The news is by your side.

وعدے نہ امید، عالمی موسمیاتی کانفرنس کوپ 30 ناکام

تحریر: محمد آفتاب احمد

برازیل کے شہر بیلم میں موسمیاتی کانفرنس کے لیے ماہرین اورمختلف ممالک کے مندوبین کا اکٹھا ہونابے سود ثابت ہوا۔ درجۂ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس سے اوپر جانے سے روکنے کے ہدف کا خواب دفن ہوگیا۔ برازیلین وزیر ماحولیات نے جب اختتامی گھنٹی بجائی تو ہال میں خاموشی تھی۔ کوئی تالی بجی نہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ سب کو معلوم تھا یہاں جو کھویا ہے اس کی قیمت ہمارے بچوں کو چکانا پڑے گی۔

کوپ 30 میں دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے بچانے کے لیے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ فوسل ایندھن کے مرحلہ وار خاتمے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ نہیں دیا گیا۔ دو ہفتے جاری رہنے والی کانفرنس کا اختتام تیل، کوئلہ اور گیس سمیت فوسل ایندھن کے استعمال کے مرحلہ وار خاتمے پر عالمی اتفاق نہ ہونا رہا۔ یورپی یونین نے منظور ہونے والی دستاویز کو ’’شرمناک ‘‘ اور چھوٹے جزیروں والے ملکوں نے ’’موت کا پروانہ ‘‘ قرار دیا۔

کانفرنس میں شریک ایک مندوب نے کہا کوپ 30 کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ امریکا کی عدم شرکت تھی۔ امریکا نے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملکوں کو پیسے دینے کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ امریکا نے تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال ترک کرنے میں ساتھ دیا نہ غریب ممالک کے ساتھ کھڑا ہوا۔ یہی وجہ ہے آخری مسودے سے تیل، کوئلہ اور گیس ترک کرنے کا ذکر ہی خارج کر دیا گیا۔ موسمیاتی سفارت کاری کے ماہرین کہتے ہیں جب سب سے زیادہ کاربن چھوڑنے والا ملک ہی ساتھ نہ دے تو باقی ملکوں کی کیسے ہمّت بندھے؟

کانفرنس کی کارروائی میں بڑا جھگڑا پیسے کا بھی تھا۔ غریب ملکوں کا مطالبہ تھا کہ سیلاب، خشک سالی اور سمندر زمین کی جانب بڑھنے سے بچنے کے لیے ہر سال کم از کم 13 کھرب ڈالر امداد دی جائے۔ لیکن امیر ممالک نے کہا ہم 300 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں دے سکتے، وہ بھی اپنی مرضی سے تھوڑا تھوڑا کرکے دیں گے۔ آخر فیصلہ ہوا 2030 تک موسمیاتی تباہیوں بشمول سیلاب، طوفان، گرمی کی لہر، پانی کی کمی اور زرعی پیدوار میں کمی سے بچنے کے لیے امداد کو تین گنا بڑھایا جائے گا۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کون کتنے پیسے دے گا اور کب تک؟

کوپ 30 کی تیسری ناکامی نئے موسمیاتی وعدوں (این ڈی سیز) کی رہی۔ ہر ملک کو نئے موسمیاتی وعدے جمع کرانے تھے کہ وہ 2035 تک کاربن گیس کا اخراج کتنا کم کرے گا۔ لیکن جو این ڈی سیز آئے ان میں دنیا بھر میں کاربن کا اخراج صرف17 فیصد کم ہونے کا ذکر تھا۔ جب کہ زمین کو ڈیڑھ ڈگری سے زیادہ گرم نہ ہونے دینے کے لیے 60 فیصد کمی درکار ہے۔ یعنی دنیا اب بھی تباہی کی جانب سرپٹ دوڑ رہی اور کوپ 30 اسے روکنے میں بالکل ناکام رہی۔ کانفرنس میں جنگلات بچانے کے لیے نیا فنڈ بنا۔ 25 ممالک نے کہا صاف بجلی (سورج، ہوا، پانی سے) چار گنا بڑھائیں گے لیکن یہ اتنے بڑے بگاڑ کے سامنے بہت معمولی اقدامات ہوں گے اور ان سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

آخری اجلاس میں متعدد ممالک کے درمیان فوسل ایندھن کی حکمت عملی پر شدید جھڑپ ہوئی۔ روسی مندوب سرگئی کونونوچینکو نے کہا بچوں کی طرح مت رویہ اختیار کریں، جو سب میٹھا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا نے معاہدے کو ’معنی خیز‘ قرار دیا جب کہ یورپ نے تکنیکی اعتراض کے علاوہ زیادہ خاموشی اختیار کی جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ مغرب پسپا ہوا۔ برطانیہ کے وزیر توانائی ایڈ میلیبینڈ نے کہا تیل، کوئلہ اور گیس کا صرف ضمنی طور پر ذکر کرنے والا معاہدہ بھی اہم ہے، خاص طور پر امریکا کے پیرس معاہدے سے نکلنے کے بعد۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا ایک رسمی معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت ترکی 2026 میں کوپ 31 موسمیاتی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔ کوپ کے صدر آندرے کورے ادو لاگو نے کہا برازیل اپنا روڈ میپ تیار کرے گا، کچھ ممالک نے اتفاق کیا اور کہا آئندہ سال اس پر مزید بات ہو گی۔ توانائی گرڈ اور بائیو فیول پر بھی معاہدے ہوئے۔

مذاکرات کے دوران اختلاف اتنا شدید تھا کہ اجلاس کو وقتی طور پر معطل کرنا پڑا۔ متعدد ممالک، بشمول 29 ملک جو فوسل فیول روڈ میپ کے حق میں تھے، نے اعتراض کیا کہ اعلامیے میں منصفانہ اور منظم توانائی کی منتقلی کا کوئی واضح راستہ نہیں دیا گیا، اس لیے وہ ایسے معاہدے کی حمایت نہیں کریں گے۔ عالمی سطح پر کام کرنے والی ماحولیاتی تنظیم 350 ڈاٹ او آر جی کے مطابق کوپ 30 اعلامیے میں دیا گیا روڈ میپ زیادہ تر نظریاتی نوعیت کا ہے۔ فوسل فیولز کا براہ راست ذکر نہیں کرتا، جس کی وجہ سے یہ اقدام علامتی اور غیر مؤثرنظر آتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے دنیا کے ماحول کو بچانے کے لیے جس حد تک اقدامات کی ضرورت تھی، اتنی فوری پیش رفت نہیں ہوئی۔

( اس تحریر یا تدوین کے لیے کوپ 30 سےمتعلق پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیامیں شایع ہونے والی خبروں سے استفادہ کیا گیا ہے)

+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں