The news is by your side.

شہر کی صفائی بے حد ضروری ہے، چاہے جرم ہو یا کچرا

شہر کی صفائی بے حد ضروری ہے، چاہے جرم ہو یا کچرا

سا ئیں سرکارکا رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کرنا اوراندرون سندھ آپریشن پرخفا ہونا حیران کن ہے کراچی ایک

طویل عرصے سے جرائم کے خلاف آپریشن سے گزررہا ہے جس کو مختلف حلقوں اور سیاسی رہنماؤں کی ستائش حاصل

ہے اور یہ بات لائق تحسین بھی کہ جرائم میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے، کراچی منی پاکستان ہے ملک بھر سے

لوگ آتے اوریہاں بستے ہیں اسی لئے جرائم بھی ہوتے ہیں لیکن اس طرح کے مسائل کے پی کے، پنجاب، بلوچستان اور،
اندرون سندھ بھی دوچارہے۔ محض کراچی آپریشن ملک بھرسے جرائم کے خاتمہ کے لئے ناکافی ہے اس طرح کا آپریشن

ہرصوبے میں ہونا ضروری ہے، بالخصوص اندرون سندھ  جہاں کھلے عام ڈاکو جدید اسلحے سے لیس دندناتے پھرتے ہیں۔ کاروکاری، ونی، قران پاک سے شادی، غیرت کے نام پرقتلِ عام ہے، پھروڈیرہ شاہی غریب مزارعوں پرظلم اورتشدد نے عام فرد کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔

گھوسٹ اساتذہ اورتعلیمی ادارے گھوسٹ بن کر ہمارے نوجوان کا مستقبل نگل

رہے ہیں یہ وہ تمام عوامل ہے جو غریب ہاری کے بچوں کے مستقبل پر ہل چلا رہے ہیں ’’روٹی، کپڑا اورمکان کے نعرے

کی گونج کہیں کھوگئی ہے۔ کراچی کی طرح اندرون سندھ بھی آپریشن کی ضرورت ہے۔ صرف کراچی نہیں پاکستان سے بد

عنوانی لاقانو نیت کا خاتمہ ضروری ہے، ضربِ عضب نے دنیا بھرمیں پاک افواج کے وقار کو سربلند کیا ہے اسی طرح کا

آپریشن اندرون سندھ مین کرنےکی ضرورت ہے۔

اس کے بعد ایک اورخبرنے ہلچل مچادی کہ تین دن میں شہرصاف ہوجائے ورنہ کمشنرکراچی گھرجائیں اس سلسلے میں کمشنرصاحب نےمیڈیا پرآکربتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے صرف ’ضلع جنوبی‘ کی صفائی کے لئے کے احکامات صادر فرمائے ہیں، کمشنر کراچی کی وضاحت کی سائین سرکارکا یہ حکم ضلع جنوبی کے لئے  تھا کئی سوالات کو جنم

دے رہا ہے۔

اور 3 دن میں کراچی صاف ہونا چاہئے، وزیراعلیٰ کا کمشنر کو الٹی میٹم بھی سوال ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ اچانک نیند سے کیسے جاگے ؟

اب تو کراچی روشنیوں کا شہرکم اور کچرے کا شہرزیادہ لگتا ہے کراچی کے بجائے ’کچراچی‘ کہا جائے توغلط نہ ہوگا

کراچی کا کچرا نئی بات ہے اورنہ اس شہرکا پانی چوری ہونا کوئی نئی بات، پھربھی یوں لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ

قائم علی شاہ اچانک نیند سے جاگے اورمیگا سٹی کراچی کو تین دن میں صاف کرنے کا شاہی فرمان جاری کردیا۔ نہ کراچی

کا کچرا نئی بات، نہ پانی چوری، پھراچانک وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نیند سے کیوں جاگے؟ اچانک ایسا ایکشن میں

آئے کہ پانی کے غیرقانونی کنکشنز کے کے خلاف بلاتفریق آپریشن کرنے اور 8کروڑ ماہانہ کمانے والے پانی چوروں کی

