The news is by your side.

کیا آپ اپنے بچے کو جینےکاحق دیں گے

آپ نے پِکاسو پین تو یقینا استعمال کیا ہو گا لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ پِکاسو کون تھا۔ پِکاسو سپین سے تعلق رکھنے والا ایک مصور تھا جو بچپن سے ہی مختلف قسم کے فن پارے بناتے ہوئے بڑا ہوا۔ اُسے قدرتی طور پر مصوری میں کمال حاصل تھا۔ پِکاسو نے جب پہلی مرتبہ قلم ہاتھ میں پکڑا تو جو لفظ لکھا وہ’’پنسل“ تھا۔

پابلو پِکاسو اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت تھا کہ خود اس کے والد بھی مصور تھے۔ جب اُس کے والد کو احساس ہوا کہ ان کا بیٹا مصوری کا شوق رکھتا ہے تو پِکاسو کے والد نے سات سال کی عمر سے اُسے باقاعدہ مصوری کی تربیت دینا شروع کردی اور اپنے بیٹے کو ایسے قابل اساتذہ کے پاس اپنا قدرتی فن نکھارنے کے لیے بھیجا کہ پِکاسو فنِ مصوری میں ایک ایسا نام بن کراُبھرا کہ آج ایک صدی بعد بھی اُسکا نام اورکام زندہ ہے۔ آج کے بعد آپ جب بھی پِکاسو لکھا ہوا کوئی قلم اُٹھایں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ اُس شخص کے نام پہ ہے جو مصوری کا کوئی فن پارہ دیکھتا تھا تو فقط ایک لکیرکھینچ کراس کا ہرزاویہ بتادِیا کرتا تھا۔

اب آجائیے اکیسویں صدی کے پاکستان میں، یہاں پِکاسو جیسے تو بہت پیدا ہوتے ہیں مگر شاید
اُنکے والد پِکاسو کے والد جیسے نہیں ہوتے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو وہ نہیں بنانا چاہتے جیسا وہ چاہتے ہیں۔ ہم انہیں وہ بنانا چاہتے ہیں
جس کے باعث معاشرے میں ان کی ’واہ واہ‘ میں اضافہ ہو اور ہمارا غلط تاثر یہ ہے کہ ایسا صرف تب ہی ہوگا جب ہمارا بیٹا ڈاکٹر ہوگا، انجینئرہوگا، پائلٹ ہوگا، آفیسرہوگا یا کسی بھی جگہ کسی’’اچھی پوسٹ‘‘ پرہوگااوراچھی سے مُراد ہے اچھی آمدنی والی پوسٹ۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ خواب اورخواہش تو والدین کی ہوتی ہے مگر پیس اولاد کو دِیا جاتا ہے۔ اُن کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ فقط انہیں گِنے چُنے پیشوں میں سے کسی کو اپنائیں اورپھر اس سب کی کوشش میں اُن کے اپنے تمام فن تمام شوق مٹی ہو جاتے۔ کیونکہ بچے تو نا سمجھ ہیں نا؟ اُن کو کیا پتہ کہ سکوپ کِس چیز کا ھے؟۔ آج پینٹنگزبناتے یا فوٹوگرافی کرتے رہ گئے یا پھراخباروں رسالوں میں کہانیاں لکھ لکھ کر اپنے شوق اور قدرتی فن کو نکھارتے رہ گئے تو نامراد کل کھائیں گے کہاں سے؟ یہی خوف ہیں نا؟ یہی باتیں ہیں نا جن کے باعث ہم زبردستی اپنے بچوں کو اس طرف دھکیل دیتے ہیں جس طرف وہ جانا نہیں چاہتے۔ یا اگر بظاہر زبردستی نہ بھی کریں تو بچپن سے اُنکے ذہنوں میں ایسی سوچ بِٹھا دی جاتی ہے جِسے میں ’’بڑا آدمی“ والی سوچ کہا کرتی ہوں کہ پھر وہ ازخود بھول جاتے ہیں کہ اُنکے کچھ خواب ہیں کچھ سوچیں ہیں۔ کچھ کام تھے جو کرنے میں بہت مزا آتا تھا اوراگر وہی کام انکا پروفیشن بن جاتے تو کتنا اچھا ہوتا؟۔

اس ضد کا نقصان کیا ہوتا ہے؟ نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کے بچوں کے لیے پڑھائی ایک خوفناک شے بن کررہ جاتی ہے۔ وہ جو کرتے ہیں بے دِلی سے کرتے ہیں، کبھی بھی اپنے پروفیشن میں اوراپنے فن میں مہارت نہیں پا سکتے۔ پھران کے پاس آپکی پسندیدہ ڈگری توآجاتی ہے مگر علم نا ہونے کے برابر ہوتا ہے اورپھر وہ اچھی کمائی والی پوسٹ پرتو جا بیٹھتے ہیں مگرجاکرپوچھیئے زندگی کتنی بے رنگ کتنی اُداس ھے اُن کے لیے۔

