The news is by your side.

سفرِوفا

19 مارچ 1984ءکی صبح قومی اخبارات کے اندرونی صفحات پر ایک کالمی خبر اور ایک مدھم سی تصویر شائع ہوئی۔ خبر تھی کہ کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے قائد الطاف حسین ہیں اور ان کی عمر صرف 30برس ہے۔ کون جانتا تھا کہ یہ چھوٹا سا کارواں وہ کارنامے سرانجام دے گا کہ پاکستان کی سیاست میں سڑسٹھ سال سے جینے والے سرمایہ دار ، جاگیردار ، وڈیرے، کلی اختیار حاصل کرنے کے باوجود نہ دکھا سکے۔

بنیادی طور پر تبدیلی یا انقلاب پاکستان کے لیے اب تک شجر ممنوعہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ایم کیو ایم کے سفر کو روکنے کی مختلف سطحوں پر کوششیں ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ جو نظام انقلاب ایم کیو ایم نے متعارف کروایا تھا، وہ پاکستان کی قسمت تبدیل نہ کرتا۔ بدقسمتی سے اس تحریک کا راستہ ان عناصر نے روکا جو اقتدار کے ایوانوں پر چمگادڑ کی مانند چپکے ہوئے ہیں اور ملک کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کردیا کہ ایک بار پھر ملک کی سالمیت کو ہمہ جہتی خطرات لاحق ہیں۔ مشرقی اور مغربی سرحد غیر محفوظ اور داخلی صورتحال، دہشت گردی، انتہا پسندی اور مختلف عنوانات سے ہونے والی پر تشدد کارروائیوں سے عبارت ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آخر تمام سیاسی قوتیں بشمول ماضی کے طالع آزما ایم کیو ایم کے خلاف اگر سازشیں کرتے رہے تو کیوں کرتے رہے اور اس قسم کی صورتحال کا سامنا کسی اور جماعت کو کیوں درپیش نہیں؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ایم کیو ایم اپنے نظم و ضبط اور قیادت کے عزم کی وجہ سے اتنی مستحکم اور مضبوط قوت کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے کہ بارہا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں نے اسے توڑنے کی کوشش کی۔ کبھی کسی گروپ کو سامنے لا کھڑا کیا تو کبھی جرم سے جوڑ کر اس کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ کبھی ہارے ہوئے سیاسی گروہوں کو مختلف اتحادوں کی شکل میں سامنے کھڑا کیا گیا ، کبھی کسی کو خیبر پختونخواہ سے لا کر تو کبھی کسی کو پنجاب کے دیگر علاقوں سے لا کر ایم کیو ایم کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش کی۔

ان تمام کوششوں کو ایم کیو ایم نے اپنے قائد الطاف حسین کی زیر قیادت عوام کی حمایت سے ناکام بنایا۔ جہاں تک سوال مذہبی سیاسی اور دیگر سیاسی جماعتوں کا ہے تو ایم کیو ایم ان کی آنکھوں میں اس لیے کھٹکتی ہے کہ الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں سے ان کی سیاسی دکانیں بند کروا کر ان کا بوریا بستر لپٹوا دیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو اس میں ایم کیو ایم کے مضبوط فلسفے کے ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں کہ جو ضیاءالحق کے مارشل لاءکے دور میں عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر ڈرائنگ رومز میں جا بیٹھے تھے اور عوام کی محرومیوں کو آواز دینے والا کوئی نہ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایم کیو ایم کے خلاف مختلف جہتوں میں سازشیں کی جارہی ہیں۔ حد یہ ہے کہ ایسے ادارے بھی سیاسی بیانات دینے سے گریز نہیں کرتے جن کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ خالصتاً پیشہ ور ادارے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ داخلی سلامتی کے لیے ہر قدم اٹھاتے ہیں لیکن کسی سیاسی محاذ پر نہیں الجھتے، نہ ہی اپنے آپ کو کسی کے خلاف یا حق میں صف آرا کرتے ہیں۔ اس کا سامنا ایم کیو ایم نے 1992ءمیں بھی کیا اور آج بھی کر رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی طرح سے الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے الگ کردیا جائے یا قائد تحریک کا رابطہ عوام سے منقطع کیاجائے لیکن 31سال کے اس سفرِ وفا میں ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں تو دینا گوارا کیا لیکن ان سازشوں کو ناکام بنا کر رہے۔

یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ سےاسی کارکنان کے خلاف منفی مہم چلائی گئی انکی جھوٹی عرفت بنا کر انکی اسی کردار کشی کی گئی لیکن جب انہیں دیکھا تو یکسر مختلف پایا، قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی، لیکن وطن عزیز کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ملک کے دیگرحصوں کے عوام کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے ایم کیو ایم سے بد ظن رکھا گیا تاکہ یہ سوچ اور نظریہ جس نے ایک ایسے نظام انقلاب کو جنم دیا تھا جو غریب اور متوسط طبقے کے اندر سے پیدا ہوا اور ان مسائل کا حل لےے ہوئے تھا جس سے عوام دوچار تھے اور آج بھی پاکستان کے اقتدار پر قابض مافیا یہ چاہتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو جو گزشتہ 28برسوں سے سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ حاصل کیے ہوئے ہے اور وہاں کے عوام کا اعتماد حاصل کرچکی ہے، اسے کمزور کیاجائے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ الطاف حسین کی قیادت اور کارکنان کی وفا ہمیشہ ان سازشوں کے آڑے آئے اور انہوں نے عوام کے حقوق کا تحفظ کیا۔ حال ہی میں پاکستان کے ایوانِ بالا کے انتخابات کے دوران جو طوفانِ بدتمیزی دیکھنے کو ملا وہ پاکستان کے اقتدار پر قابض قوتوں کی کمزور ذہنیت کا عکاس تھا۔ سب نے کروڑوں روپے خرچ کےے لیکن ایم کیو ایم کے امیدواران نے کاغذاتِ نامزدگی کی فیس بھی اپنی جیب سے ادا نہ کی۔ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے اپنے انتخابات کے دوران جو ٹیلی فون کالز کیں، اس کا خرچ بھی ایم کیو ایم نے اٹھایا، بصورتِ دیگر جو لوگ کروڑوں خرچ کرکے ایوان میں آئے، ان کے سامنے ایسے ممبران بھی ہیں جنہوں نے ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے خرچ نہیں کیا۔

ہماری سڑسٹھ سالہ تاریخ گواہ کے شہر کراچی میں مختلف جرائم پیشہ مافیا کو ہمیشہ زندہ رکھا گیا تاکہ کراچی کے باشعور عوام الجھے رہیں اور وہ قومی سیاست میں اپنا وہ کردار ادا نہ کرسکیں جسکا کہ وہ حق رکھتے تھے اور اقتدار پر قابض حکمراں وسائل لوٹتے رہیں اور عوام کا معیار زندگی بہتر نہ ہوسکا۔

 آج یہ سفرِ وفا اکتیس برس مکمل کر رہا ہے اور پاکستان میں سیاسی استقامت اورعوام کی حمایت کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ اگر سازشی عناصر اپنی سازشوں کے تانے بانے بننے سے گریز کریں اور سیاسی جماعتیں ماضی کی شکست کو تسلیم کریں تو ایک اچھا سیاسی اور جمہوری ماحول پنپ سکتا ہے۔ کراچی میں امن کے وقفے تو آئے لیکن بدقسمتی سے آج تک یہاں پائیدار امن نصیب نہ ہوسکا۔ بعض عناصر یہ کہتے ہیں کہ یہ بدامنی ایم کیو ایم کے قیام کے ساتھ کراچی کا مقدر بنی تو آج میں ا س موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے ملک کے نوجوان طبقے بالخصوص طلبا و طالبات کو یہ دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ وہ تاریخ کا مشاہدہ کریں۔ خاص طو رپر جب 60ءکی دہائی میں ایم کیو ایم کا وجود نہ تھا تو کراچی میں اُردو زبان سے نفرت کا اظہار کیا گیا اور تشدد کی ایک ایسی لہر ابھری کہ وہ علاقے جو اندرونِ سندھ کہلاتے ہیں وہاں سے اُردو بولنے والوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ یہی نہیں، جب 70ءکی دہائی میں تقسیم پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ایک بار پھر نفرت نے اپنا عروج حاصل کیا اور بہت بڑی نقل مکانی ایک بار پھر ہوئی ۔ کراچی شہر میں جابجا نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپ قائم کیے گئے جس میں متاثرین کو عارضی طور پر ٹھہرایا گیا۔

    سن 1988 ءمیں جب بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں نے ایک بار پھر ہجرت کی اور وہ اندرونِ سندھ سے سندھ کے شہری علاقوں میں آنے پر مجبور کیے گئے۔ ان کی املاک جو متروکہ املاک ہونے کی بناءپر ان کے حصے میں آئیں، یا تو چھین لی گئیں یا پھر دھوکہ دہی کے ذریعے خوردبرد کرلیا گیا۔ یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں محرومیوں کو جنم دیا اور ایک خوف کا ماحول پیدا کیا۔ یہ بات کس طرح کہی جاسکتی ہے کہ دہشت گردی ایم کیو ایم کے قیام کے بعد شروع ہوئی؟ نسل اور زبان کے نام پر سابق فوجی حکمران کے صاحبزادے نے کراچی میں خون کی ہولی کھیلی اور یہ واقعہ 60ءکی دہائی میں رونما ہوا۔ گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں جو کچھ ایم کیو ایم نے جھیلا ہے وہ اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی سیاسی دکانیں کراچی میں بند کروا دیں اور آج بھی یہ عمل جاری ہے لیکن کارکنانِ ایم کیو ایم وفا اختیار کرتے ہوئے ہر سازش کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور انہوں نے ہر عہد کے آمر اور غاصب کو اپنے اتحاد سے شکست دی ہے۔ تحریک کا یہ سفرِ وفا اپنی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ گو کہ اس کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور ان کو عبور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ فتح حق کی ہوگی۔

جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے