The news is by your side.

جب ہندوستان گونجا’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعروں سے

 آج کل کشمیریوں کے جدوجہد آزادی ایک بار پھر سر چڑھ کر بول رہی ہے کشمیر کی حالیہ صورتحال نے نہ صرف بھارتی حکومت کو پریشان کر رکھا ہے بلکہ پوری دنیا میں کشمیریوں کے اس جذبے کو ملے جلے انداز میں دیکھا جارہا ہے لیکن میرے لئے کشمیریوں کا جذبہ حیران کن نہیں ہے۔

عالمی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ دو ہزار سولہ کی کوریج کے سلسلے میں بھارت جانے کا اتفاق ہوا، ہر شہرکا الگ الگ تجربہ رہا بھارت تاہم موہالی میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کے جس نے مجھے حیران بھی کیا اور تھوڑا پریشان بھی، میچ شروع ہونے سے قبل اسٹیڈیم پہنچا اور اپنا میڈیا ٹکٹ وصول کیا اورپھر پاکستانی شائقین کرکٹ کی تلاش میں میدان کے باہرآگیا ان سے جاننا چاہتا تھا کہ بھارت سے شکست کے بعد اب آپ کی کیا توقعات ہیں میرا اندازہ تھا کہ میدان کے باہردو سے ڈھائی سو پاکستانی  تماشایوں موجود ہوں گے مگرجب میں انٹری پوائٹ پر پہنچا تو وہاں ہزاروں افراد پاکستان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے جنہیں دیکھ مجھے بہت حیرت ہوئی۔

ابھی تو میرا پہلا اندازہ تو غلط ثابت ہوا تھا، میرا دوسرا اندزہ یہ تھا کے بھارت آنے والوں میں زیادہ تر تعداد پنجاب کے لوگوں کی ہوگی کیونکہ موہالی پاکستانی پنجاب سے قریب ہے مگر وہاں موجود تمام افراد لال سرخ اور گورے چٹے تھے تو میں نے سوچا کہ اتنے سارے پٹھان بھائی یہاں کیسے آگئے کیونکہ وہ تمام بوم بوم آفریدی کے نعرے لگا رہے تھے میں ان کے قریب گیا اور میں نے  ان سے کہا واہ بھائی آپ اتنے لوگ پاکستان کو سپورٹ کرنے آگئے  اور پھر انہیں اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں پاکستان میڈیا سے ہوں۔

بس یہ الفاظ ادا کرنے تھے وہ نوجوان ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بھائی پاکستان سے آئے ہیں اور میرے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہوگئے، پھر کیا تھا کوئی ہاتھ ملانے لگا تو کوئی گلے ملنے لگا اورپھر انہوں نے روائیتی انداز میں نعرے میں دل دل جان جان پاکستان پاکستان کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ میں نے اپنے نیوز چینل کا مائیک نکالا اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا اورسوال کیا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں اور کیا آج کا میچ پاکستان جیتے گا، وہاں موجود افاراد نے پورے جوش سے کہا کہ ہم کشمیری ہیں اور پاکستان ہماری جان ہے ہمارا خون ایک ہے اور ایک دن ہم ضرور ایک ہوجایئں گے۔

اطراف میں موجود موہالی پولیس اور انڈین آرمی کی طرف ان نوجوانوں نے اشارہ کیا اور کہنے لگے کے یہ لوگ ہم پر قابض ہیں، اس صورتحال نے مجھے تھوڑا پریشان کیا کیونکہ بھارتی سرزمین پر یہ صورتحال میرے لیے بھی کچھ نہ کچھ مسائل پیدا کرسکتی تھی بہرحال میں نے پاک نیوزی لینڈ کے حوالے سے رکارڈنگ کی اور کراچی ہیڈ آفس بھجوادی۔ میں نے ان کشمیریوں سے پوچھا کے یار آپ ڈرتے نہیں  ہیں فوج کے سامنے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگارہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کے ہم مر جایئں گے مگر ان کی غلامی برداشت نہیں کریں گے اور کچھ لوگ مزید جذباتی ہوگئے اورمیرے ہاتھ چومنے لگے میں نے کہا ارے بھائی آپ یہ کیا کررہیں تو وہ نوجوان رونے لگا اوراس نے کہا کہ بھائی آپ کو اندازا نہیں میں زندگی میں پہلی بار کسی پاکستانی سے مل رہا ہوں ہم تو پاکستان سے ملنے کے لیے تڑپتے ہیں میں نے اس نوجوان کو گلے لگایا او کہا آپ نے میری پاکستانیت جگا دی۔

