The news is by your side.

سانحہ پشاور

پشاور کا آرمی پبلک اسکول، جہاں بزدل دہشتگردوں نے اپنی مذموم کارروائی میں سینکڑوں بچوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ میرے پاس نا وہ زبان ہے، نا ہی وہ الفاظ جن سے مذمت کر سکوں بس واقعے سے دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ملک میں تمام حلقوں نے اس کی مذمت اوردہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم کیا۔ قومی سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور مسئلے کے حل کیلئے عملاً اقدامات کا اعلان کیا گیا۔ پھانسی پر سے پابندی ہٹا لی گئی اوردہشتگردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کو سزا دیئے جانے کے تمام اقدامات بھی مکمل کر لئے گئے، پھانسی گھاٹ کو چمکانا اور رسیوں کے انتظامات مکمل ہوئے اور پھانسی کی سزا پانے والے ڈاکٹرعثمان اورارشد محمود کوفیصل آباد کی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ پشاور کے شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔۔۔ یہ کہہ رہی ہے ہماری سیاسی قیادت۔۔۔۔ عمران خان نے دھرنا ختم کیا اوروہ بھی ایک میز پر مخالفین کے سامنے آ کربیٹھ گئے۔ خیرایسے موقع پر کپتان کا فیصلہ انتہائی مثبت ہے۔ پشاور سانحے کے بعد ملکی سیاسی قیادت ایک ہو گئی۔۔ واقعے کے بعد قوم واقعی قوم بن کرسامنے آئی۔ مختلف تنظیمیں تو ایسے مواقعوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا ہی دیتی ہیں مگر ان تمام کے ساتھ اس بار کچھ الگ ہوا۔۔۔ کچھ نیا ہوا۔۔۔ پشاور واقعے پر قوم سوگ میں ڈوب گئی۔۔۔۔ قوم آنسوؤں سے روتی نظر آئی۔۔ اس بھانک واقعے پر میں نے گھر گھر میں دہشتگردوں کیخلاف غصہ اوراشتعال دیکھا۔۔۔ گلی گلی بچوں، بڑوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں کو سڑکوں پر نکلا دیکھا۔۔۔ یہ لوگ کسی تنظیم کے کہنے پر نہیں نکلے تھے۔۔۔ یہ لوگ کوئی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت نہیں نکلے تھے۔۔۔ یہ نا ہی کسی پوسٹر، بینر یا سائن بورڈ کو پڑھ کر باہر نکلے۔۔۔۔ یہ عام شہری اپنے پیارے بچوں کو لیکر سڑکوں، چوہراہوں محلوں میں چراغ لئے ان بچوں کو خراج عقیدت پیش کرنے نکلے جو بے چارے حصول علم کیلئے اسکول میں کلاسز لے رہے تھے اور دہشتگردوں نے ان بہادر بچوں کو نشانہ بنایا۔۔۔ شمعیں روشن کرتے یہ عام لوگ دہشتگردوں کو بتانے نکلے کے ہم تمہاری کسی بزدلانہ کارروائی سے نہیں ڈرتے اور اب تم ہمارا نشانہ ہو گے۔۔ تم نے ہمارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو نہیں چھوڑا ہم تمہیں نہیں چھوڑینگے۔۔۔۔ ہم تم سے مقابلہ ضرور کرینگے مگر تمہاری عورتوں اور تمہارے معصوم بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگائیںگے۔ یہی ہمارا مذہب سکھاتا ہے۔۔۔ یہی ہمارے نبی نے ہمیں سکھایا۔۔ اسکول پر حملے کا واقعہ بہت بڑا واقعہ ہے۔۔ بے حد افسوسناک واقعہ ہے۔۔۔ اس واقعے نے ملک و قوم کا بہت بڑا نقصان کیا جس کا ازالہ ہم ساری زندگی نہیں کر سکتے۔۔ پوری قوم سوگوار آنسؤوں سے رو رہی ہے۔۔ پوری دنیا میں اس درد ناک واقعے کی مذمت کی گئی۔ مگراس افسوس ناک واقعے کے بعد پہلی بار میں نے اپنی قوم کوجاگے ہوئےدیکھا۔ میں نے پہلی بار قوم کو متحد دیکھا۔۔۔ میری اللہ سے دعا ہے کے ہماری قوم کسی حادثے کے بغیر بھی ایسے ہی متحد رہے۔۔ یقین کیجئے پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔ حادثہ تو بہت بڑا ہوا مگر قوم کے متحد ہونے سے پہلی بار تھوڑی سی آزادی بھی محسوس ہو رہی ہے۔ پہلے صرف فوج دہشتگردوں سے مقابلہ کر رہی تھی۔۔ اس حادثے کے بعد میں نے پہلی بار بچے بچے کو دہشتگردوں سے لڑتے دیکھا۔۔ انکے خلاف آواز اٹھاتے دیکھا۔۔ میں نے پہلی بار تاجروں کو خود سے کاروبار بند کرتے دیکھا۔۔ میں نے قوم کو ایسے سوگ مناتے دیکھا جیسے انکے اپنے گھر میں جنازہ اٹھا ہو۔۔۔ جیسے انکے اپنے بچوں کا قتل ہوا ہو۔۔ سب کا ایک سوال پیارے پیارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے کیا کیا تھا۔۔۔ آخر ان کا قصور کیا تھا۔۔۔ کون سا مذہب ایسی گھناؤنے عمل کی اجازت دیتا ہے۔۔۔ ملک کے ہر طبقہ فکر کے علماءکرام نے سانحہ پشاورکی سراسر مذمت کی ہے۔ خود پھانسی پانے والے ڈاکٹر عثمان اور ارشد محمود نے تختہ دار پرندامت کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے معافی مانگی۔ دونوں کے آخری الفاظ تھے کہ کسی مسلمان کو قتل نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوں۔ اب عدالتیں بھی لگ رہی ہیں، پھانسی بھی دی جا رہی ہے، قومی قیادت بھی ایک ہو گئی اور قوم بھی متحد ہو گئی۔۔۔ مگران سب کیلئے حادثہ بہت بڑا ہوا۔۔۔ تبدیلی دھرنے سے آئی یا سانحہ پشاور سے۔۔۔ مگر واقعی تبدیلی آنہیں رہی۔۔۔ تبدیلی آگئی ہے۔۔۔