ہم اسلامی جہموریہ پاکستان میں رہتے ہیں جہاں ہمارے لیے کم و بیش ہردن یومِ سیاہ کہ طورپرنمودارہوتا ہے یا کبھی کبھار دن کہ بیچ سے شروع ہوجاتا ہے۔ ہم اسی دن کی تیاری میں اپنے دن گزارے جا رہے ہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جن کے لئے یومِ سوگ منا رہے ہوتے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان بھی کوئی ملک ہے۔ ہمارے معمولاتِ زندگی میں اہم ترین معاملات جنازے اٹھانا، سوگ منانا، شمعیں جلانا، سیلفیاں بنانا اورآنسو بہانا رہ گئے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم پاکستانی اس حادثے، اس سانحے کہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ متاثرین شمار کرتے ہیں اور خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ آج دنیا میں پاکستانی بطور دہشت گرد، اشتعال انگیز، غیرت مند اور اس طرح کہ دیگر کئی القابات سے یاد کئے جا رہے ہیں۔ دنیا ہمیں پاکستانی مسلمان سمجھی ہے اورہم ایک دوسرے کو پنجابی، مہاجر، پٹھان، بلوچی اورسندھی سے پہچانتے ہیں یا پھردیوبندی، بریلوی، شیعہ، شافعی نا معلوم کن کن حوالوں سے تفریق کرکے جانتے ہیں۔ کسی پرانگلی اٹھانا ہمارے معاشرے کا سب سے محبوب مشغلہ ہے اورجو کہ بہت ہی آسان ہے۔ اصلاح کرنا یا اصلاح کی بات کرنا، کوتاہیوں کا ازالہ کرنا نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام دیکھائی دیتاہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس رنگ و روشنی کی دنیا میں اس کا حصہ بننا یا مشہور ہونے کا شوق کسی بھی انسان کے دل میں کبھی بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ شوق بھی عقل سے ماوراء اورجذبات سے بھرپور ہوتا ہے بالکل محبت کی طرح۔ کبھی تو انسان دل میں انگڑائیاں لیتے شوق کو وقت کی بے رحمی کی نظرکردیتا ہے اوردو وقت کی روٹی کمانے کی تگ ودو میں مگن ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے شوق کی تکمیل کرپاتے ہیں اوربہت کم لوگ اس بات خاطرمیں رکھتے ہیں کہ وہ بلندی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے صحیح یاغلط راستے سے گزررہے ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ استعمال بھی ہوجاتے ہیں کبھی صحیح لوگوں کہ ہاتھ تو اکثر معاشرے کہ برے لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں۔ پھرایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ شہرت کا بھوکا شخص بھول جاتا ہے کہ اسے کبھی مشہور ہونے کا شوق تھا۔
بیسویں صدی کی آمد سے معاشروں میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہم شکستگی کا شکاراسلامی معاشرتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔ معاشرتی ترجیحات بہت تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئیں، معاشرے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی اس وقت کہ طفیل گھر کے امورومعاملات میں بھرپورشرکت کی جاتی تھی، رشہ داروں اور محلہ والوں کی خبر گیری کی جاتی تھی، مسئلے مسائل بیٹھ کرحل کیے جاتے تھے، غرض یہ کہ ایک دوسرے کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی روایات تھیں۔ پھر وقت قلیل ہونا شروع ہوااوروقت کی قلت کہ سبب نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری میڈیا نے لے لی۔ میڈیا پر کسی کی حکمرانی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسلامی اقدار معدوم ہونا شروع ہوئیں۔ میڈیا سے متعلق سارے وسائل ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی نئی نسل کے حوالے کردئیےجن میں کمپیوٹر سے شروع کرتے ہوئے بات موبائل ٹیبلیٹ اوردیگرپرپہنچ گئی۔ اس طرح کی چیزوں نے انسانوں میں طبعی دوریاں پیدا کردیں۔ اب طبعی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت قلیل ہوچکا تو سماجی اقدارکی منتقلی کا کام بھی کم و بیش متروک ہوتا جارہا ہے۔ بچے بہت جلدی بڑے ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہماری مصروفیتوں کہ باعث احساس سے عاری پرورش ہو رہی ہے۔ ان تمام ترخرابیوں کا الزام کسی ایک رشتے پرنہیں ڈالا جاسکتا۔ پورے کا پورا معاشرہ اورمعاشرے کی ہراکائی اس سارے بگاڑ میں برابر کی شراکت دار ہے۔
فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ بھی پاکستان کہ ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی تھی جہاں رات تاریکی سے پہلے ہی ہوجاتی ہے۔ گھریلو کام کاج بھی جلدی سمٹ جاتے ہیں اوربظاہر کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ پرانے وقتوں میں یہ لوگ سرشام ہی بستروں میں چلے جاتے تھے اورمنہ اندھیرے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے لیکن جب سے کیبل (ہم سب اس سے واقف ہیں) کی نشریات عام ہوئی ہے اوراس کا ایک نا ٹوٹنے والا تسلسل جاری و ساری ہے تو یہ سادہ لوح لوگ بھی اس کے چنگل میں پھنستے چلے گئے۔ دوسری طرف انٹرنیٹ کی سہولت بھی ان لوگوں تک پہنچ گئی ہے وہ بھی کبھی معطل نہیں ہوتی۔ اب نئی نسل کے لئے باقی سارا وقت ان چیزوں کے لئے بچتا ہے۔ ہمارے معاشرے نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ تعلیم ہونہ ہو مگرانٹرنیٹ کے لئے استعمال ہونے والی تمام مصنوعات بہت احسن طریقے سے استعمال جاسکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: قندیل بلوچ کا فیس بک اور انسٹاگرام اکاونٹ ہمیشہ کے لیے ختم
مذکورہ بالا سطورکو ذہن میں رکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا صرف قندیل بلوچ کے بھائی کو ہم مجرم قراردے سکتے ہیں، معلوم نہیں کتنی فوزیہ اب تک غیرت کہ نام پراپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکی ہیں اوران کو خاموشی سے ان کے مدفن میں دفن کردیا گیا ہوگا۔ پورا معاشرہ، پورا پاکستانی معاشرہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔
ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کتنے ہی کیسزمیڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ کیا ہم اسلام سے پہلے والے دور میں واپس جارہے ہیں؟۔ دنیا نے ہمیں پیچھے دھکیلنے کے لئے ہمارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ ہم خود بخود اندھی گہرائی میں گرتے چلے جائیں۔ دنیا کی چکا چوند کسی کی بھی آنکھیں خیرہ کر سکتی ہے، جہالت کا دور دورہ ہے، جنسی بے راہ روی اپنے عروج پر ہے، کیا ہم لوگ جانتے بوجھتےاپنی بڑھتی ہوئی آنے والی نسلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ و برباد ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے؟؟؟۔ فراز نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔
قصہ ظلمتِ شب سے کہیں بہترہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
سینہ کوبی، نوحہ خوانی اورآہ و فغاں سے کچھ نہیں ہونے والا، عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اپنی نسلوں کو معاشرتی ضابطہ اخلاق مرتب کر کہ دینے ہوں گے، انہیں اقدار منتقل کرنے ہوں گے۔ ان میں رشتوں کی پاسداری کا فن پیدا کرنا ہوگا۔ وہ نہ بھی چاہیں تو ان سے وقت مانگنا پڑےگا۔
یہ بھی پڑھیں: قندیل کو کیسے قتل کیا‘ بھائی کا بیان
ابھی عشق کے امتحاں اوربھی ہیں۔ پھرکسی قندیل بلوچ کے موت کا ذمہ اٹھانے کے لیے تیارہوجائیں۔ ہمیں اپنی بصیرت کی روشنی تیزکرنی ہوگی۔ ہمیں 1400 سال پہلے فراہم کیا گیا ضابطہ حیات و ضابطہ اخلاق دوہرانا ہوگا، ہمارے لئے حدیں مقرر ہیں، کیا ہم ان حدوں کے تعین کرنے میں کوئی غفلت تو نہیں برت رہے ؟۔ لاتعداد سوالات ہیں اور ان لاتعداد سوالات کہ انگنت جوابات ہیں۔ الجھنا چاہتے ہو تو الجھتے چلے جاؤ گے۔ ورنہ ’’سیدھا راستہ تو بتا دیا گیا ہے‘‘ فیصلہ کرناہے، سمت کا تعین کرنا ہے ۔ معلوم نہیں کتنا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ کتنا کچھ بولا جارہا ہے۔ سب لکھنے والے، سب بولنے والے ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں۔ قابلِ تقلید نہیں۔ مکھی پر مکھی بٹھانے والے کی طرح یا لکیرکے فقیر کی طرح زندگی تو گزر جاتی ہے لیکن آخیر (مرتے وقت) میں ایک سوال پیدا کردیتی ہے کہ ’’کیا یہاں تک کا سفراسی راستے پر چلا جس پرچلنا تھا‘‘ اس وقت بہت سارے ابہام ہوتے ہیں بہت سارے ’’ اگراورلیکن ‘‘ ہوتے ہیں۔
معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہماری باعزت اورقابلِ احترام خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ مرد اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں، مردوں کی ذمہ داری دہری ہے ایک گھرکہ اندراوردوسری گھر سے باہر۔
دشمن اپنی بھرپورتیاریوں سے ہمیں ہرطرح سے نقصان پہنچانے پرکمربستہ ہے، جس کا اندازہ گزشتہ کچھ ماہ میں بہت واضح ہو چکا ہے۔ وہ ہمارے لیے ہرطرح کی چالیں چل رہا ہے۔ قندیل بلوچ بھی انہی چالوں کا حصہ تھی۔ اس کا قتل بھی انہی چالوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں اپن من کی آنکھیں کھولنی ہوں گی اپنی بصیرت سے کام لینا ہوگا اوربہت حقیقت پسندی سے، بہت بردباری سے بدلتے ہوئے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل اپنی نئی نسل کو ساتھ بٹھا کرطے کرنا ہوگا، انشاءاللہ قدرت ہماری مدد ضرورکرے گی۔