The news is by your side.

قلم سے قلب تک – لندن والوں کا شکریہ

لندن ایک تاریخی شہر ہونے کہ ساتھ ساتھ دنیا کی سیاسی اتار چڑھاؤ میں بھی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے،لندن پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے ۔ لندن صرف کرکٹ کا ہی گھر نہیں ہے  بلکہ یہاں سے دنیا جہان کہ لوگوں نے تہذیب و تمدن کا درس لیا۔  لندن کی عمارتیں اور سڑکیں آج بھی بادشاہت کا جاہ و جلال رکھتی ہیں ان عمارتوں میں دنیا کا بہت سیاہ و سفید پوشیدہ ہے ، لندن ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں ماضی اور حال ایک ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں یہ کل اور آج کا حسین امتزاج ہے  بالکل اسی طرح یہاں ماضی کی بادشاہت بھی زندہ ہے اور جمہوریت کی بھی اعلی ٰاقدار نافذ العمل ہیں۔اس شہر میں وہ تخت ہے جس کی سلطنت میں کہا جاتا ہے کہ سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

لندن میں مقامی لوگوں کی اکثریت ہے  تو وہاں کا میئر بھی کوئی مقامی ہی ہونا چاہئےشائد آپ لوگ ایسا نہ سوچتے ہوں مگرحقیقت کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ صادق امان خان وہ نام ہے جو گزشتہ کچھ دنوں سے دنیا کی پرنٹ اور ٹیلی میڈیا کہ ساتھ ساتھ سماجی میڈیا کی بھی رونق بنا ہوا ہے ۔ صادق خان لندن کے میئر چنے گئے ہیں اور لندن میں صادق خان خارجی ہیں کیوں کہ ان کے والد امان اللہ خان ہجرت کر کہ لندن میں رہائش پذیر ہوئے ۔ امان اللہ صاحب نے بطورٹرک ڈرائیور پچیس سال محنت کی۔صادق خان کی والدہ نے کپڑے سئے لیکن لندن والوں نے معاشرتی برابری کی ایک اعلی ٰمثال قائم کردی ۔

یہ چناؤ پاکستان میں ہونے والے چناؤ سے قطعی مختلف تھے یہی وجہ ہے کہ کسی قسم کی دھاندلی کا شور تو کیا ایسی کوئی  آوازتک نہیں سنائی دی ۔ نہ ہی الیکشن کمیشن کو فوج اور رینجرز کہ دستے منگوانے کی کوئی ضرورت پیش آئی اور نہ کسی امیدوار نے حکومت سے ایسا کوئی تقاضہ کیااورنہ کسی حلقے کو حساس قرار دیا گیا۔

صادق خان میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ انہیں لندن کہ لوگوں نے اپنا مئیر چن لیا۔انہیں اس بات کا کیسے یقین ہوگیا کہ ایک غیر مذہب انکے مسائل کیسے سمجھے گا اور ان کو حل بھی کرے گا۔یہ ایسا وقت ہے جب ساری دنیا میں مسلمانوں کی اہلیت اور قابلیت غرض یہ کہ ہر چیز کو بہت مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور پرکھا جاتا ہے ۔دنیا دو ناموں کو بہت اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی، ایک جس کہ نام کہ ساتھ ‘محمد’ لکھا اور دوسرا جو اپنے آپ کو ‘خان’ کہلاتا ہومگر پھر بھی صادق خان لندن کہ ایک ایسے فرد کو شکست دے کر اقتدار میں آئے ہیں جو بنیادی طور پر لندن کہ مقامی رہایشی ہونے کہ ساتھ ساتھ لندن کی معیشت میں بھی اپنا قلیدی کردار رکھتے ہیں لندن کے لوگوں نے صادق خان کو اپنا مئیر بنا دیا۔

آخر لندن کے لوگوں نے ایسا کیا ثابت کرنے کیلئے کیا ہے پہلی چیز کیا وہ رواداری کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انکو ڈرایا گیا ہو ایک بات اور بھی ہو سکتی ہے کہ صادق خان کو مئیر بنا کر لندن میں رہنے والے مسلمانوں کی بھرپور جانچ پڑتال کی جائے گی یا پھر لندن کو مسلمانوں کی تعداد کو قلیل کیا جائے گا یا ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ۔اگر ان باتوں میں سے ایک بھی بات نہیں تو آخر وہ کون سا ایسا رازہے جس پر سے پردہ اٹھنے کیلئے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔

لندن والوں نے ایک ایسی اعلی ٰمثال قائم کی ہے کہ مجھے لکھتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ وہ ایک مہذب معاشرہ ہے اور دنیا میں مہذب  معاشرت کہ بانی ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا کہ “اگرتمھیں کوئی حبشی غلام سیدھے اور سچے راستے (قرآن کہ مطابق) پر لے کر چلے تو اس کے پیچے چل پڑنا۔ ہمارے نبی ﷺ نے تمام انسانیت کو رنگ و نسل سے اعلیٰ و اہم قرار دیا۔ صادق خان کی جیت میں ہمیں ان باتوں کی جھلک نہیں نظر آتی۔

ایک طرف بنگلادیشی حکومت اور بنگلادیش کی عوام نے امت مسلمہ کا سر شرم سے جھکا دیا ہے تو دوسری طرف لندن کہ لوگوں نے انسانیت کی فتح کا ایک عملی نمونہ پیش کیا ہے ۔ تعلیمات تو ساری دنیا بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے تھیں۔ ساری دنیا تو لگ رہا ہے کہ عمل کر رہی ہے بس نہیں کر رہے تو اے میرے نبی ﷺ ہم مسلمان ہی آپ سے زبانی کلامی محبت کہ داعی بنے بیٹھے ہیں۔

لندن والوں کا دل کی گہرایئوں سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کسی تفریق کو صادق خان کی قابلیت اور اہلیت کہ درمیان حمائل نہیں ہونے دیا۔لندن والوں آپ نے دنیا کہ سامنے مسلمانوں کی اہلیت اور قابلیت کا علم بلند کیا ہے ۔ ہم آپکے اس اقدام کہ بہت شکر گزار ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں