دنیا اپنی بھر پور رعنائیوں کہ ساتھ چلی جا رہی ہے لوگوں کی آمد و رفت لگی ہوئی ہے ۔دنیا میں لاتعداد زندگیاں روزانہ جنم لیتی ہیں اور انگنت لوگ زندگی کی بساط سمیٹ کردارِفانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔ انسان کے پیدا ہونےکی خوشیاں منائی جارہی ہیں اورفوت ہونے والے آہوں اور سسکیوں میں رخصت کئے جا رہے ہیں۔ دنیا میں آسائشوں اور سہولیات کہ لحاظ سے لوگوں کی مختصرتعداد خوشحال ہے اوراس کہ برعکس دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد دنیاوی آسائشوں اور سہولیات سے محروم ہونے کی وجہ سے بدحال ہے۔ قدرت کا کاروبار چل رہا ہے اور چلتا رہےگا۔
اللہ نے حضرت آدم علیہ اسلام کوتخلیق کیا اور تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کو سجدہ کریں۔ اللہ کے حکم کی فرشتوں سے زیادہ کون بجا آوری کرے گا مگرایک ایسا تھ جو کہ فرشتوں کا سردارتھا اس ایک حکم کی تعمیل سے منکر ہوگیا اور حضرت آدم علیہ اسلام کو سجدہ کرنے سے منع کردیا۔ جوازپیش کیا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے میں سجدہ کیسے کروں۔ ’’مشیتِ الہی‘‘، اس اہم ترین فرشتے سے ساری اہمیت چھین لی گئی، اسے جنت سے نکال دیا گیا، اسے ابلیس قراردیا گیا اور رہتی دنیا تک کے لئے راندائے درگاہ قرار دے دیا۔ بس اس کے بعدخدا کے بندوں کوورغلانے کی ذمہ داری اس ابلیس نے اٹھالی بس یہ وہی وقت تھا کہ انسان کی مشکلات کا سلسلہ شروع ہوگئی، خیر اورشرکی جنگ شروع ہوگئی، اسی دن سے انسان حق اور باطل کی جنگ میں برسرِپیکار ہوگیا۔
ہمارے آباؤاجداد کو اس نافرمانی کا بہت اچھی طرح پتہ تھاہمارے والدین کو بھی اس نافرمانی کا بہت اچھی طرح پتہ ہے۔ اب ہم اپنی اولاد کو یہی سبق پڑھا رہے ہیں، شیطان کی پیروی نافرمانی سے ہی شروع ہوتی ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہمارے آباؤاجداد نے یا ہمارے والدین نے اس بات پراتنا غور کیا کہ نافرمانی کی شروعات کہاں سے ہوئی، نہیں لگتا نہیں کہ اس اہم ترین سانحہ کو اتنی اہمیت دی گئی بلکہ نافرمانی پرنافرمانیاں ہوتی گئیں۔
یہ مسئلہ ہمارے خاندان کا نہیں، ہمارے شہرکا نہیں، پاکستان کا بھی نہیں بلکہ یہ مسئلہ یقینا ساری دنیا کا ہے۔ ساری دنیا اس نافرمانی کی لپیٹ میں ہے۔ معاشرے میں بنیادی نافرمانی اپنے والدین کی نافرمانی کرنےسے شروع ہوتی ہےاور اس کے بعداساتذہ اس کا نشانہ بنتے ہیں اور پھر یہ نا فرمانی پیشہ ورانہ ماحول میں ساتھ ساتھ گھومتی پھرتی ہے۔ اس نافرمانی سے ہوتا کیا ہے۔ اس نافرمانی سے ، نافرمانی کرنے سے ہم اس پہلے (ابلیس) نافرمان کہ اہلکار بن جاتے ہیں اوراب جو ابلیس کا اہلکارہوگا اس سے کیا کسی اچھے اور نیک کام کی توقع کیا جاسکتی ہے یقینا نہیں!
اگر ہم اپنی معاشرتی نافرمانیاں لکھنا شروع کریں تو ایک طویل فہرست بن جائے گی بالکل ایسا ہی حال ہے ہماری ان نافرمانیوں کاہے جو ہم اپنے مذہب یا اپنے رب کہ ساتھ کررہے ہیں۔ایک طرف تو دنیاوی نافرمانیاں ہیں تو دوسری طرف اللہ رب العزت کی نافرمانیاں، پھرہم کہتے ہیں کہ سکون نہیں ہے زندگی میں، سکون کہاں سے آئے گا ہم تو کسی اور کہ آلہ کاربنے پھررہے ہیں جو بے ترتیبی کا بانی ہے ہم اس کی مان رہے ہیں۔ سجدے پرسجدے، زارزاررونا، نظر نیاز اورچڑہاوے۔یہ سب کچھ فرمانبرداری سے بچنے کے لئے کر رہے ہیں۔ کیا نہیں کررہے اپنے رب کو منانے کے لئے ۔ فرمانبردار ہوجائیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا سوائے نافرمانیوں سے پیچھا چھڑوانے کہ فرمانبرداری ہی تو عبادت کا اہم ترین جز ہے۔ فخر سے، ادب سے، تعظیم سے آپ اس کے ہی سامنے کھٹرے ہوسکتے ہو جس کہ آپ فرمانبردار ہوتے ہو، ورنہ توسب وقت کا ضیاع ہے۔
نہ صرف ایک عام انسان کی بلکہ خاص انسانوں کی (جن کہ ذمہ انسانیت کو سدھارنے کا ذمہ دیا گیا ہے یا خود انہوں نے لیا ہے)۔ ایک نافرمانی کی ایسی سزا ہوتی ہے کہ اپنے انتہائی خاص فرشتے کو بھی نہ بخشاجائے، اورہم نے نافرمانیوں کی دکان کھول رکھی ہے، نافرمانی در نافرمانی۔
اگر اس تحریر سے اتفاق ہے تو پھرنافرمانیوں سے پیچھا چھڑوانے کا عہد کریں، عہد کس سے کریں، جناب اپنے رب کے ساتھ فرمانبرداری کریں اور اپنے ساتھ عہد باندھیں، اللہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے،،،، آمین۔