The news is by your side.

داخلے کے امتحانات متنازع کیوں ہوجاتے ہیں!

دنیا بھر میں تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے امتحانات لئے جاتے ہیں اور عموماً یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب یہ ادارے قائم ہوتے ہیں۔ اس طرح داخلے کے یہ امتحانات ان اداروں کی روایت میں شامل ہوجاتے ہیں جس پر یہ ادارے فخر بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں پہلے انجینئرنگ اور میڈیکل کالجز میں داخلے انٹر یا بارہویں کے نتیجے کی بنا پر ہوجاتے تھے، پھر کرپشن، نقل اور ہر طرح کی دھوکہ دہی کا وہ سلسلہ چل نکلا جس نے ہمارے تعلیمی نظام کو بھی برباد کردیا۔

طاقتور لوگ اپنے بچوں کو بارہویں کے امتحانات میں نقل کرواکے یا امتحانی پرچہ آؤٹ کرواکے بچوں کو اچھے نمبر “دلوا کر” ان کے داخلوں کو یقینی بنا لیتے تھے. ہم نےا س مسئلہ کی جڑ تلاش کرنے اور اسے ختم کرنےکے بجائے حل یہ نکالا کہ ایک اور امتحان درمیان میں ڈال دیا اور “طاقتوروں” نے بھی اس کا وہی حل نکالا کہ جو وہ بارہویں کے امتحانات میں کرتے تھے یعنی نقل اور پرچے آؤٹ کروانا۔ اس طرح سے اس امتحان میں بھی نقل کو فروغ ملا اور یوں ہم وہی پہنچ گئے کہ جہاں سے چلے تھے.

سندھ کے میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کا امتحان ایم ڈی کیٹ سندھ ہائی کورٹ کے حکم سے معطل کر دیا گیا ہے اور یونیورسٹی کو حکم دیا گیا ہے کہ چار ہفتے میں دوبارہ امتحان لینے کا اہتمام کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کو یہ حکم دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وجہ سب کو پتہ ہے کہ پرچہ آؤٹ ہوگیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پرچہ کیسے باہر آیا اس کی تحقیقات ہوتیں اور اس کا ارتکاب کرنے والے کوسزا دی جاتی لیکن اس کا ہمارے ملک میں رواج نہیں ہے۔

پرچہ باہر آنے کے بعد حسب روایت ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی اور باقی بات سب کو پتہ ہے۔ اس ملک میں آج تک کسی بھی اہم اور سنگین نوعیت کے واقعے کے ذمہ داروں کو سامنے لانے کے لیے جو کمیٹیاں بنی ہیں ان کی رپورٹ کبھی عوام کو نہیں ملی کیونکہ اس میں اکثر پردہ نشینوں کے نام یا ان کی جانب اشارہ ہوتا ہے اور طاقتور کبھی یہ نہیں ہونے دیتا۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے کالجوں اور جامعات میں داخلوں کی ایک شفاف پالیسی تک مرتب نہیں کر سکے۔ کیا کوئی ان دوسرے بچوں اور ان کے والدین کے کرب کا اندازہ کر سکتا ہے یا یہ ہمارا قومی وتیرہ بن چکا ہے کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے ،میرا کوئی اپنا تو اس سے متاثر نہیں ہورہا۔ خدارا اس خود غرضانہ سوچ سے باہر آئیں. یہ سب ہمارے بچے ہیں اور ہماری قوم کا مستقبل ہیں. ہم سب کو ان کی فکر کرنی چاہیے اور ان کیلئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ اب بھی ہمارے ڈاکٹر سب سے زیادہ امریکہ یا برطانیہ جاتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر کہیں وہ ہمارے ڈاکٹروں کو لینا ہی نہ بند کردیں جیسےاس قسم کی دوسری حرکتوں کی وجہ سے ہمیں‌کئی ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے دوسری بندشوں اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ یہ سب ہمارے اپنے کرتوت کی وجہ سے ہوا ہے اور کہیں یہی انجام ہمارے ڈاکٹروں کا نہ ہو۔ وہ ہماری اسناد تو اب بھی آسانی سے قبول نہیں کرتے اور امتحان لینے کے بعد ہی ہمارے ڈاکٹروں کی ملازمت کا فیصلہ کرتے ہیں مگر یہ راستہ بھی کہیں‌بند نہ ہوجائے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کے تعلیمی نظام میں سے میرٹ یا شفافیت کو ختم کردو باقی سب کچھ ویسے ہی ختم ہوجائے گا۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ کام بدعنوان سرکاری افسروں کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ وہ تمام عناصر جو یا تو نقل کرواتے ہیں یا پرچے آؤٹ کرتے ہیں عموماً ان کے پیچھے سرکاری افسر اور اس ادارے کا عملہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو نقل کے دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار وں کی موجودگی میں اساتذہ و امتحانی عملہ کسی قسم کی رکاوٹ کے بغیر یہ سب کروا رہا ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں کا یا ان کے والدین کا تعلق ہمارے پڑوسی ملک سے ہے کیونکہ انھوں نے پچاس کی دہائی میں اپنے ہاں ایسے اداروں کی داغ بیل ڈالی تھی کہ جہاں سے آج وہ ان عالمی اداروں کے کلیدی عہدوں تک پہنچ گئے ہیں اور ہم نے اس وقت نفرت کی بنیاد رکھی تھی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آج سب ہم سب سے نفرت کرتے ہیں یا ہم ان کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں اور کیوں نہ ہوں جب خلیجی ممالک میں پکڑے جانے بھکاریوں کی اکثریت پاکستانی ہوگی تو آپ دنیا سے اور کیا امید رکھ سکتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے، ہوش کے ناخن لیجیے اور تعلیمی نظام کو اس اقربا پروری اور نقل مافیا سے بچائیں ورنہ دنیا والوں کیلئے لفظ پاکستانی ایک گالی بن جائے گا اور اب ہم اس سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ ہماری قوم کی نفسیات پر ایک کہانی جو ہم سب نے اپنی درسی کتابوں میں پڑھی ہے اور اسی پر اختتام کرتا ہوں۔ ایک آدمی درخت کی جس شاخ پر بیٹھا تھا وہ اسی کو کاٹ رہا تھا۔ ایک شخص جو وہاں سے گزر رہا تھا اس نے یہ دیکھا تو کہا کہ مت کرو تم گر جاؤ گے۔ جو شخص درخت پر بیٹھا تھا اور شاخ کاٹ رہا تھا اس نے کہا کہ جاؤ بھائی اپنا کام کرو، تھوڑی دیر میں شاخ کٹ گئی اور وہ آدمی نیچے گر گیا۔ اب وہ دوڑا دوڑا اس دوسرے شخص کے پاس آیا اور کہا کہ بھئی آپ تو بہت عقلمند ہیں ، مجھے میرا مستقبل بتائیں تو اس شخص نے کہا کہ بھائی میں ایک عام سا آدمی ہوں، سچ یہ ہے کہ تم جس شاخ پر بیٹھے تھے اسی کو کاٹ رہے تھے تو تمہارا انجام تو یہی ہونا تھا. یہ تو سامنے کی بات ہے. بس آنکھیں کھلی ہونی چاہییں۔ ہم یہ شاخ پچھلے75 سالوں سے کاٹ رہے ہیں اور اب تو ہم نے آنکھیں بھی بند کر لی ہیں۔

+ posts

سہیل یعقوب کا درس و تدریس سے پرانا تعلق ہے اور معروف جامعات میں‌بطور وزٹنگ فیکلٹی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ مختلف اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں‌جب کہ برٹش کونسل میں تربیتی ورکشاپس کرنے کے ساتھ ملکی اور سماجی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