اگر ہم بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات و افکار جاننے کی کوشش کریں، تو مختلف خیالات اور آرا سامنے آتی ہیں لیکن اکثر ان سے ہم کوئی حتمی نتیجہ اخذنہیں کرپاتے۔ بانیِ پاکستان کے یوم وفات پر سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس روز ہم قائد کے افکار و نظریات پر ہرزاویے سے سیر حاصل گفتگو کرنے کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھیں، تو معلوم ہوگا کہ 14 جولائی 1948 کواس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کی وجہ سے کوئٹہ سے زیارت منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ فقط 60 دن زندہ رہے اور 11 ستمبر 1948 کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مگر ان کی سیاسی فکر ، جمہوریت اور ملک میں طرزِ حکومت سے متعلق ان کے نظر یات اور خیالات کیا تھے، یہ شاید آج بھی ایک معمہ ہے۔
چونکہ ملک آبادی اکثر یت نوجوانوں پر مشتمل ہے، تو ہم خاص طور پر اسی طبقۂ عوام کومتوجہ کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل کے لیے قائداعظم اور ان کے افکار و نظریات محض 14 نکات تک محدود ہیں۔ اس موضوع کا انتخاب میرے نزدیک ہماری قوم بالخصوص نوجوانوں کو ایک بھولاہوا سبق یاد دلانے کے مترادف ہے۔ 14 نکات ہم کئی مرتبہ پڑھ چکے ہیں لیکن شایدہم آج بھی قائدِ اعظم کی اُس سیاسی بصیرت اور تدبر کا ادراک نہیں کرسکے جو ان نکات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ہم سب پر احسان ہے کہ انھوںنے ہمیں ایک آزاد ملک دیا، مگر بدقسمتی سے 76 سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک اس ملک میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکی. پاکستان آج بھی کسی نہ کسی شکل میںآمریت اور جاگیردارانہ نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم آج بھی ان بے حِس اور جابر حکمرانوں کے تابع ہیں جنہیں اس ملک اور عوام سے کوئی غرض نہیں، حالانکہ وطن عزیز کو حاصل کرنے کےلیے اشرافیہ نے نہیں، عوام نے ہی اپنی جانوں کی قربانی دی تھی۔
صرف نوجوان نسل ہی نہیں، بلکہ بحیثیت قوم ہم سب قائداعظمؒ کے نظریات اور تصورات سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ قائداعظمؒ کے نظریات، تصورات، خواہشات، اصول اور مملکتِ خداداد کےلیے ان کے وژن کو ہر دور میں حکومتوں نے نظر انداز کیا ہے۔ اس ملک میںصرف حکمرانوں اور طبقۂ اشرافیہ نے خوب ترقی کی اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا مگر عوام کو ہوائی اسکیموں پر ٹرخا دیاجاتا ہے، بنیادی سہولتیں تک فراہم نہیں کی جاتیں۔ وجہ وہی ہے کہ ہم قائداعظمؒ کےنظریات اور تصورات کو فراموش کرچکے ہیں۔
آج کا پاکستانی قائداعظم اور ان کی فکر سے واقف ہو یا نہ ہو، مگر 25 دسمبر کو چھٹی کے دن کے طور پر ضرور مناتا ہے۔ اس ملک کا نوجوان اپنی سوچ، تعلیم اور صلاحیت کے استعمال سے تبدیلی کا خواہشمند نہیں بلکہ بددیانتی، شارٹ کٹ اور چور دروازےسے ترقی ضرورچاہتا ہے۔ اپنی تعلیم اور کیریئر کی فکر نہ کرنے والا یہ نوجوان وقت ضائع کرنے کا عادی ہوچکا ہے. سوشل میڈیا میں گم یا عشق لڑاتے ہوئے یہ نوجوان اپنے آپ کو بربادی کی راہ پر ڈال دیتا ہے، زندگی میں کبھی کچھ بن نہیں پاتا۔ پھر کہتے ہیںکہ یہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے خوابوں کی تعبیر ہے؟
آج بھی ہم اس الجھن کا شکار اور سوچ میں گُم ہیں کہ قائداعظمؒ کے نظریات اور تصورات درحقیقت تھے کیا؟ جن نظریات پر اتفاق ہے ان پر بھی تجزیہ اور رائے تو دی جاتی ہے مگر افسوس کہ عمل درآمد ان پر بھی نہیں کیا جاتا۔ افسوس کہ ہم نے نہ صرف قائداعظمؒ کو بھلا دیا بلکہ ان کے فرمودات کو بھی پس پشت ڈال دیا۔
میں اپنے نوجوانوں سے بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد طے کیجیے، پھر ساری توجہ اس مقصد کو حاصل کرنے پر مرکوز کردیجیے۔ کام ایسا کرو کہ ٹی وی پر دیکھے جاؤ، سی سی ٹی وی (CCTV) پر تو چور بھی نظر آجاتا ہے۔