اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم کو پیدا کیا پھر آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا۔ جب سے یہ دنیا جہاں وجود میں آئی پہلے پغمبر سے لیکر آخری پغمبر حضورؐ کے وقت تک عورت کے مقام کو بہت اہمیت دی گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی eاللہ عنہا جب اپنے بابا جان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتی تھیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے تھے اورپیارکے لیے ہاتھ تھامتے اور بوسہ دیتے اوراپنے مقام پر بیٹھنےکے لیے کہتے، ایک عورت جب پیدا ہوتی ہے تو پہلی بیٹی اور بہن اس کے بعد کسی کی عزت (بیوی) پھر ماں بنتی ہے۔ ماں کا ایک بہت بڑا رتبہ ہے کہ جو ہمارے لیئے ہر طرح کی تکلیف برداشت کرتی ہے باپ کبھی بھی اپنے بچوں کا خیال ماں کی طرح نہیں رکھ سکتا لیکن ماں وقت آنے پر باپ کے فرائض کو بھی باخوبی انجام دیتی ہے۔
ماں والوں تم خوش قسمت ہو، زندہ تمہاری ماں ہے
جن کی نہیں ہے مائیں، انکا سُونا سُونا جہاں ہے
بہن بھی اللہ پاک کی دی ہوئی نعمت میں سے بہت بڑی نعمت ہے ماں کے بعد گھر میں سب سے زیادہ خیال رکھنے والی، آپ کے ہونٹوں کی جنبش سے پہلے تمام کام کرکے رکھنے والی آپ کی صحت و تندرستی کی فکر کرنے والی۔ گھر میں اگر بہن نہ ہوتو زندگی ادھوری ہے، بہن چاہے اپنی ہو یا دوسرے کی بہن، بہن ہوتی ہے۔ اگر اسے کسی بات کی پریشانی ہوتو دل کرتا ہیں کہ جہاں سر پر اُٹھا لو اوردنیا کی ہراک چیز اس کےقدموں میں رکھ دو۔
لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت صرف ماں بہن اور بیٹی تک ہی سمجھی جاتی ہے۔ آج کا معاشرہ بیویوں کو اپنے پیروں کی دھول سمجھتے ہیں جب کہ وہ سر کا تاج ہوتی ہے۔ افسوس کے صرف اپنی سگی ماں، بیٹی اوربہن کو اپنا سمجھا جاتا ہے ان کے ہر دکھ کو دور کرکے انکی زندگی میں روشیوں کے چراغ بھریں جاتے ہیں لیکن اگر راہ چلتے کسی عورت پر نظر پڑھ جائے یا کسی عورت کا گزر ہوجائے تو اس وقت ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی کے گھر کی عزت ہے بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری بہن ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک چھت کے سائے تلے ساتھ پلنے والی بہن۔ ہاتھ اٹھانے پر انسان اپنی مردانگی سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اس بات سے گریز نہیں کہ جو مرد بزدل ہوتے ہیں وہ عورتوں پر ہی ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ عورت پر ہاتھ اٹھانے سے انسان ناصرف بزدل ہوجاتا ہے بلکہ روزِ محشر ربِ کائنات کے سامنے اُس کے ہاتھ کانپ رہے ہوں گے۔
ویسے تو انسان اکثر اِن باتوں کو بھول کرعورت ذات کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ تاریخ گواہ ہے اُن وقتوں کی کہ جب حوا کی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کبھی تعلیم سے دور رکھنے کے لیئے، کبھی پیاروں کی لاشیں اٹھاتے وقت گولیوں کی بوچھار، کبھی اپنی ضرورت سمجھ کر استعمال اور اسکے بعد بےدردی سے قتل کردی گئی۔ اور بھول گیا انسان اُس وقت کہ یہ بھی کسی کی ماں بہن یا بیٹی ہے۔
گزشتہ دنوں بھی شاید اسلام کے نام نہاد دعویداروں کو ہمیشہ کی طرح اپنی حیوانی تربیت پر عمل پیرا ہونے کا موقع مل گیا تھا۔ اُس وقت بھی اسلام کے ٹھیکداراپنی ماں بہنوں کو بھول گئے تھے، تاریخ کا افسوسناک دن ایک بار پھر اوبھر کر سامنے آیا، جامعہ کراچی میں 8 اکتوبر 2015 بروز بدھ کوکامرس اور انجیئرنگ کی طالبات اپنے فارغ اوقات میں کرکٹ کھیل رہی تھے کہ اس دوران نام نہاد اسلام پسند جماعت کے دہشتگرد وہاں پہنچے اور لڑکیوں کو کرکٹ کھیلنے سے روکا اوران کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ سوچتا ہوں کہ اگر میری بہن بھی وہاں ہوتی تو میرا کیا ردعمل ہوتا شاید قانون کی پاسداری کا خیال نہ کرتے ہوئے میں قانون اپنے ہاتھ میں لے چکا ہوتا اور وہ کوئی بھی انسان ہو اگر کسی کی بہن بیٹی پر تشدد کرے گے تو بالکل اس کے بھی یہی تاثرات ہونگے جو میرے ہیں۔ لڑکیوں کو مار کر وہاں سے بھیج دیا لیکن یہ معلوم نا ہوسکا کہ ان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ عورت ذات کو تشدد کا نشانہ بنائیں اور کسی کی مرضی میں مداخلت کریں یا کسی سے اس کے جینے کا حق چھین لیں۔ نہ تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہمارا ملک پاکستان لیکن افسوس کے ساتھ جب یہ سب ہو رہا تھا تو انتظامیہ اور وہاں موجود دوسرے لڑکے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے لیکن اس جرم میں شریک تمام لوگ یہ یاد رکھیں کہ جن کو مارا گیا ووہ بھی کسی کی بہن اوربیٹی تھی۔
یہ بات جب سوشل میڈیا پر آئی تو جب بھی میڈیا نے اس غیر اخلاقی، غیر مذہبی اور غیر قانونی حرکت کو میڈیا پر نہیں دیکھایا اینکرپرسن بیٹھ کر الیکشن کو ڈسکس کرتے رہے اور حوا کی بیٹی تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہ تھا ٹوئٹر پر اس حرکت پر ٹرینڈنگ ہوتی رہی اور معاملہ دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ لیکن کوئی تھا جو ہمیشہ کہتا تھا(میری ماوں میری بہنوں اور میری بچیوں) آخر کار اُسی کی بنائی گئی طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کے شعبہ طالبات نے اس کے خلاف اکیلے آواز اُٹھائی اور طالبات سے رابطہ کرکے پرزور مزمت کی۔ بلاآخر معاملہ روکا نہیں اور پھر آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کی شعبہ طالبات نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ اور ان جماعت اسلامی کے دہشتگرد ونگ کے خلاف جامعہ کراچی میں مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا جوکہ 2 نومبر 2015 بروز پیر کو جامعہ کراچی آرٹس لوبی کے سامنے کیا گیا جہاں پرپورے ملک میں عورتوں پر ہونے والے مظالم اوراسی کے ساتھ تشدد کا شکار طالبات کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے تمام طالبات ہاتھوں میں پوسٹر اٹھائے پرامن احتجاج کر رہی تھی اس دوران گزشتہ دن کی یاد احتجاجی طور پر تازہ کرنے کے لیئے طالبات کی بڑی تعداد کے درمیان کرکٹ کھیلی جارہی تھی اور اس موقع پر میڈیا نے بھی اپنی بھرپور کوریج دی اور اس احتجاج میں کوریج کے ذریعے ان طالبات سے اظہار یکجہتی کرکے ان کی آواز تمام ان حکمرانوں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور جامعہ کراچی کی خاموش تماشائی اتظامیہ تک پہنچائی جو ان تمام چیزوں پر کوئی ایکشن نہیں لیتے۔
مگر یہ احتجاج کچھ لوگوں کو پھر برداشت نہ ہوا جامعہ میں موجود رینجرز نے آکے صحافی اور میڈیا حضرات سے کوریج روکنے کو کہا شاید وہ پڑھ نہیں پائے تھے کہ احتجاج ان حوا کی بیٹیوں پر تشدد کے خلاف ہو رہا ہے جنہیں اسی تعلیمی ادارے جامعہ کراچی میں جماعت اسلامی کے دہشتگردوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا جوکہ شاید پاک ریجرز کہ علم میں بھی نہیں تھا۔ ابھی رینجرز احتجاج کی کوریج بند کروا ہی رہی تھی کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ اور جماعت اسلامی کے دہشتگرد عناصر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بروقت پہنچ گئے اور انتظامیہ میڈیا کو تشدد کا نشانہ بناتی رہی اور جماعت اسلامی کا عسکری ونگ دو حصوں میں تقسیم ہو کر آدھے میڈیا کو اور آدھے احتجاج میں موجود لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔
ہمارا اسلام کیا اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی لڑکی پر کسی کی بہن ، بیٹی پر ہاتھ اٹھایا جائے؟ افسوس کی بات یہ تھی کہ رینجرز وہاں یہ تمام حالات دیکھ رہی تھی اور عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کے جرم میں انسنگین جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کررہی تھی۔بہنیں اوربیٹیاں امید بھری نگاہوں سے پاک رینجرز کو دیکھ رہی تھی کہ شاید ایک بار دوبارہ ہونے والے اس تشدد پر جوکہریجرز کے سامنے ہوا اس پر ریجرز ایکشن میں آئے گی۔لیکن افسوس میڈیا حضرات کیمراہ مین اور اینکر پرسن کو انتظامیہ اور جمعیت کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور بلآخر میڈیا کو جامعہ کراچی میں بند کردیا گیا۔ لیکن میڈیا کو سلام ہے کہ وہ ان تمام چیزوں پر خاموش نہ رہی اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا نے ان تمام تر حالات کی کوریج کی اور ان بہنوں کا ساتھ نہ چھوڑا۔
جو ہوا اس پر مجھ جیسے قلم کار اور صحافی حضرات آواز اٹھا رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بھی نکلنا لازم ہے ایسے لوگوں سے جامعہ کراچی کو پاک کیا جائے جہاں پر وہ اپنا کلچر طلبہ و طالبات پر زبردستی ڈال رہے ہیں جنہوں نے اسلحہ کی سیاست تعلیمی اداروں میں عام کری۔اس حرکت میں ملوث ان تمام لوگوں کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی حوا کی بیٹی کو تشدد، جنسی زیادتی وغیرہ کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ اور ہم تمام لوگوں کو یہ عزم کرنا ہوگا کہ آئندہ کسی بھی حوا کی بیٹی کے ساتھ کوئی بھی کسی بھی قسم کا تشدد کریں تو اس کا ساتھ یہ سوچ کر دیں کہ وہ ہماری ماں، بہن اور بیٹی ہے۔