پاکستان اور بھارت کے درمیان معرکہ آرائی میں بھارتی مسلح افواج نے وہ مار کھائی ہے کہ پوری دنیا میں اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ نریندر مودی جنہوں نے سیاسی طاقت کے حصول اور اپنے وزیر اعظم بننے کی سیڑھی گجرات کے قتلِ عام سے رکھی تھی عالمی سطح پر ہزیمت اٹھانے کے باوجود اب بھی پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مودی کے حالیہ بیانات اس کی پرتشدد سوچ اور اس کے امن دشمن ہونے کا ثبوت ہیں۔
شکست خوردہ، مار کھائے ہوئے زخمی نریندر مودی بالآخر عوام کے سامنے آنا پڑا اور بھارتی قوم سے خطاب میں مودی نے ایک ایسا جارحانہ، پرتشدد اور وحشیانہ سہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے جس نے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کو ایک مرتبہ پھر مشکوک بنا دیا ہے۔ ایک طرف جب پاکستان نے اپنے آپریشن بُنیان مرصوص کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی نے آپریشن سیندور کو جاری رکھنے اور مسلح افواج کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنے خطاب میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ آپریشن سیندور نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لئے ایک نیا پیمانہ یا نیو نارمل طے کر دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی سہ نکاتی حکمت عملی یا پالیسی کا بھی اعلان کیا ہے جو کچھ یوں ہے۔
پہلا: بھارت میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
دوسرا: بھارت ایٹمی جنگ سے بلیک میل نہیں ہوگا۔ نیوکلیئر جنگ کی بلیک میلنگ کی آڑ میں دہشت گردی کے ٹھکانے پنپ رہے ہیں۔
تیسرا: دہشت گردی کی سرپرست حکومت اور آقاؤں کو الگ الگ نہیں دیکھیں گے۔
اب ہم مودی کے بیان کردہ تین نکات میں پہلے اور تیسرے نکتے کا جائزہ لیتے ہیں۔ بھارت میں جب تک کانگریس کی حکومت قائم رہی بھارت خود کو غیر جانبدار ملک ظاہر کرتا رہا اور اس نے فلسطین کی جدوجہد آزادی سے گہرے مراسم رکھے۔ اندرا گاندھی اور یاسر عرفات میں بھائی بہن کا رشتہ رہا۔ مگر نوے کی دہائی سے سویت یونین کے خاتمے کے بعد بھارت نے خود کو امریکی کیمپ میں داخل کر لیا اور اس کوشش کو گہرا کرنے کے لئے بھارت نے اسرائیل کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو بڑھایا۔ وہ بھارت جو پہلے بظاہر فلسطین کی حمایت کر کے پاکستان کے خلاف مسلم دنیا کے دیگر ملکوں کی حمایت سمیٹتا تھا۔ اب نہ صرف اسرائیل کی جارحیت سفاکی اور درندگی کی ستائش کرتا ہے بلکہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینے، مظلوموں کو قتل کرنے میں بھارتی افواج بھی اس کے شانہ بشانہ ہیں تاکہ وہ مظلوموں کو کچلنے کا گُر سیکھ سکیں۔
بھارت کی یہ کوشش تھی کہ وہ اپنے معاشی اور فوجی طاقت پر جنوبی ایشیائی ملکوں پر اپنی چودراہٹ قائم کرے اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا۔ مگر بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کا تختہ الٹے جانے کے بعد خطے میں پاکستان کا سفارتی عمل دخل بڑھ گیا۔ بھارت نے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے کر اسے کم کرنے کی کوشش کی مگر اس میں جب کامیاب نہ ہوا تو پہلگام واقعہ جو دراصل بھارت کا رچایا ہوا ڈرامہ تھا کو بنیاد بنا کر پاکستان پر چڑھائی کر دی۔ اور اب منہ توڑ جواب پانے کے بعد یہ دھمکی دے رہا ہے۔ مگر آر ایس ایس کی سوچ رکھنے والے بھارتی حکمران کو یہ معلوم نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے کو نیو نارمل نہیں بنا سکتا۔ پاکستان مضبوط فوج، پرجوش قوم اور محب وطن سیاسی قیادت کا نام ہے جو قومی حمیت پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے اگر بھارت نے آئندہ بھی پاکستان پر کسی دہشت گردی کے واقعے کو جواز بنا کر جنگ مسلط کی تو اس کو سخت جواب دیا جائے گا۔
اب بات کرتے ہیں نریندر مودی کے ایٹمی جنگ کی بلیک میلنگ کے بیانیے کی۔ میرا خیال ہے کہ وہ 1987 میں جنرل ضیاالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کے تاریخی تناظر میں بات کر رہے ہیں جب کانگریسی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے چھ لاکھ بھارتی مسلح افواج کے ساتھ ایک جنگی مشق پاکستانی سرحدوں کے ساتھ شروع کر دی تھی۔ ایسے میں ضیا الحق پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کرکٹ سیریز دیکھنے دلی پہنچے جہاں سے انہیں اگے جانا تھا۔ راجیو کاندھی نے سرد مہری سے استقبال کیا۔ مگر روانہ ہونے سے قبل ضیاالحق نے راجیو گاندھی کوالگ لے جا کر کچھ کہا جس کے بعد بھارتی وزیراعظم کا ماتھے پر پسینہ آگیا۔ ضیاالحق کے قریبی ساتھ راجہ ظفر الحق کے مطابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ضیا الحق ایک طرف لے گئے اور ان سے کہا کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہی کچھ ہمارے پاس بھی ہے (یعنی ایٹمی اسلحہ) بہتر یہی ہوگا کہ سرحدوں سے فوج واپس بلا لیں۔
پاکستان نے بھارت کے خلاف کم سے کم دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھا ہوا ہے اور جب مئی کے مہینے میں بھارتی جنتا پارٹی کے پہلے وزیر اعظم واجپائی نے ایٹمی تجربات کیے تو پاکستان نے بھی ایٹمی تجربہ کر کے طاقت کا توازن قائم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود پیمانے پر جنگ کشمیر کے محاذ پر تو ہوتی رہی مگر بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ بین القوامی سرحد کو عبور نہیں کیا تھا۔ مگر عددی برتری کے زعم میں بھارت نے 1971 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی سرحدوں کے اندر حملے کیے جس کا پاکستان نے بھر پور جواب دیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم کی اس سہ نکاتی پالیسی سے خطے میں ایٹمی جنگ شروع کرنے کا بٹن گویا آر ایس ایس کے دہشت گردوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ وہ جب چاہیں کسی بھی واقعے کو جواز بنا کر پاکستان کے ساتھ جنگ شروع کر دیں اور اس کو ایٹمی جنگ میں تبدیل کردیں۔ اور یہی مودی کی خواہش بھی ہے۔
راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