پاکستان کے وجود میں آنے سے 3 سال قبل 8مارچ1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر ضیاء الدین کے ظہرانے میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایاکہ’ ہم پاکستان بھیک یا دعائیں مانگ کر حاصل نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ پربھروسہ کرتے ہوئے اس مقصدکے لیے جدوجہدکرکے ہی حاصل کرسکتے ہیں‘۔تحریک پاکستان کے دوران بے شمارجانی ومالی قربانیاں دینے کے بعد ملک تومعرض وجود میں آگیا اور پھر1971ء میں دولخت بھی ہوگیالیکن 68سال گزرنے کے باوجودقومی زبان اردو کا مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم اورعوامی امنگوں کے مطابق قومی زبان اردوکوسرکاری اور دفتری زبان کے طورپررائج کرنے کے ساتھ اس کانام تبدیل کرکے’ پاکستانی‘ زبان رکھاجائے اس سلسلے میں سیاسی ومذہبی جماعتوں،سماجی تنظیموں، وفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سے عملی اقدامات کیے جائیں کیونکہ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے جتناکام پاکستانی ادیب وشعراء نے کیااتناکام برصغیرکے دیگرممالک میں کہیں نہیں ہوا۔ان میں شاعر مشرق علامہ اقبال، بابائے اردومولوی عبدالحق، فیض احمد فیض ، احمدفراز،پروین شاکر،میرگل خان نصیر،شیخ ایاز اور دیگربے شمار حضرات شامل ہیں۔داغ دہلوی نے کہاہے کہ
اردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں دھوم ہماری زباں کی ہے
پاکستان میں یکجہتی پیداکرنے والاسب سے اہم عنصراسلام ہے کیونکہ مذہب کی بنیاد پرہی یہ ملک وجودمیں آیا ہے‘ بحیثیت قوم ہماری اپنی زبان،ثقافت اور فطرت ہے جوہمیں اقوام مغرب اوردیگرسے ممتازکرتی ہے جس کے تحت ہم اپنی زندگی گزاناپسند کرتے ہیں‘اردوواحد زبان ہے جو ملک بھرمیں بولی اورسمجھی جاتی ہے‘برصغیرکے مسلمانوں کا صدیوں پراناقدیم ورثہ ہے جوان کی غیرت وحمیت کی علامت ہے ۔علامہ اقبال نے کیاخوب کہاہے کہ
اپنی ملت پرقیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ؐہاشمی
اردوکو سرکاری زبان قراردینے سے عوام کاراستہ سرکاری خط وکتابت اورقوانین تک کھل جائے گا ‘کوئی بھی معاشرہ جزااورسزا کے تصورسے خالی نہیں ہے‘اچھے کام پرلوگوں کوانعام سے نوازا جاتااوران کی توقیر کی جاتی ہے جبکہ جرائم پرسزا دی جاتی ہے‘ہمارے ملک میں سرکاری زبان انگریزی ہونے کے باعث یہ تصورختم ہوکررہ گیاہے۔ ایک عام فردروزمرہ کے سرکاری اورعدالتی امورکے لیے انگریزی کامحتاج ہے جووہ لکھ، بول اورسمجھ نہیں سکتا‘ ملک میں لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام کوملکی قوانین کے بارے میں علم ہی نہیں تووہ کیاان پرعمل اورکیااپنے حقوق کی حفاظت کریں۔ پُرامن پاکستان کے لیے اردو کوسرکاری وفتری زبان قراردیناضروری ہے تاکہ عوام ملکی قوانین کوسمجھ کران عمل کرسکیں کیونکہ امن وامان کے بغیرکوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔حبیب جالب نے کیاخوب کہاہے۔
نہ ڈگمائے کبھی ہم وفاکے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہواکے رستے میں
انگریزی زبان کومسلط کیے رکھنے کی ضدنے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے‘رواں سال8ستمبرکوسابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمدخان اورجسٹس فائز عیسیٰ پرمشتمل تین رکنی بنچ نے اردوکوسرکاری و دفتری زبان کے طورپرنافذکرنے کافیصلہ دیاہے۔ اس بنچ پرمیرتقی میر کایہ شعر صادق آتاہے۔
بارے دنیامیں رہوغم زدہ یاشاد رہو
ایساکچھ کرکے چلویاں کہ بہت یادرہو
پیپلزپارٹی کی حکومت نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سربراہی میں شکست خوردہ مملکت کوناصرف نئے سرے سے استورکیا بلکہ 1973ء کا متفقہ آئین دینے کے ساتھ اس ملک کوقومی زبان اردو بھی دی جوملک بھرکے عوام کوخیبرسے کراچی تک جوڑتی ہے۔اردوکانام تبدیل کرکے پاکستانی رکھنے سے ملک میں اتحادویکجہتی کی فضانظرآئے گی جوہمیں بحیثیت قوم زندہ کرسکے گی اس سے پاکستانی ثقافت کونمایاں فروغ ملے گااورعالمی برادری اچھی طرح سمجھ لے گی کہ جس طرح جاپان ،چین ، عرب ممالک،فرانس اورانگلینڈ میں حسب ترتیب جاپانی،چینی، عربی،فرانسیسی اورانگریزی بولی جاتی ہے اس طرح پاکستان میں پاکستانی بولی جاتی ہے جو دنیاکے لیے مثبت پیغام ہو گا۔آج ملک کے ہرحصے میں فرقہ واریت، صوبائیت اور قومیت پرستی کی باتیں ہورہی ہیں ہرایک اپنے حقوق کی بات کرتا جبکہ فرائض کونظراندازکردیتاہے۔انتخابات میں کامیابی کے لیے خصوص طورپربعض جماعتیں ناک طریقے سے اس حربے کواستعمال کرتی آرہی ہیں۔ ان باتوں کوشاعرمشرق نے اپنے اشعارمیں اس طرح قلم بندکیاہے۔
