The news is by your side.

ایشیائی ترقیاتی بینک، گرین کلائمٹ فنڈ اور پاکستان

دنیا موسمیاتی بحران کے ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں ترقی اور تباہی کے درمیان فاصلہ لمحوں میں طے ہوتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت، غیر معمولی بارشیں اور پگھلتے گلیشیئر اب محض خبروں کا موضوع نہیں بلکہ بقا کا سوال بن چکے ہیں۔ ایسے میں ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اور گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) نے پاکستان سمیت خطّے کے ممالک کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کے ماحولیاتی موافقتی منصوبے کی منظوری دی ہے جو پاکستان کے لیے امید کی نئی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ موقع ہے کہ ہم ماحولیاتی پالیسیوں کو سیاسی نعروں سے نکال کر عملی منصوبوں میں تبدیل کریں

یہ اعلان ایسے وقت پر ہوا ہے جب پاکستان 2022 اور 2025 کے شدید سیلاب کے تباہ کن معاشی اثرات سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس نے ایک بار پھر ماحولیاتی حساسیت اور ناقص منصوبہ بندی کی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ یاد رہے کہ گرین کلائمٹ فنڈ (GCF)، جو پیرس معاہدے کا بنیادی ستون ہے، ایک اہم عالمی پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا موسمیاتی مالیاتی ادارہ ہے جو ترقی پذیر ممالک کو ان کے قومی طور پر متعین کردہ اہداف (NDCs) کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ کم کاربن اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔

موسمیاتی بحران کی شدت اور پاکستان

پاکستان گزشتہ چند برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہا ہے۔ 2022 کے بعد 2025 کے سیلاب نے دوبارہ معیشت، زراعت اور سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے مطابق، 2025 کے سیلاب سے 18 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے، جب کہ تقریباً 12 لاکھ ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوئی، جس کا براہِ راست اثر خوراک کی پیداوار اور کسانوں کے روزگار پر پڑا۔ اس کے مالیاتی نقصان کا ابتدائی تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جو پہلے سے ہی کمزور معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موسمیاتی تباہ کاریاں پاکستان کے لیے محض قدرتی آفات نہیں بلکہ ترقی کے راستے میں مستقل رکاوٹ بن چکی ہیں۔

اے ڈی بی اور جی سی ایف کا مشترکہ منصوبہ۔ پاکستان کے لیے امید کی کرن

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، یہ منصوبہ ”Climate-Resilient Glacial Water Resource Management“ کے نام سے شروع کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد گلیشیئر سے وابستہ پانی کے وسائل کا تحفظ، سیلابی خطرات کی پیشگی اطلاع دینا اور زراعتی نظام کی مضبوطی ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان، نیپال، تاجکستان اور دیگر وسطی و جنوبی ایشیائی ممالک میں عمل میں لایا جائے گا، تاہم پاکستان کو اس میں ایک کلیدی فریق قرار دیا گیا ہے۔ فنڈ سے حاصل ہونے والی رقم گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، سوات، اور چترال کے گلیشیئر والے علاقوں میں موسمیاتی موافقتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی، جہاں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پانی کے بہاؤ میں خطرناک اتار چڑھاؤ پیدا ہو رہا ہے۔

اے ڈی بی کے مطابق، منصوبے کے بنیادی نکات یہ ہوں گے:
گلیشیئر اور پانی کے ذخائر کی نگرانی کے جدید نظاموں کا قیام۔ ابتدائی وارننگ سسٹم تاکہ سیلاب سے قبل حفاظتی اقدامات کیے جا سکیں۔ پائیدار آبپاشی اور زراعتی نظام کی تشکیل۔خواتین اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت پر مبنی کلائمیٹ ایکشن ماڈل۔

2025 کا سیلاب: سبق اور ضرورتِ موافقت

2022 کے بعد 2025 کے سیلاب سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستان کی موجودہ آبی گزر گاہیں، نکاسی آب اور ہنگامی ردِعمل کے نظام شدید طور پر ناکافی ہیں۔ دریاؤں کے بہاؤ میں غیر متوقع اضافہ، لینڈ سلائڈنگ اور ندیوں کا رخ بدلنے سے ہزاروں دیہات کٹ گئے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، سیلابی پانی کے ساتھ گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں 15 فیصد اضافہ دیکھا گیا، یہ تبدیلی ہمالیائی اور قراقرم خطوں میں خطرناک ماحولیاتی اشارہ ہے۔ ایسے میں اے ڈی بی اور جی سی ایف کا منصوبہ پاکستان کو Reactive پالیسی سے Proactive موافقتی نظام کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں تباہی کے بعد نہیں بلکہ تباہی سے پہلے تیاری اور تحفظ ممکن ہو۔

ماحولیاتی، معاشی اور سماجی اثرات

ماحولیاتی پہلو: گلیشیئر کے پگھلاؤ اور پانی کے جدید نظاموں کے ذریعے وجود میں آنے والے درست اعداد و شمار سے سائنسی تحقیق بہتر ہوگی اور ندی نالوں کے بہاؤ پر اسمارٹ ٹیکنالوجی سے نگرانی ممکن ہو سکے گی۔

معاشی پہلو: سیلاب اور خشک سالی کے نقصانات میں کمی آئے گی۔ دیہی معیشت میں پائیدار روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ آبپاشی نظام میں بہتری سے زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔

سماجی پہلو: خواتین کو کلائمٹ ریزیلینس پروگراموں میں شمولیت کے مواقع ملیں گے۔ مقامی کمیونٹیز کو ابتدائی وارننگ اور تربیت فراہم کی جائے گی۔ اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دیا جا سکے گا۔

چیلنجز اور احتیاطی پہلو

پاکستان کو اس فنڈ سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لیے چند بنیادی چیلنجز پر قابو پانا ہوگا جن میں فنڈ کے شفاف استعمال کو یقینی بنانا۔ صوبائی اور وفاقی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا۔مقامی حکومتوں کی تکنیکی استعداد بڑھانا اورعوامی آگاہی مہمات کے ذریعے کمیونٹی کو شامل کرنا شامل ہیں۔ یہ فنڈ صرف تب کارآمد ثابت ہوگا جب اس کے اثرات گاؤں، کھیت، اور اسکول تک پہنچیں نہ کہ صرف منصوبہ بندی کی فائلوں میں محدود رہیں۔

تجاویز برائے حکومتِ پاکستان اور مقامی کمیونٹیز

ماحولیاتی فنڈز کی کامیابی صرف اعلان یا منظوری سے نہیں بلکہ عملی اور شفاف نفاذ سے مشروط ہے۔ پاکستان اگر واقعی گرین کلائمٹ فنڈ کے ثمرات حاصل کرنا چاہتا ہے تو درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:

1۔ مقامی سطح پر کلائمٹ گورننس کا قیام
وفاقی سطح پر پالیسیاں اکثر زمینی حقائق سے کٹی ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی اور تحصیل سطح پر ”کلائمٹ سیل“ قائم کیے جائیں جو پانی، زراعت، جنگلات او ر موسمیاتی آفاتِ سے متعلقہ منصوبوں کی براہِ راست نگرانی کریں۔ یہ سیل GCF کے منصوبوں سے منسلک ہوں تاکہ فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔

2۔ ماحولیاتی تعلیم اور عوامی آگاہی کی مہمات
2025کے سیلاب نے واضح کیا کہ کمیونٹی کی عدم آگاہی تباہی کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔اس لیے تعلیم، میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی پر عوامی آگاہی کو نصابی اور غیر نصابی سطح پر فروغ دینا ضروری ہے۔اس میں خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت خاص اہمیت رکھتی ہے۔

3۔ شفاف فنڈ مانیٹرنگ اور ڈیجیٹل رپورٹنگ سسٹم
جی سی ایف اور اے ڈی بی کے فنڈز کے مؤثر استعمال کے لیے ایک ڈیجیٹل مانیٹرنگ ڈیش بورڈ بنایا جائے جو عوام کے لیے بھی قابلِ رسائی ہو۔ اس سے منصوبوں کی شفافیت، بدعنوانی میں کمی، اور عوامی اعتماد میں اضافہ ممکن ہوگا۔

4۔ مقامی ماہرین اور نوجوان محققین کی شمولیت
فنڈ کے تحت پاکستان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹس، یونیورسٹیز اور نوجوان سائنسدانوں کو شامل کیا جائے۔ یہ لوگ زمینی مشاہدات اور ڈیٹا جمع کر کے گلیشیئرز، بارش کے پیٹرن، اور سیلابی پیشگوئیوں پر مقامی سائنسی صلاحیت کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ پاکستان صرف فنڈ وصول کرنے والا ملک بنے، اسے کلائمٹ نالج پروڈیوسر بھی بننا ہو گا۔

5۔ قدرتی وسائل کی بحالی اور ماحولیاتی انصاف
سیلاب، خشک سالی اور زمینی کٹاؤ سے متاثرہ علاقوں میں درختوں کی بحالی، ویٹ لینڈز کی حفاظت اور قدرتی پانی کے راستوں کی بحالی پر توجہ دینا ہو گی۔

ماحولیاتی انصاف کے اصول کے تحت فنڈز ان علاقوں پر خرچ ہوں جہاں نقصان سب سے زیادہ ہوا، نہ کہ سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر۔

ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان کا مستقبل صرف امداد پر نہیں بلکہ ماحولیاتی بصیرت، عوامی شمولیت اور سائنسی منصوبہ بندی پر منحصر ہے۔ گرین کلائمٹ فنڈ کے ذریعے ہمیں وہ موقع ملا ہے جو شاید دوبارہ نہ ملے کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کو تباہی سے نکال کر استحکام، لچک اور پائیداری کی سمت لے جائیں۔ یہ وقت عمل کا ہے کیونکہ موسمیاتی خطرات انتظار نہیں کرتے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ کا یہ مشترکہ اقدام پاکستان کے لیے بحران سے استحکام کی طرف پہلا بڑا قدم ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم ماحولیاتی پالیسیوں کو سیاسی نعروں سے نکال کر عملی منصوبوں میں تبدیل کریں۔ اگر یہ فنڈ مؤثر انداز میں استعمال کیا گیا، تو پاکستان نہ صرف آئندہ سیلابوں کے نقصانات کم کر سکے گا بلکہ سبز ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہو سکتا ہے۔ یہ منصوبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرت انتقام نہیں لیتی، بلکہ انتباہ دیتی ہے اور اب یہ انتباہ واضح ہے۔

+ posts
محمود عالم خالد
شاید آپ یہ بھی پسند کریں