بھارتی ریاست ایک بار پھر اس دوراہے پر کھڑی ہے کہ وہ پہلگام دہشتگرد حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرے یا اپنے سیکیورٹی نظام کی ناکامی کو تسلیم کرے۔ یہ وہ سوال ہے جو ایک ایسے ملک کے لیے نہایت تکلیف دہ ہونا چاہیے جس نے گزشتہ تین دہائیوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 8 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہیں۔
یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے امن و امان کی بحالی اور سیاحت کے فروغ کے بڑے دعوے کیے، لیکن حالیہ دہشتگردی کا واقعہ ان تمام دعوؤں کو جھٹلا گیا ہے۔
پہلگام حملہ: دعوے یا حقیقت؟
بھارتی میڈیا کا بیانیہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ دہشتگرد لائن آف کنٹرول عبور کر کے تقریباً 70 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پہلگام جیسے حساس اور محفوظ علاقے میں داخل ہوئے — جسے “منی سوئٹزرلینڈ” بھی کہا جاتا ہے — اور مخصوص افراد کو نشانہ بنایا، یعنی غیر ملکی اور ہندو سیاح، جنہیں وہ کشمیری تحریکِ آزادی کے مخالف سمجھتے تھے۔ اس حملے میں ایک مسلمان بھی شہید ہوا، جسے بھارتی میڈیا نے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ حیران کن طور پر، یہ حملہ بیس منٹ سے زائد جاری رہا، مگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا، جو سیکیورٹی پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔
الزامات کی سیاست اور بے بنیاد دعوے
واقعے کے فوری بعد ایک معروف را سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹ “بابا بنارس” نے بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان اور لشکرِ طیبہ سے منسلک تنظیم TRF پر لگا دیا، حالانکہ TRF نے نہ تو اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، اور نہ ہی کوئی مصدقہ شواہد پاکستان کے ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جس پی ٹی سی ایل کوڈ “949” کا ذکر کیا گیا، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا یکطرفہ بیانیہ دہراتا رہا، اور بھارت، جو خود کشمیریوں اور سکھوں پر ریاستی دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہے، خود کو دہشتگردی کا “شکار” بنا کر پیش کرتا رہا۔
پاکستان کا مؤقف: حقائق پر مبنی تجزیہ
دوسری طرف پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر ایسے ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت خود پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کے حملوں میں بھارت کی پشت پناہی، اور ان حملوں کی ذمہ داری کا اعتراف، پاکستان کے دعوؤں کو تقویت دیتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتا آیا ہے، جب کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی پر مسلسل پراسرار خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
ریاستی جنون یا سیاسی مفاد؟
بھارت میں ریاستی اداروں کے دباؤ میں کام کرنے والا میڈیا، جنگی جنون کو ہوا دے کر مودی حکومت کو پاکستان کے خلاف خطرناک اقدامات پر اکسا رہا ہے۔ یہ حکمتِ عملی نہ صرف علاقائی استحکام بلکہ خود بھارت کے لیے بھی خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، کیونکہ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
اس صورت حال میں چند اہم سوالات جنم لیتے ہیں:
-
اجیت ڈووال، متعدد ناکامیوں کے باوجود، قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر کیوں برقرار ہیں؟
-
بڑی دہشتگردانہ کارروائیاں ہمیشہ BJP کے دورِ حکومت میں ہی کیوں ہوتی ہیں؟
-
بھارت کی اصل نیت کیا ہے؟ کیا وہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہے؟
کشمیری عوام کی واضح رائے
مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 77 برس سے ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے BJP کی حمایت یافتہ پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا، اور آرٹیکل 370 کی بحالی کے حق میں آواز بلند کی۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ ان مقامی جذبات اور رائے عامہ کا احترام کرے، بجائے اس کے کہ ہر واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرائے۔