ابھی دروازہ کھولا ہی تھا کہ کسی طاقتور چیزنے اچانک دبوچ لیا پہلے چند ساعتیں تو اس افتاد نا گہاں پر کچھ سمجھ نہیں آئی کچھ اوسان بحال ہوئے توپسلیوں سے اٹھنے والی ٹیسوں کو برداشت کرتے ہوئے دماغ گھومایا کہ ایسا کونسا فعل سرزدہو گیا ہے کہ قانون کے شکنجے میںِ کَس لئے گئے ہیں ویسے ہم قانون کا خاصا احترام کرنے والے واقع ہوئے ہیں ابھی ہم شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس اس خفیہ پولیس کے آفیسر کے رینک کا اندازہ ہی لگا رہے تھے کہ جھٹ سے ان کے ساتھی نے ہمیں دبوچ لیا اب تو ہمارے پسینے جھوٹنے لگے ابھی ہم منت سماجت کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ میاں لطف ﷲ بتیسی نکالتے ہوئے (ان کا نام بتیسی اسی لئے پڑا ہے کہ ہر وقت بتیسی نکالے رکھتے ہیں )آئے اور آنکھ کا ایک کونا دبا کر کچھ عجیب واہیا ت سااشارہ کرتے نظرآئے ہم ہونقوں کی طرح معاملے کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرہی رہے تھے کی اپنا نسوار زدہ منہ ہمارے کانوں کے پاس لائے اور فل والیم میں سرگوشی کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولے اپنے قطب اللہ قصائی ہیں ،اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالو قصائی۔
کالو قصائی صاحب پچھلے الیکشن سے پہلے محلے کے چوک میں بڑا گوشت لگایا کرتے تھے پھر گاہکوں سے بگڑکر چھری چلانے کی پاداش میں جیل یاترا بھی کرآئے تھے ۔ پچھلے الیکشن میں اہل علاقے کے بھرپورانکار کے باوجود کھڑے ہو گئے اوراہل علاقے کی بھرپورمخالفت کے باوجود جیت یوں گئے کہ مخالف امیدوارکے حامی رشتے داراس سے کسی بات پربگڑ گئے اور امید وارموصوف کی مٹی پلید کرنے کے لئے حلقہ کے سب سے کمزور امیدوارکو جتوا دیا جس دن رزلٹ آیا اس دن تو قصائی صاحب کو بھی اپنی جیت کا یقین ناآیامگر جب یقین آیا تو اسکے بعد حلقہ میں نظر نہیں آئے صرف حکمراں پارٹی کے ایم این اے کے ساتھ پائے جاتے اب اچانک سامنے دیکھ کراورحلیہ میں اتنی تبدیلی دیکھ کر ہم پہچان نہیں پائے ، بھلاہو میاں لطف ﷲ بتیسی کاکہ اس نے تعارف کروادیا۔آئے کالو۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔قطب اللہ صاحب تشریف رکھیئے۔ہم نے مروتاً کہا۔کیا رکھیئے۔۔ مطلب بیٹھئے۔۔۔ نا نا بیٹھنا میں نے نہیں ہے کالو صاحب ایک دم بدک پڑے۔ اللہ خیر رکھے بیٹھے گاتو وہ طیفا (مخالف اُمیدوار) چلیں کوئی بات نہیں کھڑے کھڑے ہی بات ک لیتے ہیں ہم نے بھی بات بدلی، ہاں یہ ٹھیک ہے ۔اب قصائی صاحب ہم سے ہمارے بچوں اور بچوں کے بچوں کا حال چال پوچھ رہے تھے اور ساتھ میں ہمارے گھر والوں اور سب احباب بلکہ پورے محلے کے ووٹوں کی یقین دہانی چاہتے تھے ہمیں ہکّابکاّ دیکھ کر ایک بار پھر میاں لطف اﷲبتیسی ہماری مدد کو آئے اوربولے یہ تو اپنے ووٹربھی ہیں اور سپوٹر بھی بس آپ انکی طرف سے بے فکر ہو کر آنکھیں بند کرلیں آیئے آگے چلتے ہیں ملک صاحب گھر سے نکل نہ جائیں ۔ ہا ں ہاں آگے چلتے ہیں کہہ کر آگے آگے قصائی اور پیچھے پیچھے ساراگروپ ملک صاحب کے گھر کی طرف ہو لیا مگر جانے سے پہلے قصائی صاحب نے ہمیں ایک بار پھر بھینچنا یاد رکھا۔
ابھی ہم اپنی پسلیوں کی ٹکور ہی کرر ہے تھے کہ ایک بار پھر بیل بجی بادال نا خواستہ باہر نکلے تو لطف الدین انصاری صاحب کوموجود پایا لطیف الدین انصاری صاحب کی گلی کی نکڑ پر کریانہ کی دکان ہے کالو قصائی کی پراگرس دیکھ کر اس بار انہوں نے بھی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اپنے گھر کے واٹرٹینک پر جہازی سائز کاشیر کا مجسمہ نصب کروادیا اور صبح شام حکمران پارٹی کی تعریفیں کرنے لگے ساتھ میں مقامی ایم این اے کے ڈیرے کے چکر بھی کاٹنے لگے مگر ٹکٹ تو قطب الدین قصائی کو مل گیا انصاری صاحب نے راتوں رات شیر کا مجسمہ اتاردیا اوربڑا سارا بَلّا لٹکا دیا ،اب ہر آنے والے گاہک کو پہلے حکومتی نااہلی اوربدعنوانی پر لکچر دینے لگتے پھر مقامی لیڈروں کا کچاچھٹا کھولتے، ہم نے تو اسی لئے سودا بھی دوسری دکان سے لینا شروع کردیاکہ کس کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ ان کا لیکچر آدھا گھنٹہ سنے خیر چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لئے ان سے ہاتھ ملایا، مگر پھر انصاری صاحب نے بڑھ کر گلے لگالیا مگر ان کی گرفت قصائی والی نہ تھی ان کے ساتھیوں میں سے اچانک میاں لطف ﷲ بتیسی نکل کر سامنے آیئے اورپھروہی واہیات اشارہ اورمکر وہ بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے ہماری گلو خلاصی کروائی کے یہ تو اپنے ہی بندے ہیں آپ بے فکر ہو جائیں آج پہلی مرتبہ ہمیں میاں لطف ﷲ معقول انسان لگ رہے تھے اور ہم دل ہی دل میں انکے بہت شکرگزارہوئے۔
شام کی چائے پر ہم بیٹھے انکے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کے میاں لطف ﷲ پھر آن دہمکے، حیرانی ہے آپ ہمیشہ کھانے یا چائے کے وقت پر ہی تشریف لاتے ہیں کبھی کبھی تو ہمیں شک گزرتا ہے کہ ہمارے گھر میں انکا کوئی مخبر ہے جو جناب کو اطلاع کردیتاہے کہ کھانے پینے کے لئے کچھ تیارہے موصوف آن دہمکتے ہیں، چھوٹتے ہی بولے چوہدری صاحب کیا کھارہیں ہیں؟ دوائی کھا رہا ہوں، ہم نے منہ بنا کر کہا،ارے میری طبیعت بھی بہت خراب ہے لاؤ دوائی کھلاؤ یہ کہتے ہوئے مو صوف نے میز پے پڑے برتن سے خشک میوہ جات کی مٹھی بھرلی۔ تم نے یہ کیاتماشا بنایا ہوا ہے جس مرضی اُمیدوار کے ساتھ چل پڑتے ہو اوراُسے میرے پاس لانے کی کیا ضرورت تھی جبکہ تمہیں پتا ہے کہ میں ووٹ شوٹ کے جھنجٹ میں نہیں پڑتا ،ہم نے بھی کلاس لی۔ اس بات کو چھوڑوچوہدری یہُ سنو کہ حلقے میں سیاست کی کیاخبریں ہیں، مجھے نہیں سننی کوئی خبریں وبریں،ہم نے بھی جان بوجھ کر بے اعتنائی ظاہر کرتے ہوئے کہا،ہمیں پتا تھا کہ اگر ہم دلچسپی ظاہر کرتے تو اس نے خوامخواہ سرپے چڑھنا تھا۔ قصائی نے تو وہی جادوکی جپھی والی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جہاں کوئی بھلا مانس نظر آیا اسے ایسا بانہوں میں جکڑتا ہے کہ جب تک اگلا بندہ ووٹ کے لیے ہاں نہیں کردیتا اس کی گرفت سے نہیں نکل سکتا ،بتیسی نے خبریں دینا شروع کیں ،ہم بظاہر اسکی طرف سے لا پرواہ بیٹھے تھے مگرہمارے کان اسی کی طرف تھے اور وہ اس بات کو جانتا تھا ،ابھی کل جمعے کی نماز پر کیا ہوا، یہ کہہ کر اس نے بھی ہماری طرف جواب طلب نظر وں سے دیکھا ،ہم نے بھی بس نظروں ہی میں اسے جواب دیا ،ابھی امام صاحب نے سلام پھیرا ہی تھا کہ جھٹ سے کالو نے اسے اپنی گرفت میں جھکڑ لیا نمازیوں نے بڑی مشکل سے اسکی گلو خلاصی کروائی کہ امام صاحب کو دعا تو مانگ لینے دو، یہ تو خیر اس نے اپنے لیڈر سے ہی سیکھا ہے،ہم سے رہا نا گیا،سابقہ لیڈربولو اس بار وہ بلّے کی نہیں شیر کی طرف ہے، بتیسی نکالتے ہوئے اسنے ہمارے اکلوتے لقمے کو ردکرتے ہوئے کہا، اسی لئے ہم اسے زیادہ منہ نہیں لگا تے ، مگراس کے ساتھ انصاری نے جو کر دیا ہے وہ بھی اسے یاد رہے گا، یہ کہہ کر وہ پھرہماری طرف دیکھنے لگا،ہم بظاہر چائے پینے میں مگن ر ہے ، تھوڑا وقفہ کر کے پھر خود ہی بول پڑا یہ کالو قصائی جیت کے لئے بڑی کوشش کر رہا ہے مقامی ایم این اے کی ایماء پر بیچارے نے نیا ٹرانسفارمر لگوایا خودتو کہیں کمپین کے لئے گیا ہوا تھا انصاری صاحب نے دیکھا کہ بندے ٹرانسفارمر بدلنے آئے ہوئے ہیں تو فوراً ٹھنڈا لے کرپہنچ گئے او ر سارا وقت انکے ساتھ گپیں ہانکتے رہے اسی طرح اس سے پہلے جب اسڑیٹ لائٹس ٹھیک کرنے والے آئے تب بھی انہیں ایک ایک بوتل پلا کر انصاری صاحب نے سارا کریڈیٹ خود حاصل کر لیا بعد میں کا لو قصائی صاحب سر پیٹتے رہے کہ یہ سب میری کو ششوں سے ہوا ہے مگر انصاری صاحب نمبر ٹانکنے میں کامیاب ہوچکے تھے، یہ تواسنے اپنے لیڈروں والا کام کیا ہے دوسروں کے منصوبوں پر اپنے نام کی تختی لگا کر کریڈٹ لینے والی بات، یہ ہمارا دوسرا لقمہ تھا، چوہدری تیری یاداشت کا بھی ﷲ ہی حافظ، بندائے خدااب انصاری کا لیڈربلّے ولا ہے شیر والا نہیں، مجبوراًہمیں پھر منہ بسورنا پڑا ویسے اتنا قصور تمہارا بھی نہیں جس طرح آج کل سیاستدان پارٹیاں بدلتے ہیں بندے کے لئے یاد رکھنا کوئی آسان کام نہیں ،ہمارا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر اُس نے بتیسی نکالتے ہوئے کہا۔
اس دوران گلی میں ایک طرف سے تیرابھائی میرابھائی کالو قصائی کالو قصائی اور دوسری طرف سے طیفا انصاری سب پر بھاری کے نعروں کی آوازیں آنے لگیں اور ہمیں اپنے حلقے کے سیاستدان قومی سیاستدانوں کے کیری کیچراور اپنا حلقہ ملکی سیاست کا کیری کیچرنظر آنے لگا۔