حرم پاک بھی ،اللہ بھی ،قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیں ذاتیں ہیں
کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
ہمیں قومی یکجہتی کے لیے تمام عصبیتوں کی زنجیریں توڑکر اپنے ملک کے نقصان کواپناذاتی نقصان سمجھناہوگا بلکہ قومی وسیع النظری اپناتے ہوئے ملک میں قانون کی حکمرانی، تعلیم کے فروغ اورجدید ہتھیاروں کی تیاری پرتوجہ دیناہوگی کیونکہ کسی بھی قوم کوزندہ رکھنے کے لیے یہ تینوں چیزیں آکسیجن کا کام کرتی ہیں۔ یورپ کاملک اسپین جہاں مسلمانوں نے 750سال تک حکومت کی ‘ وہاں کے مسلم حکمران حکم ثانی بن عبدالرحمن ثالث نے اپنے قابل بھائی مغیرہ بن عبدالرحمن ثالث کونظراندازکرکے نابالغ بیٹے 11سالہ ہشام ثانی بن حکم ثانی کواپناولی عہدبنادیاجس کے باعث ملک کا نظم ونسق اوردفاع تباہ وبربادہوگیا۔ اس کے بعد تمام صوبوں کے گورنرخومختارہوگئے اورملک میں طوائف الملکوکی پھیل گئی‘ ترقی اورجدید علوم ضائع ہوگئے لیکن اسی دوران وہاں ایک ادارہ وجود آگیاجس سے وابستہ مسلمان ،عیسائی اوریہودی ماہرین نے مسلمانوں کی اس وقت کی جدیدعلوم کی کتابوں کے ترجمے یورپی زبانوں میں کرناشروع کردیے کیونکہ وہ جانتے تھے ان کتب سے استفادہ اسی صورت میں کیا جا سکتاہے جب ان کاترجم یورپی زبانوں میں کرلیاجائے۔اسی طرح پاکستان کی تعمیروترقی اورامن واستحکام کے لیے جدید یورپی علوم کی کتابوں کاترجم اردوزبان میں ہوناضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں انگریزی بولناہی قابلیت کی معراج سمجھ لیاگیاہے ۔اسپن میں مسلمانوں کی نادانیوں کی وجہ سے جوکچھ ہواان کے ساتھ ہوا اس کے لیے مرزاغالب کا شعریہ کہا جاسکتا ہے۔
نکلناخلدسے آدم کاسنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو،ہوکرترے کوچے سے ہم نکلے
وسطی ایشیا سے آنے والے یکے بعد دیگرے مسلم حکمران اردوکی بنیادرکھنے کے بجائے اپنی مادری زبانوں (عربی،فارسی، ترکی) کوہندوستان میں رائج کرتے ایک ہزارسال حکومت کرنے کے بجائے ان کی سلطنتیں ایک دوصدیوں میں ہی ختم ہو جاتیں۔ عمرکوٹ سندھ میں پیداہونے والے مغل تاجدارجلال الدین اکبر نے ہندوستانی ریاستوں کو’اردو‘کی مددسے وحدت کی لڑی میں پرودیاجوفارسی ،عربی ،ترکی اوردیگر علاقائی زبانوں پرمشتمل ہے۔قومی زبان اردو اور پاکستان کی مختلف علاقائی زبانوں نے ایک دوسرے پراتنااثرڈالاہے کہ اُردو کے بعض الفاظ سندھی اورسندھی کے بعض الفاظ اردومیں بے تکلفی سے استعمال ہوتے ہیں ‘سندھی اورپنجابی میں بھی بہت سے الفاظ مشترک ہیں اسی طرح پشتو اوربلوچی کی کیفیت ہے اردو چوں کہ ہماری قومی زبان ہے لہٰذااس میں ساری علاقائی زبانوں کے اثرات موجودہیں بلکہ یہ کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ یہ تمام علاقائی زبانوں کامجموعہ ہے‘ہماری تمام زبانیں بڑی ملنسار ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کالحاظ بھی کرتی ہیں ‘قومی زبان کے ساتھ مل جل کر ملک میں علم وآگہی کوفروغ دے رہی ہیں ۔ پاکستان میں اتحادواتفاق برقراررکھنے کی خواہش ہرمحب وطن پاکستانی کے دل میں ہے۔ ہمارااتحاد واتفاق اس لیے ہے کہ ہم سب ایک اللہ تعالیٰ کے ماننے والے اورایک رسولؐ کے امتی ہیں ‘ ہمارے مفادات اورمقاصدمشترکہ ہیں‘اس اتحادویکجہتی کوہماری قومی زبان اردوبھی تقویت دیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اردوکانام تبدیل کرکے ناصرف ’پاکستانی‘ رکھاجائے بلکہ اس کوسرکاری وفتری زبان قراردینے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔
ضرب عضب آپریشن کے ذریعے امن وامان کی صورتحال بہت بہترہے جس کے باعث سرمایہ کاری فضاسازگارہوتی جارہی ہے جوبہت خوش آئندعمل ہے۔خواجہ الطاف حسین حالی کے اس پراپنی تحریر کااختتام کرتاہوں۔
یارب نگاہ بدسے چمن کوبچائیو
بلبل بہت ہے دیکھ کے پھولوں کوباغ باغ