوئے ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ بیت گیا۔ بھارت 16 سال سے پاکستان نہیں آیا جب کہ اس دوران پاکستان نے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا اور گرین شرٹس ہندو انتہا پسندوں کی خطرناک دھمکیوں کے باوجود تین بار ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ 2011 اور 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے علاوہ 2014 میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے قومی ٹیم بھارت گئی تھی جب کہ دوسری جانب بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ باہمی سیریز تو کھیلنے سے مکمل انکاری ہے، مگر اب ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ایونٹ میں بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے۔
پڑوسی ملک ہونے کے باوجود بھارتی اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے گزشتہ سال پاکستان کی میزبانی میں کھیلے گئے ایشیا کپ کا بیڑہ غرق کرچکا ہے۔ بھارت کی پاکستان نہ آنے کی بے جا ضد کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ ہائبرڈ ماڈل کے تحت سری لنکا کے ساتھ مل کر کھیلا گیا۔ پاکستان کو میزبان ہونے کے باوجود صرف چار میچز کی میزبانی ملی جب کہ اے سی سی کی سربراہی بھارت کے پاس ہونے کی وجہ سے بلیو شرٹس کو اس کا ناجائز فائدہ دیتے ہوئے ان کے میچز ایک ہی گراؤنڈ میں رکھے، جب کہ دیگر ٹیموں کو ایک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر کے لیے شٹل کاک بنا دیا گیا۔
اب پاکستان کو آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، مگر انڈین کرکٹ بورڈ کے وہی انداز ہیں جو سب سے امیر بورڈ ہونے کی وجہ سے آئی سی سی کا لاڈلہ بھی کہلاتا ہے، ایک بار پھر پاکستان میں ہونے والے اس ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ایسے میں جب تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کھیل کر جا چکیں اور آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ ودیگر ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے پر رضامند ہیں ایسے میں بھارتی بورڈ نے حسب روایت اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کو حکومتی رضامندی سے مشروط کر دیا ہے، جب کہ انڈین میڈیا و صحافی بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ جانے اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیوٹرل وینیو (یو اے ای یا سری لنکا) کھیلنے کے دعوے کر رہے ہیں۔
دوسری جانب بعض سابق بھارتی کرکٹرز جن میں ہربھجن سنگھ کا نام سر فہرست رکھا جا سکتا ہے، جو ویسے تو پاکستانی کرکٹرز سے دوستیاں گانٹھنے میں عار نہیں سمجھتے لیکن جب بلیو شرٹس کے کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے کی بات آتی ہے تو انہیں پاکستان غیر محفوظ ملک لگنے لگتا ہے اور وہ اس سے متعلق زہر اگلتے رہتے ہیں حالانکہ اپنے دور کرکٹ میں وہ کئی بار پاکستان کا محفوظ دورہ اور محبتیں سمیٹ کر جا چکے ہیں۔
جب بھارت بھی مسلسل پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے اور پی سی بی کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے اور اس کے لیے عالمی اور خطے کے فورمز (آئی سی سی اور اے سی سی) کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور بلیک میل کرنے سے گریز نہیں کرتا تو ہمیں بھی اپنی یکطرفہ محبت کی چادر کو سمیٹتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے اور بھارتی جو موقع موقع کی گردان کرتے رہتے ہیں انہیں بتا دینا چاہیے کہ پاکستان کو موقع ملے تو وہ بھارت کی کرکٹ کا مزا بھی کرکرا کر سکتا ہے۔
اور ایسا موقع اب پاکستان کے ہاتھ آ چکا ہے۔ بھارت میں آئندہ برس ٹی 20 فارمیٹ میں ایشیا کپ اور ویمنز ورلڈ کپ منعقد ہونے ہیں جب کہ 2026 میں اس کو آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کی بھی میزبانی کرنا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کثیر الملکی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اگر روایتی حریف پاکستان اور بھارت یا ان میں سے کوئی ایک نہ ہو تو وہ ایونٹ نہ تو کرکٹ تنظیموں کے لیے سونے کی کان ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی شائقین کرکٹ کو لبھا سکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ یوں تو گزشتہ سال بھی ایشیا کپ کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے پر اپنی ٹیم ہندوستان نہ بھیجنے کی دھمکی دے چکا تھا لیکن بھارت کی من مانی کے باوجود پی سی بی اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دی گئی دھمکی کو قابل عمل نہ بنا سکا، لیکن یہ یکطرفہ اصول اور محبت کب تک چلے گی؟ اب یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان اپنی رِٹ منوانے کے لیے ٖفیصلہ کن اعلان کرے کہ اگر بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آئی تو پھر ہم بھی آئندہ سال ایشیا کپ، ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2026 میں مینز ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھارت نہیں جائیں۔
ویسے اطلاعات تو یہ ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھی پاکستان کی جانب سے دو بدو جواب کا خطرہ ڈرانے لگا ہے اور بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر بلیو شرٹس آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ گئے تو جوابی طور پر وہاں سے بھی بائیکاٹ ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہوں نے بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن ساتھ ہی حکومتی پخ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے لیے حکومت سے رابطے میں ہیں، اجازت نہ ملی تو آئی سی سی کو ہمارے میچز نیوٹرل وینیو پر منتقل کرنا ہوں گے۔
بھارتی بورڈ کو یہ بھی خطرہ ہے کہ چند ماہ بعد جب ایشین کرکٹ کونسل کی ذمہ داری پاکستان اور محسن نقوی کے سپرد ہوگی اس لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان ٹیم بھی ہائبرڈ ماڈل کی ضد چھیڑ دے اور یوں بھارت کا ایشیا کپ کی میزبانی خواب چکنا چور ہوجائے گا۔
پاکستان کے پاس چند ماہ بعد ایشین کرکٹ کونسل کی صدارت آنے والی ہے اور ممکنہ طور پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ہی اے سی سی کے نئے صدر ہوں گے جب کہ آئی سی سی سربراہ کی مدت بھی اسی سال ختم ہو رہی ہے جس کے لیے اب بھارت پر تول رہا ہے، لیکن اس کے لیے اسے مطلوبہ تعداد میں ممبر بورڈ کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی، تو پاکستان بارگننگ پوزیشن میں آ چکا ہے۔
اگر پاکستان کرکٹ بورڈ بھی بی سی سی آئی کی طرح پاکستانی ٹیم کی بھارت بھیجنے کو حکومت سے مشروط کر دے اور ہماری حکومت بھی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ بھارتی حکومت جیسا رویہ اپنائے تو نہ صرف آئی سی سی اور اے سی سی بلکہ بھارتی حکومت اور کرکٹ بورڈ بھی پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ایونٹ میں پاک بھارت میچز جتنا ان کے خزانے بھرتے ہیں اتنا شاید پورا ایونٹ بھی نہیں بھرتا اور پیسوں کی یہ چمک اچھے اچھوں کو سیدھا کر دیتی ہے۔