The news is by your side.

یہ وقت بھی گزر جائے گا

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

ہم سب محمود و ایاز سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔۔۔۔۔اس واقفیت کی اہم ترین وجہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے مذکورہ بالاشعر کی مدد سے دونوں شخصیات کو اردو ادب میں امرکردیا۔وہ اپنے کردار کی وجہ سے تو تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں۔ اب ذرا اس تعلق کہ حوالے سے یہ پڑھئے ’’سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا اس پر ایسا جملہ لکھوا دو جس کو میں خوشی میں پڑھوں تو غمگین ہو جاؤں اور غمی میں پڑھوں تو خوش ہوجاؤں‘‘۔۔۔۔۔۔ایاز نے اس پرایک سادہ سا مگر تاریخی فقرہ لکھوا دیا وہ یہ تھا ” ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔۔

آپ اگر پاکستانی ہیں اور پاکستانی سیاست پر ایک طائرانہ نظر ڈال سکتے ہیں تو آپ کو اس جملے کی بازگشت سنائی دے گی۔ پاکستان میں اس جملے سے بھرپور مستفید ہونے والی بڑی بڑی ہستیاں موجود ہیں جو اس جملے کا حقیقی مقصد و معنی سلطان محمود غزنوی اور ایاز سے کہیں زیادہ سمجھ گئے۔ پچھلی دو دہائیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ جملہ ہر طرف سنائی دینے کہ ساتھ ساتھ نظر بھی آئے گااورہر مسئلہ جس کی نشاندہی آپ کریں گے وہ آپ کو یہی کہتا سنائی دے گایعنی گاڑی جیسے چلانی ہے ویسے ہی چلے گی اوراس کی سمت کا تعین بھی ہم خود کریں گے۔ اس جملے کو صادق کرانے میں ہمارا (عوام الناس ) بہت بڑا ہاتھ ہے بلکہ ہاتھ کیا ہم ہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے سیاستداں صرف اور صرف اپنی ہی فکرمیں اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ایسے ایسے مباحثے کرتے ہیں کہ عاقل کی عقل دنگ رہے جائے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ سڑکوں پہ نکلنے کے لئے مسائل کی سنگینی سے آگاہ کرانے کے لئے کوئی تیار نہیں۔

دنیا جہان میں عوام کہ حقوق ادارے اور حکومتیں بھرپور طریقے سے ادا کرتی ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی عوام اپنے حقوق پر قدغن برداشت نہیں کرتے، وہ سڑکوں پرنکل آتے ہیں اور اپنے حقوق واپس لے کر ہی گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے عوام کے حکمراں اپنی ذمہ داریوں کو بہت احسن طریقے سے سمجھتے ہیں اور انہیں انجام دیتے ہیں بلکہ عوامی خدمات کی مثالیں قائم کرنے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔

مجھے بہت تکلیف کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا پھرتا ہے۔ کوئی گدھے کا گوشت بیچتا ہے تو کوئی کروڑوں ڈالر بیگ میں ڈال کر دنیا کی سیرکو نکل جاتاہے۔کوئی جعلی دوائں مریضوں کی مشکل آسان کرنے کے لیے بناتا ہے تو کوئی عوام کا پیسہ اپنے ذاتی علاج معالجے پر خرچ کرتا ہے اور تو اور کچھ لوگ حکومت میں اس لیے آتے ہیں کہ انہیں دنیا کی سیرکا شوق ہے۔

حکومت کے درجے سے نیچے اتریے اور عوام میں آئیں دکھائی دیتا ہے کہ کوئی موٹر سائیکل والے کی تلاشی لے کر اسے لائسنس نہ ہونے پربیس روپے لے کر جانے دیتا ہے تو کوئی کچرا گھر کا دورازہ کھول کر دیکھے بغیرہی پیھنک دیتا ہے۔ کوئی بیچ شاہراہ ہر دوران ڈرائیونگ موبائل فون پر محوگفتگو نظر آتاہے تو کسی کو فٹ پاتھ نشہ کر نے کی بہترین جگہ لگتی ہے۔ کوئی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کی تلاشی لے کر بڑی مستعدی کا مظاہرہ کر رہا ہے اوروہیں بڑی بڑی گاڑیوں کو بغیر روکے سلوٹ مار رہا ہے۔ کوئی اپنی سہولت کے لیے سڑک کھود رہا ہے تو کوئی اپنی مرضی سے پانی کی لائن ڈال رہا ہے۔ عام گلی اور شاہراہ میں کوئی تمیز نہیں ہے۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کو بری طرح سے گالیاں بک رہے ہیں لڑرہے ہیں۔تہذیب و تمدن کہ لفظوں سے نہ آشنا لوگ ذہنی مریضوں کی مانند اکیلے بیٹھے ہیں تو خود سے ہی باتیں کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم پیدا ہوئے تھے اور ہمیں مرجانا ہے، یعنی ذہنی طور سے معذور ہوئے جارہے ہیں۔ تعلیم وتربیت اورشعور سے عاری ہوچکے ہیں۔ اس ملک میں عزت دار وہ کہلاتا ہے جو حقیقت میں ۔۔۔۔۔۔ خیر جانے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے پیارے وطنِ عزیز کے عوام کا حال ہے۔

مذکورہ بالا معاملات کی وجہ سے ہمارے حکمران خوشی خوشی حکومت کرتے رہتے ہیں اورکرتے رہتے ہیں۔ مخالف جماعتیں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں، اپنی باری کی آس میں، بس یوں سمجھ لیجئے کہ سب مل بانٹ کر ہم عوام کی بے حسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزے کرتے رہتے ہیں۔ کل جب یہ لوگ مرجائیں گے تو ان کی اولادیں معتبر ہوجائیں گی، ہمارا خون چوسنے کے لیے تیار ہوجائیں گی۔ عوام عوام ہی رہیں گے۔ گیس، بجلی، پانی، نادرا کی لائنوں میں کھڑی رہے گی۔ پیدائش کا سرٹیفیکیٹ بنوانے سے لے کر مرنے کا سرٹیفیکیٹ بنوانے تک ہم یونہی لکھتے رہیں گے اس نے یہ کردیا اس کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ محمود غزنوی کو جناب ایاز نے مذکورہ فقرہ پاکستانی قوم کی حالت قبل از وقت دیکھ کر کہا ہوگا۔ دور اندیشی کی نظر سےیہ بھی اپنے سلطان کی خدمت میں عرض کیا ہوگا کہ ایک قوم ایسی بھی آئے گی جسے صرف اسی فقرے کہ سہارے زندگی گزارنی ہوگی۔ اب سمجھ میں آتا ہے وہ غلام کتنا ذہین تھا۔

اے ربِ کائنات ہمیں کوئی ایاز جیسا ہی حکمران دے دے۔ ہمارے حکمران (کسی بھی سیاسی و مذہبی پارٹی سے وابسطہ ہوں) اور ہم عوام دونوں ہی اس جملے کہ سہارے قبر تک کا سفر کیے جا رہے ہیں۔

وہاں تو انگشتری پر لکھوایا تھا یہاں تو ہمارے دلوں پر لکھا ہوا ہے، ہماری آنکھوں کی پتلیوں پر لکھا ہوا ہے، ہماری سماعتوں پر لکھا ہوا ہے کہ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں