The news is by your side.

نوے سال بعد! کیا خلافت قائم ہوگئی؟

لگ بھگ دس سے ساڑھے دس بجے کا وقت تھا دفتر میں بیٹھے خبر کی تلاش جاری تھی کہ ایک چینل پر ٹکر چلا “داعش نے شام و عراق میں خلافت کا اعلان کردیا”۔ ٹکرل پڑھنے کی دیر تھی کہ کچھ ہی دیر میں تبصرے شروع ہوگئے۔ کسی کا ردعمل انتہائی حیران کن تھا تو کوئی دل کی خوشی زباں سے بیان کرنے لگا۔ کسی نے یاد دلایا کہ نوے برسوں بعد آج دوبارہ خلافت قائم ہوگئی۔ اس کیفیت کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جائے تو بہتر ہے کہ اُس چیز کا اعلان ہوچکا تھا جس کا بے چینی سے انتظار تھا۔

عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کی جانب سے خلافت کے اعلان پر جہاں کہیں جشن کا سماں ہے تو وہیں کچھ انگلیاں بھی اٹھی ہیں ۔۔ کسی نے اس دعوے کو من وعن قبول کیا تو کسی نے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جشن کی وجوہات اوردعوے کی تنقید کی بنیاد دونوں ایک طرف، عراق میں باغیوں کی حالیہ پیش قدمی اور محض آٹھ سوباغیوں کے آگے تیس ہزار سرکاری فورسز کابغیر مزاحمت ہتھیار ڈالنا اور مغربی میڈیا کی جانب سے صرف ایک ہی گروہ پر توجہ مرکوز رکھنا قابل تشویش امر ہے۔

عراق میں جاری حالیہ لڑائی کا باقاعدہ آغاز7جون سے ہوتا ہے جس روز باغیوں نے انبار یونیورسٹی پر حملہ کرکے درجنوں اساتذہ اور طلبا کو یرغمال بنالیا۔۔ تاہم حملے میں تمام اساتذہ اورطلبا محفوظ رہے۔ 11جون کو اہم ترین کارروائی میں عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضے کے ساتھ ہی صوبہ نینوا کے 85 فیصد علاقے پر باغیوں نے کنٹرول حاصل کیا اور حملے کے نتیجے میں تین ہیلی کاپٹر، کئی بکتربند گاڑیاں اور چالیس کروڑ ڈالرز بھی ہاتھ لگے۔ اسی روز صوبہ صلاح الدین پردھاوا بولا گیا اور تکریت شہر کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی بیجی آئل ریفائنری کے بیشتر حصہ پربھی قبضہ مکمل ہوا۔ 12جون تک باغیوں نے صوبہ صلاح الدین کے 70فیصد رقبے پر بھی قبضہ مکمل کرلیا  ۔۔ جب کہ بغداد پر سخت حملے کو اپنا اگلا ہدف بھی قرار دیا گیا (جس کا تاحال انتظار ہے)۔ 13جون کو صوبہ دیالا کے دو قصبوں جلولا اور سعدیہ پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا مگراٹھارہ جون کو ہی کرد جنگجوؤں نے قبضہ چھین لیا۔

اس تمام تر سنگین صورتحال کے پیش نظر برطانوی حکومت نے عراقی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر تیس لاکھ پاؤنڈ امداد کی پیشکش  کی جب کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی عراقی حکومت کی مدد کا فیصلہ کرتے ہوئے دو ہزار فوجی اہلکار عراق بھیج دیے۔17جون تک باغی دارالحکومت بغداد کےشمال سے صرف 37 میل کی دوری پر پہنچے تو امریکا نے بغداد میں سفارتخانے کے تحفظ کے لیے275سے زیادہ امریکی فوجی تعینات کردیے۔۔باغیوں نے 21جون کو  شامی سرحد سے ملحقہ عراق کے مغربی صوبے انبار کے اہم ترین قصبے القائم پر جب کہ 23جون کواردن سے ملحقہ سرحد تربیل پربھی قبضہ کرلیا۔۔24جون کو  باغیوں نے ملک کی سب سے بڑی بیجی آئل ریفائنری پر مکمل قبضے کا دعویٰ کیا مگر صرف دو ہی روز کے اندر سیکیورٹی فورسز نے تمام دعوؤں پر پانی پھیر دیا  ۔۔۔ 28 جون سے سیکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر صف بندی کرکے باغیوں کے زیرانتظام علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کی۔  اور ایک ہی دن میں تکریت شہر کے متعدد علاقوں پردوبارہ قبضہ جمالیا ۔۔اور اسی نفسہ نفسی ۔۔ ہار جیت  کے عالم میں  خبر ملی کہ عراق اور شام کے زیرقبضہ علاقوں پر خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔

1924میں خلافت  کا انہدام ہونے کے بعد پورے 90برسوں بعد 29جون 2014کو دوبارہ خلافت کےقیام کے اعلان اتنی عجلت اور جلدبازی  میں کیوں لیا گیا اس پر ہزاروں سوال اٹھائے جاچکے ہیں ۔۔  سوال کرنے والے کہتے ہیں ابھی تو عراقی سرکاری فورسز سے لڑائی جاری ہے ۔۔ کہیں ہار ہے تو کہیں جیت ہے ۔۔ ابھی تو باغیوں کے پاس صوبہ انبار میں شامی فضائیہ کی بمباری کو روکنے کی بھی اہلیت نہیں کہ جس میں  ستاون شہری جاں بحق ہوگئے ۔۔ ریاست کی سرحدوں کی حفاظت تو دور کی بات ۔۔ بیجی آئل ریفائنری پر دو دن بھی قبضہ برقرار رکھنا محال تھا۔  تکریت بھی ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔۔تو پھر شامی صوبے حلب سے عراقی صوبے دیالہ تک ریاست خلافت کا اعلان کیسے؟ کیوں؟ کسی نے کہا کہ یہ تو بالکل ایسا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اُٹھے ۔۔ پشاور اور کوئٹہ سمیت خیبرپختو خوا اور بلوچستان کے دیگر شہروں پرجزوی قبضہ کرے اور خلافت کا اعلان کردے۔

2004میں “جماعت  توحید و جہاد “۔۔  کچھ ہی عرصے بعد  “تنظيم قاعدہ  جہاد بلاد الرافدين ” اور پھر 2006میں “دولۃ اسلامیہ عراق “۔۔  سات برس بعد “دولۃ اسلامیہ عراق و شام “(داعش نہ پڑھا جائے ۔۔ کوڑے مارنے کی سزا طے کی جاچکی ہے)اور اب  بالآخر دولۃ اسلامیہ  کی جانب سے خلافت کے اعلان اور إبراہيم بن عواد ابن ابراہیم بن علی بن محمد البدری السامرائی‎ عرف ابوبکر البغداد ی کی بطور خلیفہ تقرری  کے دعوے پر  جہاں دولۃ اسلامیہ کو عالمی میڈیا   میں خاصی پزیرائی ملی وہیں ۔۔ عالمی اسلامی  تنظیموں نے بھی  اس اعلان پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ۔۔ شام میں  مصروف عمل  جہادی تنظیموں جبهة النصر ۔۔ انصار الاسلام اور جبھۃ الاسلام سمیت دیگر اہم تنظیموں نے اس اعلان کی شدید مخالفت کی ہے ۔۔ جب کہ اخوان المسلمون کے سابق فکری قائدین میں شمار کیے جانے والے يوسف القرضاوی ۔۔ مصری مذہبی رہنما ہانی السباعی ۔۔ معروف مذہبی عالم عبداللہ بن محمد المحيسنی اور سلفی مسلمانوں کے سب سے بااثر رہنما شیخ ابو محمد المقدسی نے بھی ابوبکرالبغدادی کے خلافت کے دعوے کی سخت ترین مذمت کی ۔۔ چیچن جہادی لیڈر شیخ ابو محمد نے بھی شام میں لڑنے والے چیچن جہادیوں کو دولۃ اسلامیہ سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے ۔۔ تاہم اس حوالے سے سب سے مفصل اور جامع جواب 1953سے خلافت راشدہ کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے عالمی اسلامی تنظیم حزب التحریر کی جانب سے پریس ریلیز کی صورت میں موصول ہوا جس میں تنظیم کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ نے معاملے کی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ خلافت کا اعلان کرنے والے کسی بھی گروہ کے لیے ضروری ہے کہ اُسے زمین پر نظرآنے والا واضح اختیار حاصل ہو تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے ۔۔ اور اس جگہ ایک ریاست کی تمام خصوصیات (متعین سرحدیں، سیاسی خودمختاری، حکومتی عملداری)موجود ہوں ۔۔

