وزیرِاعلی سندھ صبح 9 بجے دفتر پہنچ گئے ، عملے کی دوڑیں لگ گیئں”2 اگست 16 کے اخبارات میں یہ خبر انتہائی اہمیت کی حامل تھی جس سے یقیناً اخبارات کی رونق بڑھ گئی۔ اس سے پیشتر وزیرِاعلیٰ کے دفتر آنے تک کی خبر نظروں سے نہیں گزری۔ یہ خبر انتظامی امور سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے اور پیشہ ور لوگوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ خبر ان گنے چے لوگوں کے لیے بھی بہت اہم تھی جو ملکِ خداد پاکستان سے تھوڑی سے بھی سچی محبت رکھتے ہیں۔ خبر کو پڑھ کر ایسا لگا کے سندھ کی قسمت بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ وزیرِ اعلی کا 9 بجے دفتر پہنچ جانا ان تمام نا اہل اور کرپٹ افسران کے لیے طبلِ جنگ سے کم نہیں۔ وقت کی پابندی ایسا بنیادی عمل ہے جس کی روح سے ادارے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں ہم اب امید کر رہے ہیں کے سندھ اب بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔
سندھ میں عرصہ دراز سے ’’سائیں کی صورت‘‘ میں پاکستان پیپلز پارٹی برسرِاقتدار ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں اکثریتی جماعت ہونے کی باعث کبھی بھی کسی دوسری جماعت کے بغیر حکومت بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ مگر جماعت کے روحِ رواں جناب آصف علی زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی کی مر ہونِ منت اقتدار کی خواہش مند جماعتوں کو بھی احساسِ محرومی سے دور رکھنے کے لیے حکومت میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔ وزیر بھی دئیے گئے اور مشیر بھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر ایک انتہائی منظم جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ لیکن ایک تجزیے کے مطابق پاکستانی قوم میں زبان کے تعصب کے باعث اس جماعت کو سندھ کی نمائندہ جماعت کہا جاتا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بہت کٹھن ادوار دیکھے، اپنی اعلی ترین قیادت کی قربانیاں دیں۔ یہ جماعت پاکستان میں جمہوریت کی بقا کی جنگ میں ہر اول دستے کی مانند کمربستہ رہی ہے۔ وقت کی بے رحمی کی بدولت پاکستان پیپلز پارٹی انتظامی امور میں کچھ غیر منظم ہوتی چلی گئی، اگر یوں کے ا جائے کے وقت پر ذمہ داریوں کی تقسیم صحیح لوگوں میں نہیں کی جاسکی۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا جماعتی مسئلہ کہا جاسکتا ہے مگر یہ مسئلہ ملکی سطح پر اثر انداز ہوتا چلا گیا اور جماعت کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی ہوتی چلی گئی۔ محترم مخدوم امین فہیم صاحب جہانِ فانی سے کوچ کرگئے مگر انہیں کسی بھی اہم انتظامی عہدے سے ہمیشہ دور رکھا گیا۔ آپ وہ شخصیت تھے جو انتہائی برے وقت میں اپنی جماعت کا جھنڈا تھامے اسے آگے بڑھاتے رہے ۔ایسا بھی سننے میں آیا کے پاکستان پیپلز پارٹی ہائی جیک ہوچکی ہے۔ پاکستان کی حالیہ سیاست پر نظر ڈالیں تو پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی بصیرت کے حامل اور جہاں دیدہ لوگوں کے معاملے میں کافی حد تک خود کفیل ہے۔ آج بھی ان لوگوں میں وہ سیاستدان شامل ہیں جنہوں نے جمہوریت کی بقاء کے لیے قید بند کی صعوبتیں جھیلی ہیں۔ ان اہم سیاسی شخصیات میں نبی داد خان صاحب، رضا ربانی صاحب، سید خورشید شاہ صاحب، سید قائم علی شاہ صاحب، نثار کھوڑو صاحب، آغا سراج درانی صاحب و دیگر جیسے قابلِ ذکر سیاست دان موجود ہیں۔ جو اس جماعت کے اہم ترین ستونوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ناموں پر غور کیا جائے تو تمام کے تمام کا تعلق سندھ سے ہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی یقیناً انہی لوگوں کے کاندھوں پر کھڑی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب سید قائم علی شاہ صاحب المعروف ’’سائیں‘‘ کی حالیہ تنزلی اور انکی جگہ جناب سید مراد علی شاہ صاحب کی تعیناتی کچھ آنے والے اچھے دنوں کی نوید دے رہی ہے۔ محسوس یہ کیا جا رہا ہے کے پاکستان پیپلز پارٹی نے پارٹی کی ’’تعمیرِ نو‘‘شروع کر دی ہے۔ اب سندھ کے دیہی علاقوں کی نمائندہ جماعت، سندھ کے شہری علاقوں میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرے گی۔ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی مومنٹ مختلف گھمبیر مسائل سے دوچار ہونے کے سبب بظاہر شہری علاقوں میں اپنی گرفت کمزور کرتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ عرصہ دراز سے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت رہی ہے مگر کچھ عرصے سے اپنی حلقوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھوتی نظر آرہی ہے۔ شہرِ کراچی کی موجودہ صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس بات کا حتمی فیصلہ آنے والے الیکشن ہی کرسکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی ٰاور نوجوان قیادت نے وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اپنی جانب سے بہت اہم وقت پر مراد علی شاہ صاحب جیسے بیوروکریٹک ذہنیت کے مالک وزیرِاعلیٰ کو تعینات کر کے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے جن کے صبح 9 بجے دفتر پہنچنے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کے یہ کچھ کرنے کا جذبہ لئے 9 بجے دفتر پہنچ گئے۔ ہمیں ایسی چہ مہ گویوں کو قطعی طور پر نظر انداز کردینا چاہئے کے یہ صرف سیاسی نوازشات ہیں۔ مذکورہ خبر سے اس بات کا عندیا تو ملتا ہے کہ ’’نئے شاہ صاحب‘‘کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں اور صوبے کی سیاسی اور انتظامی صورتحال میں ہلچل مچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں رینجرز کے اختیارات بھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کتنی جمہوریت کی حمایت کی خواہ ہے۔
دوسری طرف نئے شاہ صاحب کو چاہیے کے انتظامی اداروں کو حکومتی ادارے کے ماتحت کر کے کام کرنے کی آزادی دیں آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا کہ شہروں کا کچرا حکومتوں کی لڑائی کی نظر ہوتا رہے گا۔ ایک بین الاقوامی شہر لاپرواہی کی حدوں کو چھو رہا ہے‘ کراچی کی حالت اس وقت بلکل یتیم نہیں بلکہ مسکین بچے کی جیسی ہے اورایدھی صاحب کے انتقال کے بعد سے تو اس بات پر مہر ثبت ہوگئی ہے۔
خصوصی طور پر سندھ کے شہری اس بات کے لیے دعا گو ہیں کے ہمیں ہمارے بنیادی حقوق دئیے جائیں آخر کب تک یہ علاقائی، نسلی، لسانی اور سیاسی تعصب ہمارے لئے باعثِ ظلمت بنا رہے گا۔ سارا کا سارا شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے کوئی سننے والا نہیں ہے تاہم صبح سویرے دفتر پہنچ کر شاہ صاحب نے یہ عندیہ تو دے دیا ہے کے صوبہ سندھ میں نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