The news is by your side.

قلم سے قلب تک: داخلی مسائل بمقابلہ خارجی مسائل

ناجانے کیوں دل اہم ترین معاملات پربہت بے رحمی سے اپنی رائے دینے کے لیے مچلنا شروع کردیتا ہے، جیسے کوئی بچہ اپنے والدین کہ ساتھ بازار میں اپنی پسند کی کوئی بھی شے دیکھ کر مچلنا شروع کردیتا ہے۔ اب دل کے اس بے رحمی سے مچلنے کی وجہ وہ معاملات ہیں جو تقریباً عرضِ پاک پر قدم رکھنے والے، چلنے والے ہر دیہاتی و شہری کو درپیش ہیں (غور کرنے سے پتہ چلے گا کہ اب دیہات اور شہر کا فرق تقریباً ختم ہی ہوچکا ہے، بجلی گاؤں میں بھی نہیں ہے ادھر شہر والے بھی اس نعمتِ سرکار سے محروم ہیں، نکاسی آب کا مسئلہ گاؤں میں بھی ہے اور شہرکی سڑکیں بھی دریاؤں کا سامنظر پیش کرتی ہیں۔، شائد کوڑا کرکٹ کہ معاملے میں گاؤں ہم سے اچھے ہوں کیونکہ ہماری تو ہرگلی، سڑک اورمیدان کچرا کنڈی کا نمونہ پیش کررہا ہے، اسی طرح پینے کاصاف پانی کہیں بھی دستیاب نہیں اس کہ برعکس بیشترامورگاؤں دیہاتوں میں شہروں سے اچھے ہوں گے۔ اب پاکستان کہ شہرتو نام کے شہر رہ گئے ہیں، نہ کوئی پوچھنے والا ہے اورنہ ہی کوئی سننے والا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس کا وزیرِاعظم ملک میں ہو یا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا جس کا جو دل چاہ رہا ہے، کیے جارہاہے۔ کم ازکم کراچی کی صورتحال تو ایسی ہی ہے۔

مذکورہ بالا باتیں دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ہم نے دل کہ مچلنے کا تذکرہ کیا تھا، حکومتِ وقت اور اپوزیشن کتنی خوبصورتی سے وقت کو برباد کر رہے ہیں۔ محترم وزیرِاعظم صاحب کا ملک میں داخلہ کیسا شایانِ شان ہوا یہ دیکھنے والوں نے دیکھا اور پڑھنے والے پڑھ کر بیٹھ گئے۔ اب اسے وزیرِ اعظم صاحب کی خوش نصیبی جانیے یا قوم کی بد نصیبی کہ جس دن انہوں نے پاک سرزمین پرقدم رکھنے تھے قوم کوایک ایسا صدمہ برداشت کرنا پڑا (ایدھی صاحب کی وفات) جسے قومی سانحہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ وزیرِاعظم صاحب بہت خاموشی سے آئے اور اپنے محل میں روپوش ہوگئے۔

حکومتی لوگوں کو جو کہ ان کہ خاندان کے افراد بھی ہیں، اپوزیشن کہ ساتھ مل کروقت کو گزارنے کا مشن سونپا ہوا ہے۔ دوسری طرف کشمیر جنت نظیر کہ حالات کا ایک دم سے خراب ہونا، لگتا ہے داخلی مسائل سے عوام کا دھیان ہٹانا ہے۔

بھارتی دراندازی کا نیا دور چل رہا ہے۔ دنیا کوآج تک بھارتی افواج کی دہشت گردی نظر نہیں آئی اورنہیں آرہی۔ دوسری طرف دنیا کے کسی بھی کونے میں کچھ ہو جائے تو اس کچھ کرنے والے کا تعلق پاکستان سے بنا ہی دیتے  ہیں۔ یہ چیز تو دنیا کو بند آنکھوں سے بھی نظر آجاتی ہے اور پاکستان مخالف میڈیا پاکستان کی تحضیک کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوئے دنیا جہان کی دہشت گردی پاکستان سے وابستہ کردیتا ہے۔ پاکستان اگر کشمیر کا حامی نہ ہوتا تو کوئی شک نہیں کہ دنیا بھارتی فوج کی وردیوں میں ملبوس بھارتی فوجیوں کو پاکستانی دہشت گرد کہنا شروع کردیتی اور ساری اندھی بہری دنیا بھی اس بات پریقین کر لیتی۔ بھارتی حکومت مزید فوج کشمیر بھیج رہی ہے، آج اخبارات میں ہمارے قومی رہنماؤں نے جو بیان سب سے زیادہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ’’دنیا بھارتی جارحیت کا نوٹس لے‘‘۔ بھارتی جارحیت کی کوئی حد نہیں ہے کشمیری بوڑھوں، نوجوانوں اور بچوں پر بیہمیانہ تشدد کی کئی اعلیٰ مثالیں قائم کررکھی ہیں تو دوسری طرف دنیا کے انصاف کے ٹھیکے داروں کے لیے آج کہ اخبارات میں شائع ہونے والی چودہ سالہ انشال ملک نامی بچی کو ظلم اور بربریت کی منہ بولتی تصویر بنا دیا ہے۔ کہیں کوئی آہ کی آواز تک نہیں آئے گی۔ خون ہمارا بہہ رہا ہے ہم دوسروں سے مدد کی اپیل کئے جا رہے ہیں، آخرہم پاکستانی کب تک اپنے فیصلوں کے لئے دنیا کی طرف دیکھتے رہیں گے۔

بھارتی مظالم کا سلسلہ بہت دیرینہ ہے معلوم نہیں ایسی کون سی معاملہ فہمی ہمارے حکمران کے ذہنوں میں پوشیدہ ہے جس کو لے کرایسی چپ سادھے بیٹھے رہتے ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ دوسری طرف الٹا چور کوطوال کو ڈانٹے کی مثال پر کاربند بھارتی بیان کہ ’’پاکستان دہشت گردوں کا حامی ہے‘‘۔ یہ خبر خصوصی طور پر ہمارے ان تمام سیاست دانوں کے لئے تحفہ ہے جو بھارت سے تعلقات بڑھانے کے حق میں رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دہشت گرد (بھارت) کہ حامی ہیں۔

بھارت اپنی دہشت گردی صرف کشمیریوں کی جانیں اور عزتیں پامال کرنے تک ہی محدود نہیں رکھے ہوئے ہےبلکہ سماجی میڈیا پر بھی اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کہ فیس بک اکاؤنٹ بلاک کروا رہا ہے جو اس کا بھیانک (اصلی) روپ دنیا کہ سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن یہ تو روزِازل سے طے ہے کہ’’حق رہنے کے لیے ہے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے‘‘۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ جنگ شروع کردیں مگر دنیا کہ جتنے فورم ہیں بالخصوص اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے مندوبین کو مدعو کریں، سلامتی کونسل کا اجلاس بلائیں، اسلامی کانفرنس کا اجلاس ہنگامی بنیادوں پربلائیں، دولت مشترکہ کا اجلاس بلائیں۔ غرض یہ کہ ہرسطح پربھرپورطرح سے کشمیریوں پرہونے والے مظالم بند کروانے کے لئے کوشیشیں کریں۔

کشمیر میں جہاں انگنت قیمیتی جانوں کا نظرانہ پیش کیا جا رہاہے وہیں ہندو درندے وحشیانہ کاروایوں سے بھی باز نہیں آرہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا مسلمانوں پرہونے والے مظالم پرکب سرجوڑکربیٹھے گی یا دنیا سرجوڑکربیٹھی ہوئی ہے صرف اسی کام کے لئے کہ مسلمانوں کا استحصال کیا جائےکیوںکہ ہم تو اپنی حالت پرخود ہی رحم نہیں کھا رہے تو کسی اور سے کیا توقع رکھیں کہ وہ ہمارے لئے کوئی پر امن حل نکالیں گے۔ جی نہیں بالکل نہیں، ہم مسلمانوں کے لیے اور خصوصی طورپرپاکستانیوں کے لئے کوئی پرامن ڈھونڈنے کے لئے تیارنہیں۔

یہ تمام وہ حقیقتیں ہیں جن سے ہم انفرادی طور پر نمٹنا چاہ رہے ہیں یعنی پاکستان کا ہر شہری یہ سوچ رہا ہےکہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے اورپاکستان کمزور سے کمزور ہوا جا رہا ہے۔ ہم بٹے جا رہے ہیں، سیاسی و مذہبی جماعتیں روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں پیدا ہو رہی ہیں، کوئی لسانیت کو فروغ دے رہا ہے تو کوئی فرقہ واریت پر کمر کسے ہوئے ہیں۔ مزے کرنے والے مزے کررہے ہیں اوردشمن اپنی چالیں بہت احسن طریقے سے چل رہا ہے۔

دوسری جانب پانامہ لیکس اوردیگر اہم داخلی مسائل حل کرنے کے لیے جن میں بلدیاتی اختیارات کی منتقلی کا معاملہ بھی بہت اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے اسے جلد سے جلد حل کیا جائے۔اس کے لئے کوئی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے اور خارجی مسائل پرتمام حکومتی اور اپوزیشن کہ اہم اراکین ایک میز پر بیٹھ جائیں اور دنیا کو پیغام دیں کہ ہم داخلی مسائل کو اپنے وطن عزیز کی بقاء کی خاطرنظراندازکردیتے ہیں۔ ہمیں ہمارے ملک کی کشمیر اور کشمیریوں کی فکر ہے۔ عوام ان مسائل میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ دشمن ان الجھے ہوئے لوگوں کو اپنے کسی ناجائز اور ملک دشمن عمل میں ملوث نہ کردے۔ خداکے لیے پاکستانی ہو کر سوچئے،ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے خود ہی نمٹنا سیکھیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں