کچھ سال پہلے ایک دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہم بیٹھے تھے کہ اس کی دادی آگئیں اور تھوڑی دیر بات چیت کے بعد بڑے فخر سے کہنے لگیں کہ میری بیٹی اور داماد نیب میں ’نوکر‘ ہیں. مجھے ایک شدید الجھن کا جھٹکا لگا کہ وہ نیب میں 18, 19 گریڈ پر فائز اپنے بچوں کو نوکر کہہ رہیں تھیں ایسے جیسے وہ وہاں چپراسی ہوں مجھے ہنسی بھی آئی کہ بڑی بی اپنے تئیں کرتو ان کی تعریف رہی ہیں مگر ہتک ہو رہی ہے۔
آج بہت عرصے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹھیک ہی کہہ کہ رہی تھیں۔ ہوتے تو ہم نوکر ہی ہیں بس سمجھ خود کو افسر لیتے ہیں. کام تو خدمت ہے اور خدمت والا نوکر ہی تو ہوتا ہے کتنا سچا تھا ان کا جملہ اور کتنا میٹھا تھا ان کا مان۔
یہ کیا اقداراورروایات ہم نے اپنا لیں؟ ہرشخص خدمت کرانے کے چکرمیں ہے کوئی خدمت کرنے کے خواب کو لے کرآگے نہیں بڑھتا وہ ڈاکٹر ہو، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان یا بیوروکریسی کا اعلیٰ افسر سب کے خواب یکساں ہیں گھر، گاڑی، بڑی سیٹ اور بڑے ٹور۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ یہ بات ہمیں بچپن سے بتائی جاتی ہے کہ تم نے بڑا آ دمی بننا ہے. بڑا آدمی کیوں؟ کیوں کہ بڑے آدمی کی سب عزت کرتے ہیں اس کی ہرخواہش پوری ہو سکتی ہے اس کے آگے پیچھے سب پھرتے ہیں یہ ہیں وہ خواب جو لیکر ہم آگے بڑھتے ہیں. ایسے مقاصد لیکر کوئی آگے بڑھے گا تو کیا خاک خدمت کریگا؟ جس بھی عہدے پہ جائیگا لوٹ لوٹ کرکھائے گا۔
اور یہی ہے ہمارا المیہ کہ ہمیں کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ بیٹا بڑے ہو کراچھے خدمت گاربننا، بڑے نوکر بننا، صحیح سمت میں خدمت کرنا۔ بچپن سے یکساں باتیں سکھائی گئیں بچپن سے بتایا کہ زندگی میں محنت اس لئے کرو تاکہ اس مقام تک پہنچ جاؤ کہ پھرتمہیں خدمت کرنی نہ پڑے تمہاری خدمت کی جائے۔ کتنی نیچ سوچ دیکر ہم اپنے بچوں کو بڑا کرتے ہیں اور مسلسل کررہے ہیں۔ پاکستان کا سب سے اونچے پائے کا ادارہ بیوروکریسی۔ وہ بڑا کیوں ہے؟ کیوں کہ وہاں آپ بڑی خدمت کر سکتے ہیں، وہاں آپ بڑے نوکر بن سکتے ہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ مجھ سمیت سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے والا کوئی ایک بھی شخص یہ سوچ آگے نہیں آیا تھا کہ میں بڑا نوکر بننے جارہا ہوں، سب یہ سوچ کربیٹھے تھے کہ ہم بڑے افسربننے جارہے ہیں۔ اب خدمتیں کرانے کے دن آنے والے ہیں اور یہی ہمارا اصل قومی المیہ ہے۔
پاکستان کا نوجوان جب کسی اعلیٰ منصب کے لیے امتحان دیتا ہے تو وہ اس لیئے دیتا ہے کہ میرے دن پھر جائینگے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حلال کمانے والا بیوروکریسی جیسے ادارے میں ہی کیوں نہ ہو اگر وہ دیانت دار ہے تو ایک عرصے تک اپنے بیٹے کا نیا پلنگ خریدنے کی خواہش تک پوری نہیں کرسکے گا اورقدرت کا قانون ہے کہ حلال میں برکت تو ہوتی ہے مگرحلال کم مقدار میں دیا جاتا ھے۔ اس لئے اگر آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں سونا بنانے کی نیت اور خدمت کرانے کی نیت لیکر جانا چاہتے ہیں تو آپ اصل میں قدرت سے حرام کی ڈھکی چھپی التجا کر رہے ہیں اور یہ پوری ہو بھی جائیگی۔ آپ کے خدمتگار ہونگے، آپ کے وہ سب خواب پورے ہوں گے جو آپ نے دیکھے ہیں لیکن آپ اچھے اوربڑے نوکر نہیں ہونگے آپ وہ مقصد پورا نہیں کر سکیں گے جس کے لیے آپ کو قدرت نے اختیار دیا۔ پھرآپ وبال بن جائیں گے، معاشرے کے لیے، مذہب کے لیے، اپنی نسل کے لیے اور سب سے بڑھ کرخود اپنے لیے۔
کیا ہی اچھا ہو اگرمائیں یہ بتایا کریں کہ بیٹا تم بڑے ہو کربڑے خدمتگار بننا، کیا ہی اچھا ہو اگربچپن سے ہمیں یہ سمجھا دیا جائے کہ جب تک سانس ہے تب تک بس خدمت کی ہی جا سکتی ہے کروائی نہیں جا سکتی اور کروانی نہیں چاہئے تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں جب کوئی آئے تو نوکر بن کرآئے افسربن کرنہ آئے۔ خدمت کرنے آئے خدمت کرانے نہ آئے اور ہم سب کا پیشہ ایک ہو جائے تاکہ کوئی کسی کو نیچی نگاہ کر کہ نہ دیکھ سکے تاکہ مایئں بڑے نوکروں کی طرف اشارے کرکہ اپنے بچوں کو طعنے دینا چھوڑ دیں اس ادراک کے ساتھ کی بڑے نوکر کو کام بھی بڑا کرنا پڑتا ہے، اسکا زیادہ پسینہ بہتا ہے اسکو زیادہ کھپنا پڑتا ہے۔
کاش ہماری یہ نیچ بڑے آدمی اور بڑے افسر والی سوچ بدل جائے، کاش ہم سب نوکر بننے کے خواب دیکھنے لگیں اور کاش ہم سب ایک دوسرے کے نوکر بن جائیں تو معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہوگا۔