فوری گرفتاری کا حکم دے دیا ساتھ ہی تین دن کے اندر اندر سارا کچرا اٹھانے کا شاہی فرمان جاری کردیا۔ لیکن سوال یہ

ہے کہ پانی چور جانے کب سے ہر ماہ آٹھ کروڑ کماتے ہی تھے، شہری توپانی نہ ملنے اور ان تکالیف کے عادی ہوچکے

تھے، اچانک وزیراعلیٰ کو چور کیوں برے لگنے لگے  گرفتاری کا حکم کیوں جاری کردیا؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ مہینوں سے جمع ہونے والا کچرا صرف تین دن میں اٹھے گا کیسے؟

لگتا ہے کسی نے سی ایم صاحب کو بلدیہ عظمیٰ کی اہلیت کے اور وسائل کے بارے میں بتایا نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے

مطابق کراچی میں یومیہ 12ہزار ٹن کچرا بنتا ہے اوربلدیہ کے پاس روزانہ 12ہزار ٹن کچرا اٹھانے کی اہلیت ہے ہی

نہیں، چند ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ، کچھ جلادیا جاتا ہے اورکچھ کچرا اگلے دن کے کچرے میں شامل ہوجاتا ہے

،ایسے میں سی ایم صاحب کا یہ اعلان سمجھ سے باہر ہے۔ کراچی سے روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، صرف 4

ہزار ٹن اٹھایا جاتا ہے،8ہزار ٹن کچرا یا تو آبی گزرگاہوں، نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے،  ذرائع کے

مطابق حکومت نے ایک ہزار ڈمپسٹرز خریدنے کی تیاری کرلی ہے۔

ادھر کمشنرکراچی اعجازاحمد خان کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ نےپورےکراچی کوصاف کرنے سے متعلق کوئی احکامات نہیں دیئے، پوراشہرنہیں صرف ضلع جنوبی کو صاف کرنے کے لیے کہا ہے ہے، وزیراعلیٰ رات کو نکلے تھے جس کے بعد انہوں نے صفائی کے لیے کہا، میڈیا وزیراعلیٰ کے بیان کو اپنے طور پر چلا رہا ہے۔ میڈیا اگریہ بیان نہ بھی چلائے تو شہر کو جس طرح یتیموں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے وہ شہریوں میں احساس محرومی کو جنم دے رہا ہے اورحکومت کوکیا لگتا ہے کہ میڈیا کے خاموش ہوجانے پر وہ مسائل حل ہوجائیں گے،  شہر بھر میں گندگی کے ڈھیر ابلتے گٹر مچھروں کی بہتات شہریوں کے لئے کئی بیماریوں کو آواز دے رہے ہیں۔

ضلع وسطی، شرقی، غربی، پورا کراچی  بے آسرا چھوڑ کر وزارت کے مزے لوٹنے والوں کو کوئی کیسے

سمجھائے کہ جو رعایا ووٹ دے کر اپ کو یہاں تک پہنچاتی ہے وہ اگر جاگ گئی تو کیا ہوگا. شہر با آسانی صاف ہو سکتا

ہے کرنا صرف یہ ہے کہ ایک ٹول فری نمبر دیجئے اسکی تشہیر کیجئے اور ساتھ احکامات فرمائے کہ جس ڈی ایم سی

میں گندگی پائی جائے  گی اس کے کمشنر ڈپٹی کمشنر کو ہٹادا جائےگا، سزا ہوگی جرمانے ہوں گے سب ٹھیک ہو جائے اگر

سخت باز پرس ہو  مگر تین دن کے اس الٹی میٹم کی وجہ سامنے آگئی، ظاہر ہے کمشنر کے پاس جادوئی چراغ نہ تھا

جووہ تین دن میں مہینوں کی غلاظت صاف کرتے تو خبر آئی کہ یہ ٹھیکہ پرائیویٹ کمپنی کو دیا جارہا ہے جبکہ اسی طرح

کا منصوبہ سالڈ ویسٹ منجمنٹ کے تحت کام نہیں ہوا یا اسے پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ادارے موجود ہیں حکومتی ارکان

کو سنجیدگی سے ان سےکام لینے کی  ضرورت ہے ۔