اس کے برعکس اگر آپ اپنے بچوں کو اس بات کی آزادی دیں کہ وہ اپنی مرضی کا مضمون یا اپنی مرضی کا پیشہ چُن سکیں تو یقین جانئے یہ آپ کا اُن پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ زندگی اُنکی ہے اور رازق اُنکا رب۔ سو اُنکو زندگی یوں گزارنے دیجئے کہ بڑھاپے کو پہنچیں تو ماضی کو یاد کرکہ بھر پُور مسکرا دیں کہ واقعی انہوں نے زندگی گزاری ، اپنی زندگی گزاری، اپنے شوق سے گزاری اور بھرپُورگزاری۔

اگرآپ واقعی خواہاں ہیں کہ آپ کے بچے کوئی نام پیدا کریں تو خدارا اُن کو اس فن کو نکھارنے اور اس مخصوص صلاحیت کے ساتھ زندگی گزارنے دیجیئے جو قدرت نے اُنہیں دے کر بھیجا ہے۔ وہ شاید کم کمائیں مگر وہ خوش رہیں گے۔

میں نے پِکاسو کی بات کی تو اب مزید بھی اسکی کچھ باتیں بتا دوں

ایک مرتبہ پِکاسو کسی مارکیٹ میں تھا کہ ایک خاتون آئیں اورآکر اس کی انتہائی تعریف کے بعد آٹوگراف کے طور پرکوئی ڈرائینگ بنانے کی درخواست کر دی۔ پِکاسو نے خاتون کا کاٍغذ قلم پکڑا اور اس پر کچھ بنا کر اسے لوٹا دیا۔ وہ بے انتہا خوش ہوئی اور لوٹنے لگی تو پکاسو نے روکا اور کہا کیا آپ جانتی ہیں اسکی مالیت ایک لاکھ ڈالر ہے؟ خاتوں بے یقینی سے ہنسی اور کہا پکاسو صاحب مذاق مت کیجئے ، آپکو یہ بنانے میں فقط تیس سیکنڈ لگے ہیں۔ پکاسو مسکرایا اور بولا ، “مجھے یہ تیس سیکنڈ میں بنا لینے میں تیس سال لگے ہیں“ ۔

یہ بات تھی۔ مصوری اسکا شوق تھا وہ دِل و جان سے اس پر فدا رہا۔ اس فن میں خود کو نکھارتا ہی چلا گیا۔ مگر ٹھریئے! آپ کوشاید یہ لگ رہا ہے کہ بچپن سے وہ اپنے فن پارے بیچنا شروع ہوگیا ہوگا اوربہت امیر ہوگا؟ ایسا نہیں تھا۔ پکاسو ایک عرصے تک غربت کا شکار رہا۔ وہ جس کمرے میں رہتا تھا اس کو سرد موسم میں گرم رکھنے کے لیے اپنے یہ محنت سے بنے فن پارے جلانے پڑتے تھے۔ ایک عرصے تک اسے کوئی بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی لیکن یہ سب مشقت اسکی قسمت میں لکھی تھی جو اس صورت نہ اٹھاتا تو کسی اورصورت اُٹھاتا۔ پھرآخر اسکا شوق اسکا پیشہ بھی بنا، پذیرائی کا ذریعہ بھی اورفنِ مصوری کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے جگمگاتا اسکا نام بھی کیونکہ پکاسو نے وہ کیا جو اسکا شوق تھا جس خاص صلاحیت کے ساتھ قدرت نے اسے بنایا تھا اور پکاسو کے باپ نے وہ کیا جو ہر باپ کو کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے بیٹے کے شوق کو مدِ نظر رکھا معاشرے میں موجود “سکوپ“ کو نہیں، اپنے بیٹے کا پہلا استاد بن کرخود اسے قدم قدم چلاتا رہا اور آخر اسے پابلو لوئز پکاسو بنا دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پکاسو کو زندگی میں اس شوق کی وجہ سے سخت حالات بھی پیش آئے مگر وہ ازراہِ محبت اور عقیدت اپنے باپ کے پورٹریٹ بنایا کرتا تھا اور کہتا تھا۔ میرا باپ میرا پہلا استاد میری پہلی تربیت گاہ اور میرا محسن ہے۔

آپکے بچے بھی ہمیشہ یونہی آکو سلام پیش کریں گے اگر آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سمجھ تو گئے ہوں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں