ان دنوں سوشل میڈیا پر، ملیالم زبان میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم ”آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف“ کا بہت چرچا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ وہاں اسے حادثاتی طور پر کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فلم میں یہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن اصل واقعہ پر مبنی اس کہانی کا حقیقی انجام نہیں دکھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے فلم کی کہانی کو تو ادھورا ہی کہا جائے گا، مگر پوری بات سمجھنے اور حقائق جاننے کے لیے اس فلم کا یہ مفصل تجزیہ اور تبصرہ پڑھ سکتے ہیں۔
مرکزی خیال/ کہانی/اسکرپٹ
فلم سازوں نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ کہانی مضبوط ہوگی تبھی فلم یا ویب سیریز کام یاب ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنا سینما تخلیق ہو رہا ہے، اس میں سے تقریباً پچاس فیصد کہانیوں کا ماخذ کتابیں ہیں۔ مقبول ناولوں اور سوانح عمریوں پر بہت شان دار فلمیں اور ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں۔ انڈیا میں بھی مذکورہ فلم ملیالم زبان میں لکھے گئے ناول ”آدو جیویتھم“ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، جس کے انگریزی میں لغوی معنی ”گوٹ لائف“ (بکری کی زندگی) ہیں۔
اس ناول کے خالق بن یامین ہیں، جو ملیالم زبان کے معروف ادیب ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار بلیسی نے جب یہ ناول پڑھا، تو اسی وقت اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فلم میں خلیجی ممالک کے باشندوں کی نفسیات اور غیر عرب لوگوں کے ساتھ ان کے رویّے اور ناروا سلوک کو ناول میں مصنف نے بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس باریک بینی اور تفصیل کے پیچھے ناول نگار کا ذاتی مشاہدہ بھی موجود ہے، کیونکہ انہوں نے بحرین میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کہانی میں تکلیف دہ رویوں اور امتیازی سلوک کی واضح جھلک دیکھنے کو ملی ہیں۔ مذکورہ فلم میں ایک مجبور شخص کی زندگی کو بہت مؤثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔
خلیجی ممالک میں کفیل کا نظام رائج ہے، جس کے تحت وہاں روزگار کے لیے جانے والے غیر ملکیوں کو عرب لوگوں کے زیرِ سرپرستی کام کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی کس طرح ایک کفیل کے دھوکے میں آ جاتا ہے، جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر صحرا میں قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتا ہے۔ یہ ہندوستانی اور دوسرے دو قیدی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تین میں سے دو افراد صحرا میں سخت گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اور ایک کسی مقامی عرب شخص کی مدد سے زندہ بچ جاتا ہے۔ یہی وہ مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جس کی کہانی کو فلم میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقی واقعہ پر مبنی کہانی ہے، جس کے مطابق متاثرہ فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جاتا ہے اور بعد میں اسے باعزّت طریقے سے ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ اس فلم میں کہانی وہیں ختم ہوجاتی ہے، جہاں وہ صحرا سے زندہ نکلنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ اس کہانی کے اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس اور فلم ساز بلیسی نے بڑی بد دیانتی سے کام لیا اور فلم میں پوری کہانی بیان نہیں کی، جو اس فلم کا سب سے بڑا منفی پہلو ہے۔
فلم سازی/ ہدایت کاری/ اداکاری
اس فلم کو سعودی عرب اور دبئی میں فلمانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اسے عراق اور الجزائر کے صحراؤں میں فلمایا گیا ہے۔ اس کی عکس بندی کے لیے انڈیا میں راجستھان کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن فلم ساز نے حقیقت سے قریب تر رہنے کے لیے اسے انڈیا سے باہر عکس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ فلم کے ہدایت کار 2008 سے اس کہانی پر کام کر رہے تھے۔ جیٹ میڈیا پروڈکشن کے جمی جین لوئس اور اَلٹا گلوبل میڈیا کے اسٹیون ایڈمز نے بھی بلیسی کے اس ویژول رومانس امیج میکرز کی پروڈکشن میں بطور پروڈیوسر شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھ ساتھ فلم کے مرکزی اداکار پرتھوی راج سوکومران بحیثیت پروڈیوسر بھی اس کا حصہ رہے۔
اس طرح ایک دہائی سے زیادہ عرصہ انتظار کرنے کے بعد اس فلم پر کام شروع ہوا، جب اس فلم کی شوٹنگ جاری تھی تو دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آگئی جس کی وجہ سے یہ فلم کئی ہفتوں تک عراق میں لوکیشن پر پھنسی رہی اور فلم کی ٹیم کو ہندوستانی حکومت نے خصوصی مشن کے تحت وہاں سے نکالا، اس وجہ سے بھی فلم کی پروڈکشن تاخیر کا شکار ہوئی۔ ریلیز کے بعد باکس آفس پر فلم کو بہت کامیابی ملی ہے۔ یہ ملیالم زبان میں بننے والی معاشی اعتبار سے تین کام یاب ترین فلموں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے۔
فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ ایک ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کی شرح 100 میں سے 80 فیصد ہے، جو بہت مناسب ہے۔
فلم کے ہدایت کار بلیسی ایک عمدہ اور باصلاحیت فلم ساز ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کا کام متاثر کن ہے۔ فلم کے معیار پر انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جس انداز میں اس فلم کو بنایا جانا چاہیے تھا، اسی طرح بنائی گئی ہے۔ فلم کی سینماٹوگرافی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تکنیکی شعبوں میں بے حد مہارت سے کام کیا گیا، جو ساؤتھ انڈیا کی فلموں کا خاصا بھی ہے۔ مثلاً فلم کا ایک سین جس میں مرکزی اداکار اپنا چہرہ بکری کی آنکھ میں ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ آئینہ دیکھ رہا ہو، اس منظر کو عکس بند کرنے میں کئی دن لگ گئے، مگر فلم ساز نے ہار نہیں مانی۔
فلم کی موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔ چار نغمات کے ساتھ پس منظر کی موسیقی میں انہوں نے ایک بار پھر میدان مار لیا۔ شان دار موسیقی سے سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے، اس کہانی کے درد کو موسیقار نے بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا ہے۔ ٹائٹل سونگ ”مہربان و رحمان“ نے بلاشبہ دل کو چُھو لیا۔اس کے بول پراسون جوشی نے لکھے جب کہ جتھن راج نے اسے گایا ہے۔ اسی گیت کے ملیالم ورژن کو رفیق احمد نے لکھا اور اے آر رحمان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں جتھن راج نے اس ورژن میں بھی اپنی گائیکی سے دل موہ لیے۔ فلم کے دیگر گیت بھی دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
فلم کے اداکاروں میں مرکزی کردار نبھانے والے پرتھوی راج سوکومران نے تو اس فلم کے لیے پہلے اپنا وزن بڑھایا اور پھر کم کیا، جس کی وجہ سے ان کی صحت بھی گری۔ شوٹنگ کے دنوں میں سیٹ پر ہر وقت ایک ڈاکٹر موجود رہتا تھا تاکہ ایمرجنسی میں فوری طبّی امداد دے سکے۔ پرتھوی راج نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا۔ ان کے معاون کرداروں نے بھی ناظرین کو اپنی اداکاری سے متوجہ کیا، جن میں بالخصوص امریکی اداکار جمی جین لوائس (ابراہیم قدیری) عمانی اداکار طالب البلوشی (نجیب کا کفیل) ہندوستانی اداکارہ امالا پاؤل (نجیب کی بیوی) شامل ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ کفیل کا کردار ادا کرنے والے عمانی اداکار طالب البلوشی پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات میں اگرچہ صداقت نہیں ہے، لیکن کسی بھی ملک کی حکومت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آخر کار وہ ایک فن کار ہیں، البتہ اس فلم سے متعلق کسی بھی تنازع میں اگر قصور وار کوئی ہے تو وہ فلم ساز بلیسی ہیں، جو تصویر کے دونوں رخ سے واقف تھے۔ ان کی سرزنش ہونی چاہیے جنہوں نے ادھوری کہانی پیش کی، اور عمانی اداکار کو کسی بھی طرح اور کسی بھی سطح پر قصور وار ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہو گی۔
تنازع۔ پس منظر و پیش منظر
اس فلم کو گزشتہ مہینے ہی نیٹ فلیکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اپنے حساس موضوع کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا پر بہت زیرِ بحث رہی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد سعودی عرب کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا جواب دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سعودی کفیل اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے لگے جس کا مقصد اپنے ذاتی نوکروں یا اپنے اداروں کے ملازمین کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ایسے دیگر ممالک کے عوام کا بھی اس فلم پر بھرپور ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
راقم نے اس سلسلے میں سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ”سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ“ سے وابستہ رہنے والے معروف صحافی معیز مکھری سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ 2015 کے بعد کا سعودی عرب ایک مختلف اور مثبت تبدیلیوں والا ملک ہے۔ یہاں کسی بھی غیر ملکی کے ساتھ اس طرح ناانصافی نہیں کی جاسکتی۔ مذکورہ فلم کی کہانی نوے کی دہائی کی ہے، جو تلخ ماضی ہے۔ آج سعودی عرب کی حکومت کے پاس کفالت کے نظام سمیت تمام شعبوں میں ہر چیز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ شکایات کا بھی ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، جو بہت فعال ہے۔ یہ فلم سعودی عرب کی اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔
آخری بات
دورِ حاضر میں سینما ایک اہم میڈیم ہے، جس کے ذریعے اپنی بات پوری دنیا میں پہنچائی جا سکتی ہے، البتہ پروپیگنڈہ اور حقیقی سینما کا فرق سمجھنا ہوگا، ہر چند کہ اس فلم آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف میں مکمل حقائق پیش نہیں کیے گئے یا ادھوری حقیقت دکھائی ہے، لیکن جتنی کہانی بیان کی گئی وہ سچّی ہے اور بقول معیز مکھری سعودی عرب کا تلخ ماضی ہے۔
قارئین! آپ اگر اس پہلو کو ذہن میں رکھ کر یہ فلم دیکھیں گے تو آپ دُکھی نہیں ہوں گے۔ یہ ایک اچھے موضوع پر معیاری فلم ہے، جس کی طوالت تقریباً تین گھنٹے ہے۔ اپنی اوّلین فرصت میں یہ فلم دیکھیں، آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا، کیونکہ یہ فلم بتاتی ہے کہ انسان کیسے مشکل حالات اور مصائب کا سامنا کرنے کے بعد فاتح بنتا ہے۔ اگر اس کے حوصلے بلند ہوں تو پھر اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