اہلِ دانش کا خیال ہے کہ ’’ عدم برداشت ایک انتشار کی کیفیت ہے جس میں کوئی انسان اپنے گھر، کام کی جگہ پر اور معاشرتی میل جول کے دوران کسی دوسرے کے عمل، اس کسی خیال کے ساتھ اردگرد پیش آنے والے ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہے اور اختلافِ رائے کو کسی بھی سطح پر برداشت نہ کرتا ہو.‘‘اس کے نتیجے میں پہلے ایک گھر اور خاندان تکلیف میں مبتلا ہوتا اور پھر یہ عدم برداشت سماج کے مختلف طبقات کو متاثر کرنے لگتی ہے.
اس بات کو اگر ہم سادہ لفظوں میںکہیںتوعدم برداشت سے مُراد ایک منفی رویّہ ہے، جو کسی دوسرے کی سوچ یا رویّے سے متفق نہ ہونے، اختلاف کو قبول نہ کرتے ہوئے نامناسب ردّعمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور بگاڑ اور تنازع کی وجہ بن جاتا ہے۔ یہ دو افراد کے درمیان ایک مسئلہ نہیںرہتا بلکہ پھیل کر معاشرتی ہم آہنگی کو متاثرکرتا ہے.
اگرچہ تاریِخ انسانی کے آغازسے ہی عدم برداشت کا آغاز ہوگیا تھا ،جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تھا،اور یقینامعاشرے سے عدم برداشت کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں مگر اس کے متوازی انفرادی اور اجتماعی سطحپرتحمل و بردباری، احترام اور رواداری کو فروغ دیتے ہوئےعدم برداشت کے بدترین اثرات سے نجات پانا ممکن ہے ۔
اِخلاص و محبّت، تحمّل وبرداشت جیسے اوصاف کا حامل کوئی بھی شخص اپنے کنبے اور اپنے سماج میں مقبول اور پسندیدہ ہوتا ہے بلکہ اس کی خوبیاں اور صفات دوسروں کے لیےمثال بن جاتی ہیں،لیکن ایسا نہ ہو تو تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے بلکہ معاشرہ افراتفری اور سنگین نوعیت کے مسائل کا شکار ہو جاتاہے۔اہل علم و دانش کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں درحقیقت اخوّت، رواداری اور پیار و محبّت سے متعلق دنیوی اور دینی پیام و تعلیمات کبھی اس طرح سرایت ہی نہیں کرسکے کہ ہمیں معاشرے میں اس کے اثرات بھی نظر آئیں. بلکہ ہمارے ہاں ہر گزرتے وقت کے ساتھ عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے مختلف عوامل بھی ہیں اور ہمارے حالات نے بھی ہمارے رویّوں پر مختلف منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مگر بنیادی سوال ہر فرد سے یہ ہے کہ ہم انسانی وصف کو اور اس خوبی کو کیسے فراموش کرسکتے ہیںجو ہمارے بزرگوں سے ہم تک پہنچی ہیں اوربالخصوص جب دین کی تعلیمات بھی یہی ہیں. اس کا ایک سیدھا مطلب یہی ہے کہ ہم نے خود کو ان تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیںکی ہے.
آج لوگوں کے لیے چھوٹی چھوٹی باتیں برداشت کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ گھروں کی بات کریںتو خون کے رشتوں میں دراڑیں دکھائی دیتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ عدم برداشت ہی ہے۔ بچّے، والدین سے نالاں ہیں اور ان کی کوئی بات برداشت نہیں کرتے۔ بھائی، بہن اور پھر میاں بیوی کا رشتہ بھی عدم برداشت کی نذر ہورہا ہے۔طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی عدم برداشت کا رویّہ ہے۔ہم اپنے پیاروں اور رشتوں کو کھو رہے ہیں لیکن اپنے اندر تبدیلی لانے کو تیار نہیں ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ عدم برداشت کا یہ بڑھتا ہو ارجحان، ایک نفسیاتی مسئلے سے زیادہ معاشرتی اقدار و روایات کی تبدیلی کے سبب ہے۔ ماضی میں لوگوں کا ایک دوسرے سے میل جول اخلاص اور سادگی پر مبنی تھا جب کہ اب یہ روایت سرے سے ناپید ہو چُکی ہے۔ مسائل بڑھ رہےہیں جب کہ وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ زندگی گزارنا مشکل ہورہا ہےاور حکومتی سطح پر یاہمارا سوشل سسٹم لوگوں کو سنبھال ہی نہیں پارہا۔ پہلے خاندانی نظام اور اخلاقی بنیادیں بھی مضبوط تھیں، لیکن آج اس کا شیرازہ بکھر چُکا ہے۔
ماہرینِ عمرانیات اور سماجیات کا ماننا ہے کہ آج کل کے90فی صد معاشرتی مسائل کی جڑ عدم برداشت اور عدم رواداری ہیں. ان کاکہنا ہے کہ یہ عدم برداشت کی کیفیت اچانک جنم نہیں لے چکی بلکہ اسے کئی وجوہ اور عوامل نے رفتہ رفتہ پنپنے کا موقع دیا ہے۔ علم و شعور کا فقدان بھی بنیادی اس کی بڑی وجوہ میں سے ایک ہے۔دوسری طرف بے روزگاری، غربت، طبقاتی تقسیم اور ناانصافیاں بھی اس کا ایک اہم محرک ہیں .
ہم اپنے ملک کے طول وعرضمیں دیکھیں تو عدم برداشت کے بڑے عوامل میں مذہبی برتری اور فوقیت کا احساس، قومیت کا تفاخر، اور خاندانی یا نسلی برتری کی وجہ سے سماجی رویّے بگڑ رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے جس پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے.
اسی عدم برداشت نے مرد اور خواتین میںتفریق کوجنم دیا ہے، حقوق کی پامالی اور ہر سطح پر تشدد یانفرت کے رجحان کو بڑھایا ہے جو آج ایک بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے.اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جوہر معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے سامنے ہیں اور وہ انھیں بخوبی سمجھ سکتا ہے.
تعلیم اور شعور کی کمی کے علاوہ روایتی تصورات اور مخصوص ذہنیت بھی معاشرے کو عدم برداشت کا شکار کرچکی ہے۔ لوگ باہم دست و گریبان ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کو قبول کرنے اور سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں.ان حالات میں بالخصوص نئی نسل کے لیے اخلاقی پہلوؤں پر توجہ دینے اور انھیں باشعور بنانے کی ضرورت ہے.
عدم برداشت اور پستی سے معاشرے کو نکالنے کے لیےمختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والوں بالخصوص اہلِ علم و دانش اور اساتذہ کو آگے آنا ہوگا اور ایک فورم پر اکٹھا ہوکر حکومت اور اداروں کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کروانا ہوگی.