کیا ‘دولۃ اسلامیہ’ کو حلب سے دیالہ تک وہ ریاستی اتھارٹی حاصل ہے جو آپ ﷺ کو ریاست مدینہ کے قیام کے وقت حاصل تھیں؟ کیا ابو بکر البغدادی کو مقامی قبائل سمیت دیگر اہل حل و عقد سے بیعت کا شرف حاصل ہوچکا ہے جیسے اوس و خزرج نے آپ ﷺ کے لیے تن من دھن کی قربانی کا عہد کیا؟ کیا ‘دولۃ اسلامیہ کو اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت حاصل ہے؟

مگر اب جب  ماضی میں مختلف عسکری و غیر عسکری اسلامی تنظیموں کی طرح دولۃ اسلامیہ عراق و شام نے بھی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر ہی دیا ہے  تو اسے ثابت بھی کرنا ہوگا  ۔۔ کیوں کہ اسلامی ریاست  کوئی جمہوری ریاست تو ہے نہیں کہ جس کا حسن  خود بخود اعلان  کے فوری بعد ہی  سے جھلکنا شروع ہوجائے ۔۔اور نہ ہی یہ کوئی جمہوری تماشہ ہے کہ کبھی پانچ سال ایک حاکم تو اگلے کچھ سال دو سرا جمہوری آمر۔۔

  “دولۃ  اسلامیہ” تب ہی حقیقت  میں دولۃ اسلامیہ  کہلائے جانے کی مستحق ہوگی جب وہ ثابت کرے  کہ ریاست میں  اسلام مکمل  طور پر نافذ العمل ہے ۔۔ اور ریاست کی امان بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں ہو ۔۔ خلیفہ کا منسب سنبھالنے کی سات بنیادی شرائط (مسلمان،مرد،بالغ،عاقل،عادل،آزاد)میں سے  ایک شرط  اہلیت بھی ہے ۔۔ چنانچہ “دولۃ اسلامیہ کو جلد از جلد اسلامی ریاست کی پالیسیز کا اجراء کرنا لازم ہے۔۔ معاون تفویض  اور معاون تنفیذ ۔۔ والی ۔۔ امیر جہاد  کی تقرری۔۔ محکمہ داخلی سلامتی ۔۔ محکمہ خارجہ امور  ، مالیات ،القضاء   اور مجلس امت سمیت دیگر انتظامی اداروں کے قیام میں  تیزی یا سست روی  اہلیت اور  نااہلیت دونوں کا ثبوت فراہم کرے گی۔۔   ۔

مگر ابھی تک  کی خبروں پر نظر ڈالیے  تو  وہی سننے کو ملتا ہے جو ریاست کے قیام کے دعوے سے پہلے سنتے تھے ۔۔ کبھی شام میں  کسی باغی گروہ سے لڑائی  تو کبھی عراق میں کسی علاقے سے پسپائی ۔۔  کہیں درگاہیں تباہ ہونا شروع ہوگئی ہیں  تو  کہیں پہلے ہی روز سے    ہاتھوں پر تلواریں چل رہی ہیں ۔۔  ترجیح  بشار الاسد سے دمشق کا   ۔۔ اور نوری المالکی  سے بغداد کا قبضہ  چھڑانے پر ہونی چاہیے مگر ابھی تک زیادہ تر توانائی آپسی لڑائیوں میں ہی  صَرف ہوتی نظرآئی ہے ۔۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا ۔۔ تو خلافت کے قیام کا نعرہ محض جذباتی نعرہ ہی تصور کیا جائے گا ۔۔ بالکل ویسا ہی جیسا کہ  اس سے پہلے بھی لوگ اپنی تسکین کے لیے  بغیر کسی وزن کے  ریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔  اور بے شک  آپ ﷺ کے  فرمان کے مطابق خلافت تو نبوت کے نقش قدم پر ہی دوبارہ قائم ہوکررہے گی ۔۔  اور مشرق سے مغرب تک غلبہ اسلام ہی کا ہوگا ۔۔