میچ شروع ہونے والا تھا اور میں میڈیا باکس چلا گیا خیر میچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ہار گیا میں نے سوچا کے یار وہ بچارے کشمیری بھی مایوس ہوکر چلے گئے ہوںگے وہاں شاہد آفریدی نے کشمیریوں کی جانب سے پاکستان ٹیم کی حمایت پر شکریہ ادا کردیا تھوڑی دیر میں آفریدی کے اس بیان کو پورے انڈین میڈیا نے خوب نشانہ بنایا اب ہم بھی پاکستان ٹیم کی شکست کے بعد مایوس دامن لپیٹے ہوٹل پہچ گئے۔ اگلا میچ آسٹریلیا سے موہالی میں ہی ہونا تھا اور پاکستان ٹیم چانسز کی بنیاد پر کھیلنے کے لئے تیاری کررہی تھی پریکٹس ڈے پر ہی ٹیم کے مورال کافی گرا ہوا تھا میں نے سوچا اب تو کوئی پاکستان کو سپورٹ کرنے نہیں آئےگا اپنے ہوٹل پہنچے اور آرام کے لئے لیٹا ہی تھا کہ ہمارے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو چار لال سرخ گورے چٹے نوجوانوں پر نظر پڑی۔ انہوں سوال کیا کہ  کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں مجھ سمیت دیگر ساتھیوں نے کہا جی ہاں ہم پاکستانی جرنلسٹ میں انہوں نے کہا ہم کشمیرکے مختلف علاقوں سے ہیں اور اجازت طلب کی کیا ہم آپ کے روم میں بیٹھ سکتے ہیں۔ ہم نے کہا جی بلکل مجھے ابتدا میں لگا کے یہ کوئی انڈین اجنسی کے لوگ ہیں جو کہ ہماری معلومات کے لئے آئے ہیں مگر بعد میں یہ احساس ختم ہوگیا خیر وہ لوگ کہنے لگے کے ہم اسی ہوٹل میں رکے ہیں اور ہم پاکستان کا میچ دیکھنے کشمیر سے آئے ہیں  میں نے سوال کیا کے یار اب بھی آپ پاکستان ٹیم کو سپورٹ کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کے کیوں نہ کریں پاکستان سے کوئی ہار جیت کا رشتہ تھوڑی ہے ؟اور ہم یہاں شاید آفریدی کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں، کیونکہ انہوں نے ہمارا نام لے کر ہمارا شکریہ ادا کیا ان میں سے بیشتر لوگ شاہد آفرید کی ریٹائرمنٹ کو لے کر بھی خاصے سنجیدہ تھے اورآفریدی کو واقعی دل سے چاہتے ہیں بہر حال انہوں نے ہم سے پاکستان کے حالات کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا۔ کسی کو کراچی، کسی کو لاہور تو کسی کو اسلام آباد کی فکر تھی انہوں نے کہا کے ایک دن آئے گا جب ہم ایک ہوجائیں گے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ سیلفیز بنوایئں اور کشمیر میں بھارتی ظلم کی بھی باتیں کرتے رہے اور یقین جانیے ان کی خوشی ایسی تھی جیسے سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی ہو۔ ایک نوجوان جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور آنکھیں چھلک سی گئیں کافی دیر یہ نشست جاری رہی ہمیں علم ہوا کے اطراف کے کافی ہوٹل کشمیریوں سے بھرے ہوئے ہیں جو پاکستان ٹیم کی سپورٹ کرنے آئے ہیں۔

جب دوسرے دن ہم اسٹیڈیم پہنچے تو وہاں کشمیریوں کی بہت بڑی تعداد جمع تھی جو پاکستان ٹیم کو سپورٹ کرنے آئی اور وہی جذبات جو پچھلے میچ میں دکھ رہے تھےان افراد کی عمر کا اندازہ لگایا جائے تو تمام افراد اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان کے تھے اور ان کے دلوں میں بھارت کی نفرت اور پاکستان کی محبت واضح تھی یہاں مجھے ایک نوجوان ملا اسے نے مجھے بتایا کے جموں کشمیر میں بی سی سی آئی کوئی انٹر نیشنل میچ اس لئے نہیں کرواتی کیونکہ وہاں کا کراوٗڈ بھارت مخالف ہے بہرحال وہاں جاکر احساس ہوا کے واقعی کشمیریوں کی جدوجہد میں کافی دم ہے اور بھارت کو کشمیریوں کو رام کرنا آسان نہیں۔ وہاں کی نوجوان نسل آزادی کے جذبے سے سرشار ہے اور یقین کیجئے انہوں دیکھ کر مجھے بھی اپنے پاکستانی ہونے پر پہلے سے زیادہ فخر محسوس ہوا۔

Print Friendly, PDF & Email