جہاں دنیا بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے وہیں تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک اس شش
وپنج میں مبتلا ہیں کہ اس ترقی کو کیسے روکا جائے یا اسے ہضم کیا جائے۔ ترقی کے اثرات کسی نہ کسی طرح
دنیا میں نافذ ہرمعاشرتی عمل پر مرتب ہورہے ہیں۔ کسی نا کسی شکل میں یہ ترقی تیسری دنیا کہ ممالک میں داخل
ہو رہی ہے۔ دہشت گردی آج پوری دنیا میں ہورہی ہے، یہ بھی ترقی کا ایک بیج تھا اوراب نشونما پاکرایک
تناوردرخت بن چکا ہے۔ دہشت گردی بہت واضح شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جس کا مقصد لوگوں کو قتل
کرنا، دھماکے کرنا اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانا ہے، دہشت گردی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلے
پہل یہ صرف مسلم ممالک تک محدود تھی یا دہشت گردوں کہ ٹھکانے مسلم ممالک تک محدود تھے۔ اب دہشت گرد،
دہشت گردی لے کرامریکہ اوریورپ میں اپنے جلوے دکھلارہے ہیں، دہشت گردی ایک ایسا ’’جن‘‘ بن چکا ہے جس
کو قابو میں کرنے کے لئے ساری دنیا سرجوڑکربیٹھ گئی، عملی اقدامات کئے جو چاہا جیسا چاہا ویسا کیا مگر یہ
جن ابھی تک بے قابو ہی ہے بلکہ اس کو قابو میں کرنے کی کوششوں میں معلوم نہیں کیا کچھ اورتباہ و برباد ہوگیا۔
مزید پڑھیں: سائبر کرائم بل پرصحافی برادری/سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا اظہارتشویش
دنیا، جہاں اس عملی دہشت گردی سے تاحال پریشان ہے وہیں دوسری طرف سماجی میڈیا نے اس دہشت گردی کے
خلاف اپنا کردارادا کرنا شروع کیا اور دنیا میں رونما ہونے والے ناانصافیوں کو منظرِعام پرلانا شروع کیا۔ آج دنیا
کہ کسی کونے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی خبروں کے ذریعے تو اتنی جلدی پتہ نہیں چل پاتی
کیونکہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق کے پابند ہوتے ہیں اور اس کے مطابق ہی کسی بھی خبر کو عوام الناس کیلئے شائع
کرتے ہیںمگر سماجی میڈیا سے متعلق ویب سائٹس اگلے ہی لمحے میں اس واقعے کا ایسا چرچا کرتی ہیں کہ خبر
پھر خبر نہیں رہتی، اور سماجی میڈیا پر کوئی بھی خبر بھرپور حقیقت پر مبنی اور بلکل عینی شاہدین کی شائع
کردہ ہوتی ہیں۔ ابتداء میں تو اس طرح کی باتوں کو خبروں کو سماجی میڈیا پر شائع ہونے پر کسی قسم کی تنقید کا
سامنا نہیں تھا۔۔۔۔۔مگر وقت کہ ساتھ ساتھ انسان کہ ذہن کو وسعت ملتی گئی وہ گھر بیٹھے یا چلتے الغرض کہیں
بھی اسے وقت سے پیشتر ہی خبر میسر آنا شروع ہوگئی۔ پھربات اس سے اورآگے بڑھی اوران سماجی ویب سائٹس
کو سیاسی پارٹیوں نے استعمال کرنا شروع کیا اوراپنا منشور اپنے روزانہ کے معاملات ان ویب سائٹس کہ ذریعہ
سے عوام تک پہنچانے لگےاوربین الاقوامی سیاسی سرگرمیوں سے بھی عام آدمی کو آگاہی ملنا شروع ہوگئی، یعنی
دنیا کی سیاسی بالیدگی میں خاطرخواہ اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
دہشت گردی سے سیاسی اورمذہبی ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچی، بہت سارے ایسے معاملات ہوتے تھے جو راز بن کر
رہتے تھے لیکن اب کوئی راز راز نہیں کہ دیگرممالک کی عوام سماجی ویب سائٹس پرآمنے سامنے آگئے اور ایک
دوسرے کو اچھا یا برا کہنا شروع کردیا، کہیں معاملات سدھر گئے کہیں بگڑگئے، دنیا نے مختلف حصوں میں بٹنا
شروع کردیا۔
آج مشرق اورمغرب کے سیاستدان یا حکمران سماجی ویب سائٹس کہ ذریعے سیاسی سمتوں کا تعین کرلیتے ہیں۔
کافی حد تک عوامی ردِعمل سے شناسائی ہوجاتی ہے۔ یہ ساری باتیں ایک تعلیم یافتہ اورباشعور معاشرے کی عکاسی
کرتی ہیں۔
پاکستان اور پاکستانی مزاج دنیا سے بہت ہٹ کر ہے یہاں چور کو چور کہنے والے کو سزا دے دی جاتی ہے۔
یہاں انصاف کرنے والے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، یہ پاکستان ہی ہے جہاں سیاست کرپٹ ترین لوگوں
کا وطیرہ ہے۔ ایک پڑھا لکھا باشعور آدمی سیاست تو کیا سیاست کہ نام سے بھی دوربھاگتا ہے۔ اسے اپنے ذمے
کفالت کرنے والوں کا بہت خیال ہوتا ہے اوروہ انہیں حلال رزق کھلانا چاہتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو پاکستان کا
بچہ بچہ جانتا ہے۔ چورکو کوئی چور بولنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ جبھی تو ہمارے ملک میں گھوم پھرکر کچھ
مخصوص چہرے اقتدار پر ہنسی خوشی براجمان رہتے ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام سے ہرطرح کہ
ٹیکس کی مد میں وصول کیا گیا روپیہ پیسہ ان لوگوں کی ذاتی ملکیت ہے۔ انہیں پاکستان اورپاکستانی سے کچھ
نہیں لینا دینا نہیں کیوں کہ ان کا تعلق پاکستان کے بیت المال سے ہے۔ ہم پاکستانی بھی انتہائی درجے کے بے
حس لوگ ہیں، چلتی پھرتی لاشیں ہیں جو ہر دفعہ وہیں سے ڈسے جاتے ہیں جہاں سے گزشتہ دہائیوں سے ڈسے جا
رہے ہیں۔
حکومت نے سائبر کرائم کا قانون بنا لیا ہے اور بہت سخت سزائیں بھی متعین کی ہیں۔ اب نشاندہی کرنے والے ،
بولنے والے، لکھنے والے سب کہ سب مجرم نا ٹہرجائیں، جرم سے لتھڑے ہوئے اس معاشرے میں اب ان لوگوں
کو بھی ملوث نا کرلیا جائے جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرات کرتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مفاد پرستوں نے
اپنے کارناموں پراپنے مفادات پر انگلی اٹھانے والوں کوڈرانے کیلئے یا انہیں حق گوئی سے روکنے کیلئے یہ
قانون مرتب دیا ہے تاکہ ان کے کالے کارنامے عوام تک نہ پہنچ سکیں۔ ہم ’’سول ڈکٹیٹرشپ‘‘ میں زندگیاں بسرکر
رہے ہیں۔ یہاں جمہوریت مفادپرستی کے نام پرقائم ہے۔ سائبرکرائم کا قانون بنا کر شائد یہ ثابت کرنے کی کوشش
کی گئی ہے کہ ہم واقعی ’’تیسری دنیا‘‘ کی ریاست ہیں۔ اگریہ سب باتیں اس قانون سے آزاد ہیں یا سچ اس قانون
سے آزاد ہے تو پھرکوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے اطلاق سے قبل اس قانون کو منظرِعام پر لانا چاہیے تھا اس پر
عوامی ردِ عمل دیکھنا تھا۔ سماجی ویب سائٹس سے اس پر تبصرہ کروانا تھا۔ ٹیلی میڈیا اور پرنٹ پیڈیا والوں سے
آراء لینی تھی پھران کی روشنی میں کوئی فیصلہ ہوتا۔
تعلیم کا یہاں برا حال ہے، صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، ذرائع آمدورفت کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
کراچی جیسا بین الاقوامی شہرکچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ گٹرابل رہے ہیں گندا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے۔ غورتو
کیجئے ہمارے ملک کے معززسیاستدان پاکستان میں علاج کروانا تو درکنار ملکی امور کی مشاورت کیلئے بھی کبھی
دبئی تو کبھی لندن کا رخ کرتے ہیں۔ ان ساری چیزوں پرزباں بندی کیلئے حکومتِ وقت نے یہ کارنامہ سر انجام
دینے کی کوشش کی ہے۔ قوانین تو ہمارے ملک میں سارے ہی ہیں مگرپھربھی قتل کرنے والا غیرت کا نام لے کر
اپنی بہن، بیٹی اوربیوی کو قتل کردیتا ہے،اربوں روپے کرپشن کر کے لوگ معززین بنے پھرتے ہیں، معصوم
بچوں کو اغواء و زیادتی کرنے والے سرِ عام ہنستے مسکراتے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں، قانون کہ رکھوالے
اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان کہ اہل ِ خانہ سڑکوں پر اپنے حقوق کی بھیک مانگتے ہیں،
جعلی ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں اورکوئی بڑی گاڑی والا کسی پیدل چلنے والے کو کچل رہا ہے۔ قانون تو سارے
ہیں مگربالادستی کس کی ہے اصل سوال یہ ہے۔
دعا کیجئے گا کہیں میرا یہ مضمون بھی اس نئے قانون کی زد میں نہ آجائے۔ واضح ضابطہ اخلاق ہرادارے کا
ہونا چاہئے۔ شتربے مہار ہونے کی اجازت کسی کو نہیں، مگرسچ پر قدغن نہیں، ہم جیسے لوگ تو پھرگھٹن سے ہی
فوت ہوجائیں گے۔ خدا کرے کہ جیسا میں سوچ رہا ہوں ایسا بالکل نہ ہو۔
اللہ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے (آمین)۔۔۔پاکستان پائندہ باد۔